donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Hafeez Nomani
Title :
   Faida Kuchh Sonch Le Too Bhi Dana Hai Asad

فائدہ کچھ سوچ لے تو بھی دانا ہے اسد


حفیظ نعمانی

 

پندرہ دن سے زیادہ ہوگئے اس فیصلہ کو کہ دہلی میں فضائی آلودگی کو کم کرنے کے لئے وزیر اعلیٰ اروند کجریوال نے تجربہ کے طور پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ دہلی میں کاروں پر یہ پابندی لگاکر دیکھا جائے کہ آدھی گاڑیاں ایک دن سڑکوں پر آئیں اور آدھی دوسرے دن، انہیں طاق اور جفت کے خانوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ مزید یہ بھی سہولت دی ہے کہ صبح آٹھ بجے سے رات کو آٹھ بجے تک یہ پابندی رہے گی اور اتوار کے دن کوئی پابندی نہیں ہوگی۔ مسٹر کجریوال نے یہ بھی وضاحت کردی کہ ہم پندرہ دن اسے آزماکر دیکھیں گے۔ اگر کامیابی ملتی ہے تو اسے بڑھا دیں گے اور اگر کوئی فرق نہیں پڑتا تو اس فیصلہ کو واپس لے لیا جائے گا۔

آلودگی کے بارے میں جو خبریں آرہی ہیں وہ یہ ہیں کہ سانسوں کے ذریعہ جسم میں زہر داخل ہورہا ہے۔ چھوٹے بچے جو اسکول جارہے ہیں ان کی زندگی خطرہ میں ہے۔ حیرت اس پر ہے کہ ملک کے کم از کم پانچ ہزار بقراطوں نے اس کی مخالفت میں بیان دے دیئے۔ اُترپردیش کے ایک بہت منجھے ہوئے سیاست داں پرمود تیواری، جو کانگریس اور سپا کے ووٹوں سے راجیہ سبھا کے ممبر بنے ہیں اور جن سے یہ اُمید کی جاسکتی تھی کہ وہ کوئی بہت ہی اچھی تجویز پیش کریں گے اس لئے کہ وہ 40  برس ایم ایل اے بھی رہے ہیں وہ بھی کانگریس کی ذلت کے زخم کو قسمت کا فیصلہ نہ سمجھ سکے اور انہوں نے اس تجویز کو راجیہ سبھا میں تغلقی فرمان کہہ کر دل کی بھڑاس نکال لی۔

پرمود جی پنڈت ہیں اور جنم جنم کے کانگریسی ہیں انہیں تو وِنے کٹیار، ڈاکٹر پروین توگڑیا اور اودھے ٹھاکرے کی سطح پر نہیں آنا چاہئے تھا۔ اب تک تو طالبانی فرمان ہی کہا جاتا تھا اب تغلق کی روح کو بھی نشانہ بنایا جانے لگے تو کیا یہ نہیں سمجھا جائے گا کہ جذبات سب کے ایک جیسے ہیں؟ دہلی میں اگر کانگریس کو حکومت کا موقع 15  برس دیا تو وہی دہلی والے تھے نہوں نے ایسی سزا دی کہ پرمود تیواری جیسا منجھا ہوا لیڈر بھی موہن بھاگوت کے لہجے میں بات کرنے لگا۔ کیا وہ یہ نہیں جانتے کہ کامن ویلتھ کے بہانے جتنا خزانے کو لوٹا گیا ہے اس کی تفصیل ہر ووٹر کو معلوم ہے۔ انہوں نے پہلے اکثریت کے بجائے آٹھ ممبروں کو جتاکر دیکھا کہ کانگریس شرمندہ ہوتی ہے یا نہیں؟ لیکن جب شیلا دکشت صاحبہ کو انعام میں کیرالہ کی گورنری دے دی گئی تو عوام نے یہ سمجھا کہ سزا آٹھ سال کی نہیں عمر قید کی دی جائے اور انہوں نے جھاڑو سے ہی اسے صاف کردیا۔

پرمود تیواری صاحب نے راجیہ سبھا کی تقریر میں صرف اس پر زور دیا کہ یہ غلط ہے اور وہ غلط ہے لیکن اروند کجریوال سے 40  سال پرانے سیاسی کھلاڑی ہونے کے باوجود یہ نہیں بتایا کہ پھر کیا کیا جائے جس سے فضائی آلودگی کم ہوجائے؟

شاید آپ نے بھی سنا ہوگا کہ آرٹ کالج کے ایک لڑکے نے ایک پینٹنگ بناکر نمائش میں ٹانگی اور اس کے ساتھ ایک کاغذ پر لکھ دیا کہ اس میں جو کمی ہو وہ بتا دی جائے۔ دوسرے دن درجنوں اعتراض نظر آئے۔ اس نے پانے ماسٹر سے کہا کہ آپ نے تو اس کی تعریف کی تھی۔ لیکن لوگوں نے تو اعتراض سے کاغذ بھر دیا؟ ماسٹر نے ایک کاغذ کے اوپر لکھا کہ برش اور کلر رکھے ہیں۔ جو صاحب کوئی کمی محسوس کریں وہ اسے ٹھیک کردیں۔ پینٹنگ اور کاغذ آٹھ دن لٹکے رہے۔ کسی نے ایک نشان بھی نہیں لگایا۔ تمام ٹی وی چینل ایک وزیر کو اپنے دربار میں بلاکر بٹھاتے ہیں اور ملک بھر سے کہتے ہیں کہ سوال کرو۔ اب کوئی رام بھروسے بولتے ہیں کہ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہر آدمی دوسری گاڑی خریدے گا۔ جمعراتی بھائی کہتے ہیں کہ اگر کوئی صبح سات بجے جاکر چار بجے لوٹنا چاہے تو کیسے لوٹے گا؟ سکھویندر سنگھ کہتے ہیں کہ ہم چھ بجے گرودوارے جاتے ہیں اور 9  بجے واپس آتے ہیں تو کیا ہمیں دن بھر وہیں رُکنا نہیں پڑے گا؟

پندرہ دن کی بک بک جھک جھک سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دہلی میں صرف ایک آدمی بے وقوف ہے اس کا نام اروند کجریوال ہے۔ لیکن ہم اس نتیجہ پر پہونچے ہیں کہ ملک میں کجریوال، ان کی حکومت کے وزیر اور لکھنؤ کا ایک آدمی حفیظ نعمانی ہی صرف بے وقوف نہیں ہیں باقی کیا ہیں؟ اس کا فیصلہ وہ خود کریں۔ نیشنل گرین ٹربیونل ایک ذمہ دار ادارہ ہے۔ اس نے بھی کہہ دیا کہ اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ فضائی آلودگی کس کس طرح کم ہوسکتی ہے؟ مسٹر کجریوال نے صاف صاف کہا ہے کہ پندرہ دن تجربہ کرکے دیکھیں گے اور ایسے لوگ جو کار کے بغیر کہیں جا ہی نہیں سکتے یا بیمار بھائی ہیں، ان کو رعایت دی جائے گی کہ وہ سفر کرسکیں۔ کجریوال کے دماغ میں آلودگی ہے، کاروں سے دشمنی نہیں ہے۔ کیوں مرکزی حکومت سامنے نہیں آتی اور کیوں این۔ جی۔ ٹی۔ یہ ذمہ داری نہیں لیتی کہ ہم آلودگی کم کریں گے؟ اور مسٹر کجریوال کی شرافت اور مزاج کی نرمی بھی ان کی راہ کا پتھر بن گئی ہیں۔ انہیں ایک ڈاکٹر کا رویہ اپنانا چاہئے جو یہ سمجھتا ہے کہ مریض کی جان بچانے کیلئے آپریشن ضروری ہے اور ہر بے وقوف مشورہ دے رہا ہے کہ آپریشن نہ کروائو یہ نہیں بتاتا کہ پھر کیا کرو؟ تو ڈاکٹر کا فرض ہوجاتا ہے کہ آپریشن کردے۔

پوری دہلی مسخروں کی منڈی ہوگئی ہے۔ ایک کہتا ہے کہ کاروں پر پابندی لگانے سے پہلے پانچ ہزار بسیں خریدی جائیں۔ دوسرا اسی دن کہتا ہے کہ دس لاکھ کاروں سے جتنی آلودگی ہوگی اس سے زیادہ پانچ ہزار بسیں پھیلائیں گی۔ پرمود تیواری صاحب کہتے ہیں کہ دہلی کی بسیں کھٹارا ہوگئی ہیں اور وہ اسی وقت کی ہیں جب ان کی حکومت تھی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ صرف آٹھ مہینے میں کھٹارا ہوگئیں۔ ایک مشورہ یہ ہے کہ ڈیزل سے چلنے والی کاروں کا اب رجسٹریشن نہ کیا جائے دس سال پرانی ڈیزل اور پندرہ سال پرانی پیٹرول سے چلنے والی کاروں کو سڑکوں پر نہ آنے دیا جائے۔

اور ہم یہ کہتے ہیں کہ دہلی حکومت جو فیصلہ کرے اس پر عمل کیا جائے۔ ہم نے عرض کیا تھا کہ پولیس کو کنٹرول نہ دیا جائے اور نہ چالان اور جرمانہ کیا جائے۔ ہم سمجھتے تھے کہ محبت اور خلوص میں بہت طاقت ہوتی ہے۔ کجریوال کی آٹھ مہینے کی حکومت میں سوائے بھوشن باپ بیٹوں کے یا اُن کی محبت میں یادو صاحب کے کوئی اعتراض کرنے والا سامنے نہیں آیا۔ اور یہ بھی، یہ نہ بتاسکے کہ کجریوال نے کتنا کما لیا یا کتنی رقم بنالی؟ مسز شیلا دکشت جس الزام میں ہٹائی گئیں وہ کامن ویلتھ کی لوٹ تھی۔ کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ کروڑوں روپئے میں ایک پل وی آئی پی کے لئے بنے اور وہ دس دن پہلے کھڑے کھڑے گرجائے؟ کیا یہ پل بناتے وقت بٹھانے والوں نے یہ سوچا تھا کہ سیمنٹ کے بجائے گارے اور مٹی سے بنادو، کھیل ختم ہونے کے بعد گرجائے تو کون معلوم کرے گا؟ اس زمانے میں کتنی سڑکیں ٹی وی کے رپورٹروں نے دکھائی تھیں کہ رات میں بنیں اور صبح کو ٹرک اس میں دھنس گئے؟ ان حرکتوں کے بعد جب کوئی کانگریسی بولتا ہے تو جی چاہتا ہے کہ کان اور آنکھیں بند کرلو۔

ہم نے دہلی میں اپنے بیٹے کو فون کیا تھا کہ وہ کجریوال کے مشورہ پر عمل کریں ہمارے سامنے ایک دس برس کی پیاری سی پوتی ہے اور ایک تین برس کا پھول سا پوتا تھا۔ مجھے جواب میں سننے کو ملا کہ آپ کی پوتی کو دس دن سے کھانسی آرہی ہے اور جس ڈاکٹر کو دکھایا اس نے کہا کہ آلودگی ہے۔ کیا ہم یہ سمجھیں کہ کجریوال کی مخالفت صرف وہ کررہے ہیں جو بے اولادے ہیں۔ یا وہ جن کے بچے جوان ہوچکے ہیں؟ ہر مسئلہ میں یہ دیکھنا چاہئے کہ کون کہہ رہا ہے اور اس کا کیا فائدہ ہے؟ اگر آلودگی ختم کرنے میں کجریوال کی مدد کرنا ہو تو ہر کالونی میں پڑوسی سے لفٹ لی جاسکتی ہے۔ ہر کسی کو یہ سوچنا چاہئے کہ وہ کیسے اس پروگرام کو کامیاب بنائے۔ جبکہ پوری بی جے پی اور کانگریس یہ چاہتی ہے کہ آلودگی چاہے ہزار بچوں کو کھا جائے مگر کجریوال کامیاب نہ ہو۔ اب فیصلہ ان کو کرنا ہے جو محبت سے کجریوال کو 67  سیٹیں دے کر لائے ہیں؟

(یو این این)
 

*************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 418