donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Hajra Bano
Title : جشن چراغاں
   Jashne Chiraghan

جشن چراغاں 
 
ہاجرہ بانو 
 
جشن چراغاںبڑا خوبصورت اور حسین جشن ہوتا ہے چاہے وہ کسی بھی موقع پر کیا گیا ہو۔ جگنوؤں کی طرح ٹمٹماتے دئیے تاریکی میں وہ پرنور منظر پیدا کرتے ہیں گویا قدرت نے کچھ دیر کے لیے فلک کو زمین پر اتار دیا ہو۔ یہ دیپک اندھیری رات کے علاوہ کئی زندگیوں میں بھی روشنی پھیلانے کا کام کرتے ہیں۔ ویسے آج کل ان کی جگہ  برقی قمقموں نے لے لی ہے۔ کون گھی تیل ڈال کر انہیں جلائے۔ جہاں کھانے پینے کے واندے ہوں وہاں یہ چونچلے کون کرے۔ بٹن دبایا کہ چھوٹے، ننھے، منے، سبز، سرخ، زرد، بنفشی بلب روشن ہوگئے۔ جب جی چاہا بٹن بند کردیا اور تاریکی کو خوش آمدید کہہ دیا۔ جس طرح جس مہمان کو چاہا ویلکم کہا اور جس پر چاہا گھر کا دروازہ بند کردیا۔
 
امریکہ کو معاشی استحکام بخشنے کے باوجود ہندوستان آج بھی دیہاتوں کا ملک ہے۔ تیل اور گھی سے لبریز، مٹی کے دئیے کروڑوں گھروں میں جشن چراغاں کے موقع پر اپنی جگمگاہٹ بکھیرے ہوئے ہیں۔ اب ان تیل اور گھی میں کوئی زہریلے کیمیکل بھی شامل ہوں تو مٹی کے چراغوں کا کون سا ہاضمہ خراب ہونے والا ہے۔ بہرحال دیہاتی دئیے کی لو تمام مہمانان کے لیے یکساں روشنی اور تاثر رکھتی ہے۔ سحر ہونے تک وہ سب کے لیے جلتے ہیں۔ کہیں تو یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ جشن چراغاں کس مہمان کے لیے کریں اور نجانے وہ کب اور کہاں سے آئیگا۔ ایسے حالات میں یہ کردیا جائے کہ:
منڈیر پر چراغ رکھ دئیے ہیں خود جلائے گا
وہ آنیوالا شخص جانے کس طرف سے آئے گا
نہ مہمان کو شکایت کی گنجائش نہ میزبان کو۔
سنتے ہیں کہ جشن چراغاں ہماری گنگا جمنی تہذیب کی ایک منور مثال ہے۔ کیونکہ ہم نے تو جب سے اس دنیا پر اپنی سیاہ آنکھوں سے پہلی نظر ڈالی تو گنگا کو جمنا کے مخالف سمت میں ہی بہتے ہوئے دیکھا۔ خیر۔ دونوں کہیں بھی بہیں۔ پانی ہے جدھر چاہے اپنا راستہ بنالیتا ہے۔ ہندوستان کی دونوں آنکھیں اپنے تہواروں پر مل جل پر چراغاں کرتے تھے۔ آج کل کے چراغوں نے خود صرف اکثریت کے لیے وقف کردیا ہے۔ آخر کیوں نہ کرے۔ سیاسی تیل ان میں بھی تو پڑا ہے۔ زمانہ جیسے جیسے چکاچوند اور دھوم دھڑا کے میں تبدیل ہوتا گیا۔ مدھم اور موہک روشنی نے بھڑکیلی چمک اور دل بہلانے والی آواز میں خود کو ڈھال لیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تاریک فلک کو نور بخشنے کے ساتھ ہماری سماعت کے پردوں پر بھی چند شرارے چھوڑ جاتی ہیں۔ ایک فلیٹ میں دھڑا دھڑ دو گولیاں پستول سے نکلیں اور دو افراد ملک عدم سدھار گئے۔ سب نے سمجھا کہ نئے سال کے جشن میں پٹاخے اڑائے جارہے ہیں۔ انہوں نے بھی مزید دو دھماکہ خیز راکٹ آسمان کی طرف داغ دئیے۔
اے فلک کیا تیرے دامن میں ہی ستارے ہیں
آ دیکھ ادھر میرے ہاتھوں میں بھی شرارے ہیں
دن رات کم سن بچے بارود کی فیکٹریوں میں پٹاخے اور پھلجڑیاں بناکر تہواروں اور تقریبات کو روشن کرنے کا کام دیتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ آنے والی دو دہائیوں کے بعد بڑوں کے چودہ طبق روشن ہوجاتے ہیں کہ ملک کا مستقبل گزشتہ بیس سال سے کیا فعل انجام دے رہا تھا۔
 
گلو خوشی خوشی اپنا بارود سے بھرا ٹرک پٹاخوں کی فیکٹری کی طرف لے جارہا تھا۔ ٹرک میں کلینر گانا گارہا تھا ’’کہیںدیپ جلے کہیں دل۔۔۔۔۔۔ ذرا دیکھ لے آکر دیوانے۔۔۔۔۔۔ تیری کونسی ہے منزل‘‘ ۔  ’’ارے تو کوئی پھڑکتا ہوا گیت نہیں گاسکتا کیا۔‘‘ گلو نے اسے ٹوکا۔ ’’تم سامنے دیکھ کر گاڑی چلاؤ۔ اگر پیچھے کے ٹرک ہم سے آگے فیکٹری چلے گئے تو باس ہماری بتی گل کردے گا۔‘‘ تھوڑی ہی دیر میں گلو کا ٹرک فیکٹری کے گیٹ میں داخل ہوا اور باقی کے ٹرک آگے چلے گئے۔ بازار میں گلو کی بارود کے بنے پٹاخے جلد ہی ختم ہوگئے۔ چند کے ارمان آسمان پر پھٹ گئے اور چند کے آنسوؤں میں بہہ گئے۔ گلو کو بڑا افسوس ہوا کہ اتنی محنت کے باوجود فیکٹری سب کے ارمان پورے نہ کرسکی۔ کچھ دن بعد اپنی بہن اور ماتا جی کو درشن کرانے کے لیے گلو مندر پہنچا۔ بھگوان کے چرنوں میں ناریل پھول رکھ کر پلٹا ہی تھا کہ ایک زوردار دھماکہ ہوا اور سارے لوگوں کے چیتھڑے اڑتے ہوئے دکھائی دینے لگے۔ گلو بھگوان کے چرن مضبوطی سے پکڑ کر بیٹھ گیا۔ یہ بھگوان کا ہی تو قہر تھا۔ اس کے قہر کے راستے بھی بڑے عجیب ہوتے ہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی پر جھپکتے ہی کنٹرول ہوجاتا ہے اور وہ بھی ہلدی لگے پھٹکری اور رنگ تو اتنا چوکھا کہ خدا کی پناہ۔ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود آبادی تو بالکل ’’اردو‘‘ زبان کی طرح پھیلتی ہے۔ ’’ا‘‘ کو مارو تو اکیس دفعہ پیدا ہوجاتی ہے ۔ ’’ر‘‘ کو مارو تو نئی رہ گزر بنالیتی ہے۔ ’’د‘‘ کو مارو تو نئے دروازے کھول لیتی ہے۔ ’’و‘‘ کو مارو تو اپنی وسعت بڑھالیتی ہے۔
 
اکثر باعمل افراد کی شخصیت کے حسن کا چراغ اتنا تابناک ہوتا ہے کہ ساری محفل پرنور ہوجاتی ہے اور حاسدوں کے چہروں پر اماوس آجاتی ہے۔ عقل کے دشمن ایسے میں بھی خاموش نہیں رہتے۔ حالانکہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ باعظمت کے سامنے بھی کبھی کسی کا چراغ جلتا ہے۔ پھر بھی سورج کے سامنے چراغ جلانے کی ناکام کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ان کی اس احمقانہ حرکت کو دیکھتے ہوئے بے اختیار یہ شعر ٹپک پڑتا ہے:
تیرے ہوتے ہوئے محفل میں جلاتے ہیں چراغ
لوگ کیا سادہ ہیں سورج کو دکھاتے ہیں چراغ
زندہ تو زندہ، مردہ بھی جشن چراغاں کا اہتمام کرواجاتے ہیں۔ اپنی زندگی میں ایک روپیہ بھی خیرات نہ کرنے والے مرنے کے بعد لاکھوں روپے نکمے اور نا اہل رشتہ داروں کے لیے خیرات کرگئے تو خوشی میں جشن چراغاں ہوتے ہیں۔ حادثات کے شکار شدہ اور زبردستی شکار بنے افراد سرکاری امداد کی خوشی میں اپنے گھر جشن چراغاں کرتے ہیں۔ کچھ بھی ہو چراغ تو جلتا ہے اور اسے جلتے ہی رہنا چاہیے۔ خواہ اس کے اسباب اور مقاصد کچھ ہی کیوں نہ ہوں۔ لیکن ساتھ ہی اس بات کا خیال رہے کہ:
مناؤ جشن چراغاں مگر خیال رہے
کسی چراغ کی لو سے کسی کا گھر نہ جلے
 
٭٭٭٭
 
 
نام و پتہ:
ہاجرہ بانو
پلاٹ نمبر ۹۳، سیکٹر اے، سڈکو این ۱۳،حمایت باغ،
 اورنگ آباد۔ ۴۳۱۰۰۸۔
ریاست مہاراشٹر-
موبائل:  9860733049
E-mail: hajerabhno19@yahoo.com
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 736