donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Hafeez Nomani
Title :
   Kya Atal Jee Ke Khwab Ki Tabeer Modi Karenge

کیا اٹل جی کے خواب کی تعبیر مودی کریں گے؟


حفیظ نعمانی

 

یہ بھی تشویش کی بات ہے کہ کانگریس سے حزب مخالف نیتا بھی نہیں آتا۔ 2009 ء سے 2014 ء تک سونیا گاندھی کی قیادت میں ڈاکٹر منموہن سنگھ نے جیسی حکومت کی یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ الیکشن میں 44  سیٹیں لالو اُسے ملیں اور یہ مودی سرکار کی ناکامی کی ابتدا ہے کہ اُسے ایک سیٹ اور مل گئی۔ اب اس کے ایک لیڈر م۔ افضل کا یہ کہنا کہ وزیر اعظم واضح کریں کہ پاکستان سے اصل میں کیا بات چیت چل رہی ہے؟ انہوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ حقیقت تو یہ ہے کہ مودی حکومت کے پاس پاکستان سے مذاکرات کا کوئی خاکہ ہی نہیں ہے اور نہ کوئی روڈمیپ ہے جس پر چل کر وہ کوئی مثبت قدم اُٹھا سکے۔

بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ قاضی جی کیوں دُبلے؟ شہر کے اندیشے میں بات وزیر اعظم نے شروع کی ہے۔ بقول رویش کمار، مودی اور شریف پیرس میں اس طرح بتیا رہے تھے جیسے دو بھائی کسی گھریلو مسئلہ میں سرگوشی کرتے ہیں۔ اور یہ وہی دونوں تھے جن کے متعلق ہر کسی نے کہا تھا کہ یہ کیا مذاق ہے کہ کبھی گرم جوشی سے ہاتھ ملائے جاتے ہیں اور کبھی ؟ آج نہ جانے کیا ہوا تیز قدم گذر گئے۔ ان باتوں پر حیرت کرنے والوں کو یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ مودی صاحب اس نعرہ پر اقتدار میں آئے ہیں کہ وہ پاکستان کو نیست و نابود کردیں گے اور سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کی طرح کمزوری نہیں دکھائیں گے۔ اور پاکستان میں نواز شریف اس نعرہ پر آئے ہیں کہ وہ ہندوستان سے دوستانہ تعلقات بنائیں گے۔ وزیر اعظم مودی کی کرسی کے برابر کی کرسی پر وہ بیٹھے ہیں۔ جو غلام علی کو غزل گانے کی اجازت نہیں دیتے انتہائی اہم ادیب، صحافی اور دانشور کو جو سیاسی مہرہ نہیں ہے اسے کالک میں اس جرم میں نہلا دیتے ہیں کہ وہ ایک پاکستان کی کتاب کی رسم اجراء میں کیوں شریک ہونے کے لئے جارہا ہے؟ اور ان کی وزارت کی ٹیم کے ساتھی ہندوستان کے ہر مسلمان کو پاکستان بھیجتے رہتے ہیں اور ان کی پارٹی کا صدر کہتا ہے کہ بہار میں بی جے پی جیتی تو پاکستان میں پٹاخے پھوٹیں گے۔

ایسے ماحول میں کیا یہ ممکن ہے کہ نریندر مودی صاحب ہر قدم بڑھانے سے پہلے اپنے مخالفوں کو بتائیں کہ یہ کیوں اُٹھایا اور دوسرا قدم داہنے اٹھائیں گے یا بائیں؟ بات تو پرانی ہے لیکن شاید بے موقع نہ ہو کہ 1947 ء کی ابتدائی تاریخوں میں دہلی میں مسٹر جناح سے مسلمان بار بار سوال کرتے تھے کہ آپ نے مائونٹ بیٹن سے کیا کہا اور انہوں نے پاکستان کے بارے میں کیا کہا؟ جناح صاحب نے انتہائی درشت لہجہ میں جواب دیا کہ تم مسلمانوں نے مجھے مائونٹ بیٹن اور مسٹر گاندھی کے ساتھ شطرنج کھیلنے کے لئے کہا ہے۔ اب تم چاہتے ہو کہ ہر چال چلنے کے بعد میں تمہیں بتائوں کہ میں نے پیادہ کو پیچھے کیوں ہٹایا اور گھوڑا آگے کیوں بڑھایا؟ آج کے بعد سب خاموش رہ کر دیکھتے رہو کہ میں نے کون سی چال چلی اور یہ معلوم نہ کرو کہ کیوں چلی؟ شاید اسی لئے مائونٹ بیٹن نے کہا تھا کہ جناح سے بڑھ کر مشکل ترین اور غیرمعقول شخص کے ساتھ کبھی واسطہ نہیں پڑا۔

کانگریس کے ترجمان یا دوسری مخالف پارٹی کے لیڈروں کو دل کی بات کیسے بتائی جاسکتی ہے؟ یہ سب اس وقت بتایا جانا چاہئے جب نتیجہ نکل آئے وہ چاہے اچھا ہو یا برا۔ ہندو پاک مذاکرات چین اور امریکہ یا روس اور امریکہ سے اس لئے زیادہ نازک ہیں کہ یہ صرف سیاسی نہیں مذہبی بھی ہیں۔ پاکستان میں ہندوستان کی مخالفت کرنے والے حافظ سعید ہوں یا اظہر مسعود وہ صورت سے مذہب کے نمائندے معلوم ہوتے ہیں ان کی طاقت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اب تک سیکڑوں نوجوان لڑکوں کو کافروں کو مارکر جنت میں جانے کا یقن دلایا اور انہیں یقین ہو بھی گیا اور وہ سرحد کے پار گھس بھی گئے اور مارا بھی مگر خود بھی مرگئے لیکن وہ جنت میں جانے کے بجائے جہنم میں گئے۔ لیکن نہ کوئی حکومت انہیں روک سکی اور نہ پاکستان کے علماء کرام نے یہ ضروری سمجھا کہ وہ ہر کام چھوڑکر پورے پاکستان میں گھوم گھوم کر جاہل، بے روزگار اور جذباتی مسلمانوں کو بتائیں کہ جہاد میں اگر تم لڑتے لڑتے مارے گئے تو بیشک جنت میں جائوگے لیکن امن کی حالت میں کسی کو، وہ چاہے سرحد پر پہرہ دے رہا ہو یا کھیت میں ہل چلا رہا ہو اُسے مارکر جہنم میں جائوگے۔

پاکستان کی تحریک میں اگر مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا ظفر احمد تھانوی، علامہ سعید سلیمانی ندوی شریک نہ ہوئے ہوتے اور یہ مشہور نہ ہوا ہوتا کہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی اور مولانا عبدالماجد دریابادی وغیرہ پوری طرح پاکستان کے حق میں ہیں تو مسلم لیگ کی حیثیت صرف سیاسی پارٹی کی ہوتی اور اسے ایسی کامیابی نہ ملتی کیونکہ مسلمان سب کچھ چھوڑسکتا ہے دین کو اور اپنے علماء کو نہیں چھوڑ سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ حافظ سعید اور اظہر مسعود نے جو مولویوں جیسی شکل بنالی ہے اور ان کا جیسا ہی لباس پہن لیا ہے اور وہ وہی زبان بولتے ہیں جو علماء کی زبان ہے اس لئے بھولے بھالے لڑکے بے روزگاری سے تنگ آکر جنت میں جانے کے شوق میں جان قربان کردیتے ہیں۔

پاکستان کے صدر ایوب خاں سے پہلے ایک وزیر اعظم نے پنڈت نہرو سے ناجنگ معاہدہ کرنے کے لئے کہا تھا جس کا جواب انتہائی حقارت سے پنڈت جی نے دیا تھا کہ جتنی دیر میں میں پیجامہ نہیں بدل پاتا اتنی دیر میں آپ کے ہاں حکومت بدل جاتی ہے تو کس سے ناجنگ معاہدہ کروں؟ ایوب خاں اور ان کے بعد ہر سربراہ سے گفتگو ہوچکی ہے۔ بھٹو نے شملہ میں اندراجی سے کی بے نظیر سے دہلی میں راجیو گاندھی سے کی ضیاء الحق سے بھی ہوئی نواز شریف اور پرویز مشرف سے بھی ہوئی لیکن ہر گفتگو اس لئے ناکام ہوئی کہ ہندوئوں نے اپنے وزیر اعظم کو اور مسلمانوں نے اپنے کو پورے اختیارات نہیں دیئے۔

آج وہ سُشما سوراج پاکستان جارہی ہیں جن کے بارے میں شہرت ہے کہ اٹل جی اور صدر مشرف کی آگرہ کی گفتگو کو انہوں نے ہی ناکام کرایا تھا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کے مینار پاکستان کے سایہ میں جو اٹل جی اور نواز شریف کے درمیان گفتگو ہوئی تھی اس کے بعد مینار کی زمین کو جماعت اسلامی کے ارکان نے ایسے ہی دھویا تھا جیسے بہار میں مانجھی کے مندر میں جانے کے بعد وہاں کی مورتیوں کو برہمن دھوتے تھے۔ ایسے معاملات کے لئے ہم اپنے کو کسی شمار قطار میں نہیں سمجھتے۔ لیکن جتنی سمجھ ہمیں پروردگار نے دی ہے اس کے بل پر عرض کررہے ہیں کہ ہندو پاک کے درمیان اگر قسطوں میں گفتگو ہوئی تو دوسرے کبھی کامیاب نہ ہونے دیں گے۔ اگر واقعی تعلقات بنانا ہیں اور دوسرے ملکوں کے حکم کی تعمیل نہیں کرنا ہے تو وزیر خارجہ کی ایک لمبی گفتگو کے بعد بند کمرہ میں دونوں وزیر اعظم بیٹھیں اور فوج کے سربراہوں کو برابر کے کمرہ میں بٹھائیں اور فیصلہ کا اعلان کردیں کہ سرحدیں کھول دی جائیں اور لاہور کی گاڑیوں کو امرتسر میں اور جالندھر کی گاڑیوں کو لاہور اور رائولپنڈی جانے دیں جیسے مغربی مشرقی جرمنی کے درمیان کی دیوار ایک ہی رات میں گرادی گئی۔

ہندوستان میں 31  فیصدی ووٹوں والی پارٹی کی حکومت ہے۔ 69  فیصدی وہ ہیں جو پاکستان سے دوستی تو چاہتے ہیں لیکن سہرا اپنے سر پر دیکھنا چاہتے ہیں اور جو 31  فیصدی ہیں ان کے بھگوان موہن بھاگوت ہیں جو مقدمہ سپریم کورٹ میں ہوتے ہوئے بھی اپنی زندگی میں بہت خوبصورت رام مندر دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان سب کی موجودگی میں کیا اس خواب کی تعبیر سامنے آسکتی ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ ساری طاقت موہن بھاگوت کے ہاتھ میں ہے۔ مودی صاحب یا تو بتائیں کہ انہوں نے بھاگوت صاحب سے بات کرلی ہے یا ان کی زبان سے اعلان کرادیں کہ وہ اپنی زندگی میں دونوں ملکوں کی دوستی دیکھنا چاہتے ہیں۔ بال ٹھاکرے پریوار اور سنگھ پریوار کی مہر پہلے اگر نہیں لگی تو کون یقین کرے گا کہ رشتے سدھر گئے اور اب بقول اٹل جی- ہم جنگ نہیں ہونے دیں گے۔ ہم جنگ نہیں ہونے دیں گے۔

(یو این این)


**************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 435