donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Hafeez Nomani
Title :
   Nitish Kumar Ka Aik Aham Faisla

نتیش کمار کا ایک اہم فیصلہ


حفیظ نعمانی

 

بہار کی انتخابی مہم کے دوران مختلف مقامات پر نتیش کمار اور بہاری عوام کے درمیان تعلق کا ہلکاسا اندازہ ہوا تھا کہ لوگ ان پر اعتبار کرتے ہیں۔ نتیش کمار نے اسی زمانہ میں اعلان کیا تھا کہ اپنی بہنوں کے اس مطالبہ کو بھی پورا کروں گا کہ بہار میں شراب بند کردی جائے۔ ہم جانتے ہیں کہ انتخابی وعدے سب کے سب کوئی پورے نہیں کرسکتا اور شراب کی آمدنی سے دستبردار ہونے کے لئے تو 56  اِنچ کا سینہ چاہئے۔

چند دن پہلے نتیش کمار نے اعلان کردیا کہ یکم اپریل سے بہار میں شراب بند کردی جائے گی۔ عمر میں شاید پہلی بار دیہاتی خواتین کی ایک ہی جگہ اتنی بڑی تعداد کل دیکھنے کو ملی اور ایسا جشن کہ دس پندرہ ہزار عورتوں کے گالوں پر اُبٹن لگاکر خوشی کا اظہار کیا جارہا تھا اور ہر کسی کا چہرہ خوشی سے گلنار ہورہا تھا اور ہر کوئی مسکراتے ہوئے نتیش بابو کا شکریہ ادا کررہا تھا کہ انہوں نے شراب بند کرنے کا اعلان کردیا۔ یہ ہزاروں ہزار سجی بنی عورتیں وہ تھیں جو اپنے شوہروں کی شراب نوشی سے دُکھی تھیں۔

بہار جیسے غریب صوبہ کا ہزاروں کروڑ روپئے پر لات مارکر عوام کو خوش کرنے کا فیصلہ بہت اہم فیصلہ ہے لیکن یہ وہ قدم ہے جس کے سب سے بڑے علمبردار شری مرارجی ڈیسائی تھے اور انہوں نے 1977 ء میں وزیر اعظم بنتے ہی ملک میں شراب بندی کا فیصلہ کردیا تھا لیکن پھر انہیں قدم بہ قدم پیچھے ہٹنا پڑا۔ پہلے یہ مانا کہ ایک ہی وار میں نہیں بلکہ دو قسطوں میں اور پھر فیصلہ یہ ہوا کہ دہلی میں غیرملکی بہت رہتے ہیں۔ اس لئے دکانوں پر تو فروخت کی جائے لیکن شراب کے ہوٹل بند کردیئے جائیں۔ ہوائی جہاز اور ٹرینوں میں تو پی لی جائے لیکن پلیٹ فارم پر نہیں۔ اسی طرح پورے صوبہ میں نہیں بلکہ قسطوں میں جیسے پہلے مغربی اضلاع میں پھر مشرقی اضلاع میں اور پھر بعد میں اور انجام یہ ہوا کہ پھر پھر اس قدر ہوا کہ پھُر ہوگیا۔

دہلی ہریانہ جڑواں بھائی جیسے ہیں اسٹیٹس مین کے ایک دوست نے کہا چلو مرارجی بھائی کی شراب بندی کا تماشہ دکھاکر لائوں۔ مشکل سے پانچ کلومیٹر گئے ہوں گے کہ سرحد ختم ہوگئی اور ہریانہ کا میدان آگیا۔ گاڑیاں دہلی کی سڑکوں پر تھیں اور سیکڑوں شوقین مٹی کے میدان کی بینچوں پر تشریف فرما تھے اور ہر قسم کی شراب اور ہر قسم کے کھانے میزوں پر سجے تھے۔

نتیش کمار کی بھی سرحدیں بھارت کے ساتھ نیپال سے بھی ملی رہی ہیں اور ہر دن دوسری ریاستوں سے ہزاروں ٹرک بہار سے ہوکر گذریں گے اور وہ کاروبار شروع ہوجائے گا جو ایک زمانہ میں مراد آباد میں دیکھا تھا کہ مراد آباد میں شراب بند تھی۔ لوگ دہلی سے لاتے تھے، بس اسٹینڈ پر پولیس کے درجنوں سپاہی ہر بس کی تلاشی لینے اور اس میں سے اپنا حق لینے کے لئے چیلوں کی طرح ٹوٹ پڑتے تھے وہ بوتل بھی لیتے تھے اور نقد بھی۔ سنبھل کے 1978 ء کے فساد کی وجہ سے ہم ایک مہینہ سنبھل میں رہے اور بار بار ڈی ایم اجے وکرم سنگھ سے ملنے کے لئے مراد آباد آنا پڑتا تھا اور کئی بار دہلی بھی جانا آنا پڑا۔ آخر میں ہم نے یہ بھی دیکھا کہ پولیس کے جوان دہلی سے خود ہی پیٹیاں لانے لگے۔ اپنے افسروں کے لئے بھی فروخت کرنے کے لئے بھی اور اپنے لئے بھی۔

گجرات میں تو پچاس برس سے زیادہ ہوگئے شراب بند ہے لیکن سنا ہے کہ جتنی شراب گجرات میں بنتی، بکتی اور پی جاتی ہے اتنی شاید مہاراشٹر میں بھی نہ پی جاتی ہو۔ مودی حکومت میں ہی ایک خبر پر بہت ہنگامہ ہوا تھا کہ گجرات میں زہریلی شراب پی کر 30  سے زیادہ آدمی مرگئے تھے۔ جس صوبہ میں شراب پر ہی پابندی ہو اس میں زہریلی اور غیرزہریلی کا کیا مطلب؟ ایک دشواری یہ پیش آئے گی کہ جن ڈاکٹروں کا مطب نہیں چلتا ہے وہ حرام خوروں کو بیماری اور پھر صحتمند ہونے کے سر  ٹیفکیٹ دیتے ہیں۔ یہی ان کا ذریعہ آمدنی ہے۔ وہ ڈاکٹر اب نتیش کمار کو اس لئے دعا بھی دیں گے اور ووٹ بھی کہ اب ایسا سر  ٹیفکیٹ لینے کی بھیڑ لگ جائے گی جس میں لکھا ہوگا کہ اگر انہیں 24  گھنٹے میں اتنی شراب نہ ملی تو یہ مر جائے گا۔ اور یہ ایسی بیماری ہے کہ اس سے صحت کے سر ٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں پڑتی۔ گجرات اور بہار میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ گجرات میں گاندھی جی کا صوبہ ہونے کے احترام میں بند ہے اور پچاس برس سے زیادہ ہوگئے وہاں ان کی حکومت ہے جن پر گاندھی جی کے قتل کا الزام بھی لگ چکا ہے۔

بہرحال ہر آدمی اس کا پابند ہے جو اس نے کہا ہے اور اس وقت تک پابند ہے جب تک اس کی حکومت ہے۔ ہم نے پاکستان کا حال بھی دیکھا ہے۔ ابتدا میں ہر مسلم لیگی کے اندر جوش تھا کہ یہ اسلامی ملک ہے پھر جب جوش ٹھنڈا ہوا تو شراب یاد آئی۔ اس کا پہلا راستہ ڈاکٹروں کے سر  ٹیفکیٹ سے نکالا گیا۔ ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر کا فیصلہ آپ کو ماننا ہی پڑے گا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہندوستان سے جو ڈاکٹر گئے تھے اور دن بھر مریض کا انتظار کرتے تھے ان کی آمدنی ہونے لگی۔ اس کے بعد ان بڑے ہوٹلوں کو اجازت دی گئی جہاں عیسائی اور ہندو اور سکھ قیام کرتے تھے اس کے بعد غیرملکیوں کو بھی پرمٹ دیئے گئے اور رفتہ رفتہ یہی حالت ہوگئی جو گجرات کی ہے۔ گذشتہ سال ایک صحافی نے لکھا تھا کہ میرے ساتھ ایک ہندو دوست بھی تھے۔ ہوٹل کائونٹر پر ان سے معلوم کیا گیا کہ کیا آپ دونوں مسلمان ہیں؟ جواب دیا نہیں یہ ہندو ہیں۔ معلوم کیا گیا کہ آپ شراب تو کمرہ میں نہیں  منگوائیں گے۔ جواب دیا منگوانا تو ہوگی۔ تب مشورہ دیا کہ کمرہ ہندو کے نام سے بک کرایئے مسلمان کے کمرہ میں شراب نہیں بھیجی جاسکتی۔

وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے یہ اچھا کیا کہ ہوم اپنے پاس رکھا۔ اگر سرخرو ہونا ہے تو صرف پولیس کو قابو میں رکھئے۔ ہر سرحدی تھانے کے انچارج کو یہ سمجھا دیجئے کہ اگر شراب کے معاملہ میں نرمی کی شکایت ملی تو نہ تبادلہ نہ معطلی بلکہ برخاست۔ اور زیادہ اچھا یہ ہے کہ اب جو نئی بھرتی کی جائے اس میں نمازی مسلمانوں کو اور ایماندار ہندوئوں کو لیا جائے اور ان کے لئے انعام رکھا جائے اور انہیں اپنے مقصد کا شریک بنایا جائے۔ گجرات میں گائوں گائوں بھٹیاں لگی ہیں۔ وہاں شراب اس لئے سستی ہے کہ دیسی پر کوئی پابندی نہیں اور ولایتی کہلانے والی جو اسمگل ہوکر آتی ہے اس پر کوئی ٹیکس نہیں۔ گجرات کے بارے میں مشہور ہے کہ اگر آپ کسی دکان کو ٹیلیفون کرکے پانی کی بوتل منگوائیں اور دوسرے ٹھکانے سے شراب تو پانی بعد میں آئے گا شراب پہلے آجائے گی۔

اُترپردیش میں ایک آبکاری کا محکمہ ہے اور اس کا وزیر بھی ہوتا ہے جو سب سے زیادہ دولت حکومت کو دیتا ہے۔ اس کے سر پر سونے کا تاج ہوتا ہے اور ایک محکمہ شراب بندی کا بھی ہوتا ہے جس کے وزیر کے سر پر دس روپئے کی ٹوپی ہوتی ہے۔ کانگریسی حکومتوں کے زمانہ میں ہر مہینہ کی یکم اور سات تاریخ کو دکانیں بند رہتی تھیں جو کھلتی بھی دیر میں تھیں اور بند بھی جلدی کرادی جاتی تھیں لیکن حکومت کے نفع کی خاطر اب یہ نام کے لئے بند ہوتی ہیں۔ الیکشن ہونے والا ہو یا ہولی کے جلنے کا وقت۔ تین دن پہلے سے اعلان کیا جاتا ہے کہ کب سے کب تک بند رہیں گی تاکہ شوقین دکاندار کو قیمت دے دیں اور بتادیں کہ پڑوس کی دکان پر اتنی بوتلیں رکھ دیجئے گا۔ کسی نے نہیں دیکھا کہ ہولی میں شاید ہی کوئی سڑک پر رنگ کھیل رہا ہو اور وہ جھوم نہ رہا ہو یا نالی میں نہ پڑا ہو۔ یہی حال الیکشن کا ہے کہ ہر امیدوار کو ہزاروں بوتلیں بانٹنا پڑتی ہیں اور دلت ووٹ تو جتنے شراب سے ملتے ہیں پیسوں سے بھی نہیں ملتے۔

نتیش کمار کو سب سے زیادہ پریشانی نیپال کی سرحد سے اُٹھانا پڑے گی کیونکہ نیپال میں پانی کی طرح شراب پی جاتی ہے اور آنے جانے والے بتاتے ہیں کہ وہاں تو چائے کے ہوٹلوں میں جیسے چائے بکتی ہے ایسے ہی شراب بکتی ہے۔ نئی حکومت بننے کے بعد کیا ہوا؟ یہ نہ ہمیں کسی نے بتایا نہ ہم نے معلوم کیا۔ لیکن جہاں فراوانی کا یہ حال ہو وہاں پابندی لگ بھی جائے تو عمل مشکل ہے۔

ہم نتیش کمار کے فیصلے پر انہیں مبارکباد دیتے ہیں اور ان سیدھی سادی گائوں کی بہنوں کی خوشی کے لئے دعا کرتے ہیں کہ اسے نظر نہ لگے اور وہ جو گھر کا سکون چاہتی ہیں وہ نتیش کمار انہیں دینے میں کامیاب ہوجائیں اور صرف اپنی حکومت کے پانچ سال میں دکھادیں کہ انہوں نے جو کہا تھا کہ میں کوئی کام ایسا نہیں کروں گا جن پر بعد میں شرمندہ ہونا پڑے۔ یہ ان کا اعلان بھی ایسا ہی کام ہوجائے کہ اگلے الیکشن میں انہیں گھر بیٹھے ووٹ مل جائیں۔

(یو این این)
 فون نمبر: 0522-2622300  


****************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 495