donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Hafeez Nomani
Title :
   Izzat Milna Aasan Hai Moazziz Rahna Mushkil

عزت ملنا آسان ہے معزز رہنا مشکل


حفیظ نعمانی

 

تری پورہ کے گورنر نتھاگت رائے گورنری کے فرصت کے لمحات کو دلچسپ بنانے کے لئے نئے نئے شوشے چھوڑتے رہتے ہیں۔ پچھلے مہینے انہوں نے دادری کے ایک خوشحال گائوں میں ایک افواہ پر محمد اخلاق نام کے ایک ایسے مسلمان کے قتل پر (جس کا بیٹا ہوائی فوج میں افسر ہے) منھ کھولا تھا اور کہا تھا کہ اس واقعہ پر اتنی مذمت اور احتجاج کرنا کیوں ضروری سمجھا جبکہ گذشتہ فسادات کی بات نہیں کی جاتی؟ وہ شاید کسی ایسے فساد کا حوالہ دے رہے تھے جس میں بے گنتی ہندو مار دیئے گئے ہوں مگر حوالہ انہوں نے کسی کا نہیں دیا۔

اب جو انہوں نے مارو گھٹنا پھوٹے آنکھ جیسی بات کہی ہے کہ ’عدم برداشت کی جنگ تبھی متوازن ہوسکتی ہے جب مسلم عوام عوامی طور پر سور کا گوشت کھائیں۔ رائے صاحب پورے بنگال بی جے پی کے صدر رہ چکے ہیں اور ناممکن ہے کہ ان کی زندگی کا بڑا حصہ کلکتہ میں نہ گذرا ہو اور جو کوئی بنگالی دس بیس برس بھی کلکتہ میں رہا ہے وہ ناممکن ہے کہ کلکتہ کے ہندوستانی کھانوں کے لئے مشہور ’’صابر ہوٹل‘‘ کو نہ جانتا ہو اور اسے یہ معلوم نہ ہو کہ صابر ہوٹل جو 80-70  برس سے کھانا کھلا رہا ہے اس میں کسی بھی طرح کی سبزی یا کسی بھی قسم کی دال نہیں پکتی۔ صرف گوشت پکتا ہے اور نہ جانے کتنے قسم کا پکتا ہے اور اس کا کھانا کھانے والوں میں 90  فیصدی بنگالی ہندو ہوتے ہیں ۔ یہ ضرور ہے کہ گائے کے گوشت کی کوئی چیز تیار نہیں ہوتی۔

رائے صاحب کو اچھی طرح معلوم ہوگا کہ بنگال میں جیوتی بسو کے زمانے سے کھلے طریقہ سے گائے کا گوشت بکتا ہے اور غریب مسلمانوں کی سستی غذا وہی ہے۔ رائے صاحب نے مزید کہا کہ کچھ دنوں پہلے سی پی ایم لیڈر اور سابق میئر بکاس بھٹاچاریہ نے عوامی طور پر بیف کھایا۔ میں ان کے اس اقدام کی تعریف کرتا اگر وہ سی پی ایم لیڈر محمد سلیم کو بھی وہاں بلاتے اور ان کے ساتھ سور کا گوشت کھاتے اور کھلاتے اگر ایسا ہوتا تو میرے پاس بیف فیسٹیول پر تنقید کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔

ہمارا خیال یہ ہے کہ رائے صاحب نے ڈنڈی ماری ہے تنقید کی وجہ کے بارے میں ان کا یہ کہنا ہے کہ وہ رہتی یا نہ رہتی عذر لنگ ہے۔ وہ عمر کی اس منزل میں ہیں جس عمر کے لوگوں کو یا تو مودی نے موہن بھاگوت کے حکم سے بزرگی کا تاج پہناکر پرفضا قید و راحت دے دی یا درجنوں کو گورنر ہائوسوں کی زینت بنا دیا۔ انہیں اپنے وجود کا ثبوت دینے کے لئے کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑنا پڑتا ہے۔ رائے صاحب کو شاید سی پی ایم لیڈر سلیم صاحب نہ بتاسکیں لیکن ہم بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کے لئے ان کے پروردگار نے بہت سی چیزوں کو حرام کردیا ہے لیکن سب کا نام قرآن پاک میں نہیں ہے اور جن چند کو کچھ زیادہ ہی اہم سمجھا ہے ان کا نام بھی بتا دیاہے۔ ’’تمہارے اوپر حرام کردیئے گئے مردہ جانور، خون اور سور کا گوشت اور اسے جسے اللہ کے علاوہ کسی دوسرے نام پر قربان کیا ہو۔‘‘

(جیسے بَلی) 

(آزاد ترجمہ)


رائے صاحب عمر کے اعتبار سے بزرگ ہیں یہ تو اس سے معلوم ہوگیا کہ انہیں کابینہ کا ممبر بنانے کے بجائے گورنر بنایا گیا۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، اس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ بنگال کے پارٹی صدر رہے۔ مذہبی بھی ہیں جس کی دلیل یہ ہے کہ انہیں بیف سے عقیدت ہے۔ تو کیا وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ سور ایک ناپاک جانور ہی نہیں ایک گندی گالی بھی ہے اور کسی کو سور کہہ دینا آخری درجہ کی گالی سمجھا جاتا ہے۔ اگر کوئی مسلمان حرام چیز کو حرام جانتے ہوئے کھالے تو اسلامی قانون میں اس کی سخت ترین سزا ہے اور سور کا مسلمانوں کے نزدیک حرام ہونا مسلم حکومتوں میں ہی نہیں ہے۔ 100  سال انگریزوں کی حکومت رہی اور عیسائی ہندو کے مقابلہ میں کہیں زیادہ سور کھاتا ہے۔ بلکہ اگر سور ہو تو وہ اور کچھ کھانے کو پسند نہیں کرتا۔ لیکن کیا گورنر رائے صاحب ہندوئوں کی کسی کتاب میں یا کسی شنکر آچاریہ جی کا بیان دکھا سکتے ہیں کہ اگر کسی ہندو نے بیف کھایا تو اسے کیا سزا دی جائے گی۔ یا وہ ہندو نہیں رہے گا۔

گورنر نتھاگت رائے صاحب سے عرض کرنا ہے کہ اگر محمد سلیم صاحب سور کا گوشت جان بوجھ کر کھا لیتے تو انہیں سزا کے طور پر اسلامی حکومت نہ ہونے کے باوجود بھی کفارہ ادا کرنا پڑتا ہے یہ انتہائی سخت گناہ ہے جس کے لئے توبہ اور استغفار کرنا ہوگا اور آخرت میں اسے اس کی کیا سزا ملے گی یہ سزا دینے والا ہی جانے؟

ہمارا اور ہمارے بڑوں اور چھوٹوں کا حلقہ دیکھا جائے تو ہزاروں ہزار مسلمانوں پر مشتمل ہے ان میں انتہائی نیک بندے بھی ہیں، عالم دین اور علم دنیا کے ممتاز افراد بھی ہیں، تاجر بھی ہیں، ماسٹر بھی ہیں اور سرکاری ملازم بھی ہیں وہ بھی ہیں جن کے متعلق معلوم ہے کہ وہ شراب بھی پی لیتے ہیں اور وہ بھی ہیں جو نماز روزہ کے پابند بھی نہیں ہیں۔ لیکن ان لاکھوں میں کوئی ایک نہیں ہے جس کے متعلق معلوم ہوا ہو کہ اس نے خنزیر کا گوشت کھایا ہے یا خون پیا ہے یا مردہ جانور کھایا ہے؟ ان تمام چیزوں کو وہ حرام ہی نہیں ناپاک بھی مانتے ہیں اور انگریزوں کی حکومت میں رائے صاحب نے بھی دیکھا ہوگا کہ کلکتہ میں خاص طور پر اور ملک کے شہروں میں عام طور پر اگر گائے کے گوشت کی دکانیں 100  ہیں تو خنزیر کے گوشت کی دس بھی نہیں ہیں۔ جبکہ انگریز کی وہ سب سے پسندیدہ غذا تھی اور ہندو کو کھانے میں رکاوٹ نہیں تھی۔

ایک بات رائے صاحب اور دیکھیں کہ جسٹس کاٹجو نے نہ جانے کتنی بار کہا ہے کہ انہوں نے گائے کا گوشت کھایا ہے اور اب بھی کھائیں گے لیکن ہندو سماج میں وہ آج بھی اتنے ہی محترم ہیں جتنے مسلم سماج میں۔ لیکن کوئی ایک مسلمان ایسا بتادیں جس نے سور کھایا ہو اور اس نے کہا ہو کہ ہاں کھایا ہے اور پھر کھائوں گا۔ اسے مسلمان اپنے پاس بٹھانا بھی یا اس کا نام عزت سے لینا بھی برداشت کرتے ہیں؟ رائے صاحب گائے کے پجاری ہیں یا اپنے کو ظاہر کرتے ہیں لیکن گائے ہندو کے لئے ماں ہو یا دیوی ہو۔ مسلمان کے لئے بھی پیاری ہے وہ اس کا دودھ بھی بچوں کو پلاتا ہے اور وہ کسی کام کی نہ رہے تو اسے کھاتا بھی ہے لیکن اگر محاورے میں کہتا ہے تو کہتا ہے۔ وہ لڑکی گائے کی طرح سیدھی ہے۔ یہ نہیں کہ کسی کی بدصورتی کے لئے کہا جائے۔ بالکل بھینس ہورہی ہے۔ یا عقل بڑی یا بھینس؟ لیکن گائے کو سور کی طرح گالی نہیں سمجھا جاتا۔ گورنر صاحب اب عمر کی اس سیڑھی پر آگئے ہیں جس میں زیادہ بولنا زیادہ تر شرمندہ کردیتا ہے۔ وہ بھگوان کا شکر ادا کریں کہ گورنر بنادیئے گئے۔ اب اچھا ہے کہ اپنی آخرت کی فکر کریں رہی گائے اور سور انہیں نئی نسل کے لئے چھوڑ دیں۔

(یو این این)

 فون نمبر: 0522-2622300  

__________________

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 437