donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Hafeez Nomani
Title :
   45 Sal Purani Qabar Se Zinda Lok Pal Nikal Ke Dikhaiye

45

سال پرانی قبر سے زندہ لوک پال نکال کے دکھائیے

 


حفیظ نعمانی

 

عام آدمی پارٹی نے جن لوک پال بنانے کا فیصلہ کرلیا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس کا بل اسمبلی میں 30  نومبر کو پیش کردیا جائے گا۔ الیکٹرانک میڈیا کی یہ بہت بڑی کمزوری ہے کہ اگر مسٹر اروند کجریوال کی مخالفت میں کوئی میدان میں آجاتا ہے تو پھر اسے پوری اجازت ہوتی ہے کہ دل کی ساری بھڑاس نکال دے۔ مسٹر شانتی بھوشن ہمیشہ کے جن سنگھی اور بھاجپائی ہیں۔ وہ شری انّا ہزارے کے ساتھ اس وقت لگے تھے جب وہ کانگریس کی حکومت پر لوک پال بنانے کے 45  سال پرانے وعدے کو پورا کرانے کے لئے میدان میں آئے تھے یا بی جے پی کے ذریعہ لائے گئے تھے۔
انّاہزارے نے جو کچھ کیا اور جب جب کیا وہ اتنی پرانی بات نہیں ہے کہ لوگ اسے بھول گئے ہوں؟ اسی وقت یہ شہرت ہوئی تھی کہ رام لیلا میدان میں جو ایک لاکھ سے زیادہ ’’میں انّاہوں‘‘ کی ٹوپی لگائے لوک پال کا تقرر کرانے کی حمایت میں دن رات جمے ہوئے تھے ان سب کو آر ایس ایس کی طرف سے کھانا دیا جارہا تھا۔ پھر سب کچھ ہونے کے بعد حکومت کی طرف سے کہا گیا کہ آپ جیسا لوک پال چاہتے ہیں اس کا بل بنا دیجئے۔ تب بل کو قانونی شکل دینے کے لئے انّاجی نے دونوں بھوشن باپ بیٹوں کو خود لیا تھا یا انّاجی کو ان کا ہاتھ دیا گیا تھا؟ یہ دونوں باپ بیٹے کانگریس کی مخالفت کی وجہ سے شری انّا کے ساتھ تھے اور بل کا مسودہ انہوں نے ہی بنایا تھا۔ لیکن کانگریس کی حکومت میں وہ ایک میز سے دوسری میز اور ایک کمیٹی سے دوسری کمیٹی کے پاس جاتا رہا اور 2014 ء آگیا جو سب کو سیلاب کی طرح بہا کر لے گیا۔

بی جے پی کی حکومت بن جانے کے بعد نہ شانتی بھوشن اپنی حکومت سے کہہ سکے اور نہ پرشانت بھوشن اپنے پتاجی پر زور ڈال سکے۔ آج 18  مہینے ہونے والے ہیں لیکن اننا ہزارے خاموش ہیں اور ان کے جو ساتھ آئے تھے وہ حقیقت معلوم ہونے کے بعد اپنے نیتا کو چھوڑ گئے یا یہ سمجھ کر کہ اگر ان کی انگلی ہی پکڑے رہے تو پوری زندگی جنترمنتر اور رام لیلا میدان میں بھوکے رہنے کا ڈرامہ کرتے یا مرن برت رکھ کر مزید زندہ رہنے کی نوٹنکی کرتے ہی گذر جائے گی۔ لہٰذا سیاست کی گندی جیل میں اُترو اور اس کی گندگی صاف کرو۔

اروند کجریوال نے یہ بات انّاجی سے کہہ دی تھی اور اننا صاحب کی ایک بیٹی جیسی کرن بیدی نے مخلص کجریوال کی مخالفت کے لئے  انّاہزارے کو بدگمان کرنے کی کوشش کی لیکن جب انہیں مودی صاحب نے وزیر اعلیٰ بنانے کے لئے آواز دی تو اس وقت انہوں نے انّاہزارے سے اجازت لینا ضروری نہیں سمجھا اور ساڑی کا پلّو کمر میں لپیٹ کر مودی کا پرچم لے کر جمنا ماں کی گود میں کود گئیں۔

2015 ء میں دہلی کا جو الیکشن ہوا اس کی ایک اہمیت یہ بھی ہے کہ اروند کجریوال جیسے اکیلے انسان کو وزیر اعظم شری مودی، حکمراں پارٹی کے کھلاڑی صدر امت شاہ اور دہلی کی انتہائی نیک نام پولیس کی اعلیٰ ریٹائرڈ افسر کرن بیدی سے تن تنہا مقابلہ کرنا تھا۔ کرن بیدی کو وزیر اعلیٰ بنانے کے لئے مرکزی حکومت کا خزانہ بھی حاضر تھا اور ملک کے ہر سرمایہ دار کے تہہ خانہ میں بھرا ہوا بلیک روپیہ بھی۔ دوسری طرف سب دیکھ رہے تھے کہ کجریوال الیکشن کا خرچ اس طرح جمع کررہے تھے کہ میرے ساتھ چائے پیو اور پانچ ہزار دے دو۔ اگر کھانا کھائو تو دس ہزار دے دو۔ اسے اگر مدد مانگنے کا شریفانہ طریقہ کہیں تو کیا غلط ہے؟ اور الیکشن کا نتیجہ سامنے ہے جس نے ثابت کردیا کہ صرف ایک انسان ہے جس کا نام کجریوال ہے وہ بھروسہ کے قابل ہے ایماندار ہے اور سچا ہے۔

ہمارے بیٹے بھی ہیں، بھتیجے بھی ہیں اور بھانجے بھی برسہابرس سے دہلی میں ہیں اور نہ جانے کتنے دوست ہیں۔ ہمیں کوئی ایک ایسا نہیں ملا جس نے کجریوال کی شکایت کی ہو اور کوئی نہیں بتا سکا کہ شانتی بھوشن کا ذکر ہی کیا پرشانت بھون اور یوگیندر یادو بھی اس کو دہلی کے لئے بہتر سمجھتے تھے کہ دہلی میں بی جے پی کی حکومت اس لئے ہو کہ مرکز کی حمایت حاصل رہے گی۔ اب شانتی بھوشن جیسے بزرگ وکیل کا یہ کہنا کہ وہ ’’لوک پال ہے یا جوک پال ہے‘‘ انہیں اس لئے زیب نہیں دیتا کہ اب انہیں مودی صاحب کے اوپر دبائو ڈالنا چاہئے کہ وہ اس لوک پال کو بنائیں جس کا مسودہ ہم نے بنایا تھا اور جس کی حمایت میں آپ نے کروڑوں روپئے انّاہزارے کی تحریک پر خرچ کیا تھا اور اگر مودی سے نہیں کہہ سکتے تو کجریوال سے کہنے کا حق اس لئے نہیں کہ اب وہ انّاہزارے کے ساتھی نہیں ایک پارٹی کے صدر اور ایک حکومت کے وزیر اعلیٰ ہیں جن کی حیثیت آپ سے بہت زیادہ ہے اور وہ جو بھی بنا رہے ہیں اس کا مسودہ ان کے وکیلوں نے بنایا ہے آپ نے نہیں اور اگر وہ اس بل کو رام لیلا میدان میں پاس کیا ہوا بل کہہ رہے ہیں تو انہیں سمجھنے کا اس لئے حق ہے کہ وہ بار بار رام لیلا میدان میں مظاہرہ کرچکے ہیں۔

ایک بات جو پوری قوم سے کہنا ہے وہ یہ ہے کہ جس لوک پال کا پنڈت نہرو کے زمانے میں وعدہ کیا گیا تھا وہ اس وقت کے ملک اور اس وقت کی قوم کے لئے تھا اور اس وقت جیسی حکومت بنتی تھی ان کے لئے تھا اور جیسے پاک صاف خدمت گذار قربانی دے کر آنے والے سوتنتر سینانیوں کے دَور کا بل تھا اس کے بعد جمنا ندی میں جتنا پانی بہا اتنا تو آئندہ ڈیڑھ سو برس میں بھی نہیں بہے گا۔ آج پنڈت نہرو نہیں بلکہ شاستری جی کے بعد جو سرکاریں بنیں اس وقت اگر وہ لوک پال بن چکا ہوتا تو سب سے پہلے وزیر اعظم کو ہی نکال باہر کرتا۔ یہ تو ہم جیسے بے حیثیت آدمی کے سامنے کی بات ہے کہ اندراجی کی حکومت میں پہلے ریلوے وزیر کملاپتی ترپاٹھی بارہ لاکھ روپئے ہر مہینے اندراجی کو پارٹی فنڈ کے لئے دیتے تھے۔ اندراجی نے ان سے کہا کہ اب پندرہ لاکھ کردیجئے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہم سے نہ ہوسکے گا۔ حکم ہوا تو استعفیٰ دے دیجئے اور ترپاٹھی جی نے استعفیٰ دے دیا۔

ہم ڈاکٹر کلدیپ راج نارنگ کے پاس اپنے ایک دوست ابن حسن صاحب کے ساتھ گئے ہوئے تھے۔ جیسے ہی یہ اطلاع آئی نارنگ صاحب اپنے تعلق کی وجہ سے غم کا پرسہ دینے کے لئے جانے لگے اور ہم دونوں کو بھی لے گئے۔ اس طفیل میں یہ سب کچھ اپنے کانوں سے سن لیا۔ اس زمانہ سے ہر وزارت سے پارٹی فنڈ لینا ایک روایت بن گئی ہے اور اس پارٹی فنڈ کا ہی نتیجہ ہے کہ اگر کسی وزیر کو نکالنا پڑا تو آخری حد تک کوشش ہوتی ہے کہ اسے بچا لیا جائے لیکن حکومت ایسی ہو جیسی اندراجی کی تھی، راجیو گاندھی کی تھی یا نرسمہارائو کی تھی تو اس میں کسی بھی طرح بچا لیا جاتا تھا اور ایسی ہو جیسی ڈاکٹر منموہن سنگھ کی تو بی جے پی کے دبائو سے روتے ہوئے ہٹا دیا گیا۔ اس لئے کہ حکومت ایک پارٹی کی نہیں تھی۔

اب اگر مودی صاحب شانتی بھوشن صاحب کا بنایا ہوا لوک پال بل پاس کرادیں تو انہیں خود بھی اربوں روپئے کے غیرملکی دَوروں کا حساب دینا مشکل ہوجائے گا کہ کھویا کیا اور پایا کیا؟ نیز اس سوٹ کا بھی جواب دینا پڑے گا جو 430  کروڑ میں نیلام ہوا۔ رہا للت مودی اور سُشما سوراج کا معاملہ یا راجستھان کی رانی کے بیٹے کا تعلق اور اسمرتی ایرانی کی ڈگری اور محکمہ کی بات تو ’’بھوشن برانڈ لوک پال‘‘ یا تو خود استعفیٰ دے کر بھاگ جاتا یا ہر سال نئے الیکشن کرایا کرتا۔ آج کامیاب سیاست داں وہ ہے جو صرف جھوٹ بولے، جو اپنے بے ایمان ساتھیوں کو بچائے، داغی ممبروں کو اور زیادہ دھاردار بنائے اور جس طرح ہو سکے الیکشن جیتے۔

جیسا لوک پال انّاہزارے چاہتے ہیں وہ ایسا تھا کہ 1967 ء میں چودھری چرن سنگھ اپنے 14  ممبروں کے ساتھ اپوزیشن بینچوں پر جابیٹھے۔ نہ اعتماد کی بات ہوئی نہ عدم اعتماد کی لیکن چیف منسٹر سی بی گپتا اُٹھے اور گورنر کو جاکر استعفیٰ دے دیا۔ یا 1994 ء میں اٹل جی ایک ووٹ سے ہارے۔ وہ ووٹ ذراسی توجہ دلانے سے نااہل ہوسکتا تھا لیکن اٹل جی گئے اور استعفیٰ دے دیا اور یہ زمانہ وہ تھا جب ششی بھوشن کو ایمانداری کے زیادہ اور بے ایمانی کے سال میں دوچار مقدمے لڑنا پرتے ہوں گے اور اب وہ کلیجے پر ہاتھ رکھ کر بتادیں کہ کتنے جھوٹے مقدمے ہر ہفتے انہیں لڑنا پڑتے ہیں؟ اور کتنے سچے؟

آج امت شاہ حکمراں پارٹی کے صدر ہیں۔ پارٹی کے صدر کی ہی وہ طاقت ہوتی ہے جو وزیر اعظم کو بھی بٹھا سکتا ہے۔ ان کے بارے میں دنیا کو معلوم ہے کہ وہ فرضی انکائونٹر کرانے کے الزام اور سہراب الدین اور اس کی بیوی کوثر کو مروانے کے الزام میں مودی کی حکومت ہوتے ہوئے بھی جیل جانے سے نہ بچ سکے تھے اور اب ضمانت پر باہر ہیں۔ ایک خبر سب نے پڑھی ہوگی کہ امت شاہ کو راحت مل گئی۔ سہراب الدین کے بھائی نے اپنی شکایت موت کے خوف سے واپس لے لی۔ ظاہر ہے کہ وہ مسلمان ہے وہ جانتا ہے کہ جب مودی وزیر اعلیٰ تھے تو دوسرے صوبہ میں بیٹھ کر امت شاہ سے لڑسکتا تھا۔ اب مودی ملک کے مہاراجہ ہیں اور امت شاہ چاہیں تو انہیں بھی گدی سے اتار سکتے ہیں۔ ایسے میں ایک مندر سے اعلان کہ سہراب الدین کے گھر میں گائے کٹ رہی ہے۔ اس کے لئے کافی ہے کہ اس کے بھائی کو بھی وہیں پہنچا دیا جائے جہاں سہراب اور کوثر گئے۔ اب اگر وہ واپس نہ لیتا تو کون جج تھا جو اسے انصاف دیتا؟

یہ ہے آج کی سیاست اور حکومت ایسے میں 45  سال پرانے بل کی بات وہی کرسکتا ہے جسے دوسرا گاندھی کہلانے کی تمنا ہو اور چاہے انجام گاندھی جی سے زیادہ دردناک ہو۔ آج جسے جن لوک پال بل کی ضرورت ہے اسے وہی سمجھ سکتا ہے جو حکومت کررہا ہے۔ اس میں 90  برس کے بوڑھے دخل دیں تو یہ سوچ کردیں کہ آج ججوں کے انصاف کا کیا وہی معیار ہے جو اُن کی جوانی میں تھا؟ اور ان کی سمجھ میں نہ آئے تو اپنے کھچڑی بالوں والے بیٹے سے اس مقدمہ کی تفصیل معلوم کرلی جائے جس کے لئے رات کے تین بجے عدالت لگی تھی؟ اور پرشانت بھوشن کیا چاہ رہے تھے اور کس دلیل کی روشنی میں چاہ رہے تھے اور ان کے نزدیک ان کی بات کیوں نہیں مانی گئی؟ اب جو کوئی بھی 45  سال پرانے لوک پال کا مطالبہ کرتا ہے اس سے کہا جائے 1980 ء واپس لے آئو۔ تب لوک پال بنانے کی بات کرو یا اسے پرانی قبر سے سلامت نکال لائو۔

مسٹر پرشانت بھوشن چبا چباکر کہہ رہے ہیں کہ سی بی آئی لوک پال کے ماتحت کردی جائے۔ ان کی اس احمقانہ بات کو کون تسلیم کرے گا؟ یا دوسری ایجنسی بنا دی جائے۔ کون ہے جو دوسری بنائے گا؟ اور اس کے آدمی کہاں سے لائیں گے؟ اس کا لاکھوں کروڑ کا بجٹ کون پاس کرے گا؟ اور سب سے بڑی بات یہ کہ وہ آدمی کون ہے جسے لوک پال بناکر قسم کھائی جائے کہ اس سے غلط فیصلہ ہو ہی نہیں سکتا ہے۔ مصر کی اخوان المسلمین کے بانی شیخ حسن البنا ّ شہید نے لکھ دیا ہے کہ جو انسان نہ بکا ہو اس کے بارے میں یہ نہ سمجھو کہ یہ بکے گا ہی نہیں بلکہ یہ سمجھو کہ اس کی قیمت اس کی مرضی کے مطابق نہیں لگی اور آج وزیر بھی بک رہے ہیں ملک بھی بک رہے ہیں حکومتیں بھی بک رہی ہیں اور پارٹیاں بھی۔ ایسے میں جیسا بھی لوک پال کجریوال بنا دیں وہ اس سے تو اچھا ہوگا کہ کچھ نہ بنے۔ اور یہ تو ہم نے 2012 ء میںلکھا تھا کہ تھانیدار سے یہ کہنا کہ اپنے اوپر ایک افسر تم خود مقرر کرلو کیا احمقانہ مطالبہ نہیں ہے؟ جبکہ تھانیدار جانتا ہے کہ وہ تنخواہ سے بیس گنا زیادہ رشوت لیتا ہے۔ بے گناہ کو سزا دیتا اور گناہگار کو رِہا کردیتا ہے۔

(یو این این)

فون نمبر: 0522-2622300  

****************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 477