donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Iftekhar Rahmani
Title :
   Kejriwal : Aur Dam Torh Gaya Mamola

کجریوال : اور دم توڑ گیا ممولا۔۔۔۔۔۔۔۔


افتخار رحمانی 

سب ایڈیٹر:بصیرت آن لائن ڈاٹ کام

 

شاہین و شہباز کی بے جگری ،دلاوری اور بلند ہمتی ممولا میں آ ہی نہیں سکتی کیونکہ ممولا ازل سے ہی پست ہمتی کا شکار ہے بلکہ ممولا کی فطرت میں ہی پست ہمتی او رکوتاہ فکر ی پنہاں ہوا کر تی ہے چہ جائے کہ ممولا کچھ دن اپنی بے جان جسار ت کا اظہار کرے او رفضامیں پرواز کی فکر میں غلطاں رہے تاہم پھڑپھڑانا او راچھل کود کی منا فقت سے بازنہ آنا بھی اسکی سرشت میـں ہے تا ہم اسکی تمامتر کو ششوں کا ثمرہ صفر ہی ہواکر تا ہے۔ دلی میں جو کچھ بھی ہو ا تاریخ کیلئے بھی اہم ہے اور سیاسی مبصرین و تجزیہ نگاروں کیلئے بھی تعجب خیز امر ہے کہ جنتر منتر کی شان کجریوال عام آدمی سے دفعتہ دلی کے  خاص آدمی ہو  گئے اور سیاست میں آکر اپنی ایسی کرشمہ سازی دکھائی کہ تمام دعوے جو سیا سی مبصرین کیا کر تے تھے کھوکھلے ثابت ہوئے اور اس کرشمہ سازی کا تذکرہ تمام دنیا میں ہو نے لگا کہ ہندو ستان میں ایک انقلاب آیا ہے جسے کجریوال کا نام دیا جاتا ہے جس سے تمام بد عنوان افراد خوف زدہ ہیں اور ان کی آنکھوں سے نیند اڑ گئی ہے کہ اب جو لقمے خفیہ راستوں سے آتے تھے ،قد غن لگا دی جائے گی اوراس کا حصول ایک امر گراں ہوگا۔

     بد عنوانی و اقعی ہر ایک ملک کیلئے ناسور ہے کیونکہ اس سے کسی خواب کو شرمندہ تعبیر نہیں کیا جا سکتا بلکہ خوابوں پر بھی پابندی لگا دی جا سکتی ہے اور یہی و جہ ہے کہ ہمار ا پڑوسی ملک پاکستان بد عنوانیوں سے ایسا جکڑا ہے کہ اس کی گرفت سے نکلنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے۔ بھارت میں بھی بد عنوانی سر چڑھ کر بول رہی ہے ہر ایک سیاسی لیڈر اور دفتر ی شخص اس جرم میں ملوث ہے آدمی خواہ کتنا بڑ ا کیوں نہ ہو بغیر رشوت کے کوئی کام نہیں ہو سکتا وہ آ دمی جو کسی سطح کی شہرت نہیں رکھتا یو میہ اجیر ہے تو اس کو رشوت کی دو گنی رقم نذر کرنا ہو تی ہے اوریہ و ثوق کیساتھ کہا جا سکتا ہے کہ اسی طبقہ کا زیا دہ استحصال ہو اکرتا ہے ۔انا ہزاے اور دیگر مخالفین بد عنوانی نے اس ظلم و استحصال کیخلاف آواز اــٹھائی اور ملک کے نو جوانوںکی ایک بڑی تعداد کو لیکر جنتر منتر اور دوسر ے مقاموں میں دھرنا ،مظاہر ے کیے اس کا خا طرخواہ فائدہ ہو ا یا نہیں یہ تو کجریوال جانتے ہوں گے کہ براہ راست کسے فائدہ ہو نچا ہے تاہم کجریوال کی شخصیت سامنے آئی اور جو کل ایک افسر تھے حکومت و قت کے سب سے بڑے مخالف بن کر سامنے آئے نام نہادگاندھی انا ہزار ے جس طوفان کو برپا کرکے اپنی رہا ئش گا ہ میں معتکف ہو گئے ان کو سوائے ہنگامہ آرائی کے کچھ نہ ملا مگر کجریوال کو خاطر خواہ فا ئدہ مل ہی گیا کیونکہ کسی بھی کام سے قبل کچھ نہ کچھ شہرت مل جانی چاہیے تاکہ راہیں کھلتی جائیں اور سبک روی کے ساتھ قدم بڑھے۔یہ و ہی کجریوال ہیں جو کل خاک دلی کو سر میں ڈالے کو چہ ہائے دلی میں سرگرداں پھر رہے تھے او ریہ بھی صدا بلند کررہے تھے کہ ہم  ’’ذوق خواری‘‘ کو ختم کر یںگے اس سے ہمارا ازلی بیر ہے کوئی میرا ہم رکاب ہوجائے!وہ لوگ جو ظالم افسران اور بد عنوان سیاسی افراد کی بد عنوانیوں کے شکار ہوچکے تھے اور ہو رہے تھے، اس صدا کو پیام سروش تصور کرکے ’’آمنا و صدقنا‘‘کہہ کر ایمان لے آئے اور ان کی ہمرکابی کو خو ش قسمتی تصور کر نے لگے اور حقیقت حال کچھ تھی ہی ایسی کہ عوام کی ایک معتد بہ تعدا د کجریوال کی صدا پر لبیک کہہ گئے اور اپنا غم خوار او رمسیحا بنا لیا اور جب دلی انتخاب کے نتائج سامنے آئے تو آمنا صدقنا کی تا بانی اور گرمی دیکھنے کو ملی کہ کجریوال عام آدمی سے خاص آدمی بن گئے اورجہاں جہاں بد عنوانیاں تھیں ،کانپ گئیں کہ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی لیکن یہ خوف آج جاتا رہا۔ تاہم و زیر اعلی کا حلف لیتے ہی کجریوال کو اصل سیاست کا اندازہ ہوا کہ سیا ست کے کیا معنی ہیں محض ووٹ کی اکثریت سے کرسی نہیں جیتی جاتی بلکہ اس کے دوام کی خاطر سیاسی بصیر ت کی کار فرمائی بھی لازمی ہے لیکن افسوس محض کچھ ہی دنوں میں کجریوال نے اپنا  استعفی دیکر اپنی پست ہمتی او رنا طا قتی نیز نا اہلیت کا اظہا رکردیا کہ  ع

یہ عشق نہیں آساں یہ عشق بڑا مشکل 

 کجریوال نے اپنے جس مطمح نظر او رمذاق فکر کی رونمائی کی تھی و ہ بد عنوانی کاخاتمہ اورلوک پال بل کا پاس ہونا تھا بڑے بڑے  دعوے اور سیا سی قلا بازیوں کے با وجودانھوں نے جو کچھ بھی کیا ہندوستانی عوام با لعموم اور دھلوی عوام با لخصوص سکتے میں ہیں کہ آخر یہ کیا ہو گیا کہ بد عنوانی کیخلاف نبر دآزمائی کا عزم رکھنے والے ہمت ہار گئے اوراپنا استعفی پیش کر دیا؟ کجریوال نے جب بھی اپنی زبان کھولی ہے بد عنوانی کے علاوہ ان کی زبان کچھ بھی تلفظ نہ کر پائی کیونکہ بد عنوانی کا عفریت ان کو خواب میںبھی ڈراتا تھا او ر لوک پال بل کا خواب دن میںبھی دیکھتے رہتے تھے جب کہ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ بڑے عجلت پسند و اقع ہوئے اور جس سرعت کیسا تھ وہ عام آدمی سے خاص آدمی بنے اسی طرح ہر قسم کی بد عنوانیوں کاخاتمہ چاہتے تھے اور اسی طرح تمام امور کا تصفیہ بھی ۔ن کی فطر ی عجلت تھی کہ وہ ہر ایک چیز میں جلدی جلدی کے خواہاںتھے اور صبر و تحمل سے کوسوں دور۔اگر و ہ ذرا صبر و تحمل اور اطمینان قلبی سے کام لیتے تو آج ان کو اپنی سرکار گنوانا نہ پڑ تی بلکہ رفتہ رفتہ از خود تمام مسائل حل ہو جا تے تاہم یہ درست ہے کہ ان کی راہ میں روڑے اٹکائے گئے ،دشواریاں کھڑی کی گئیں تاکہ و ہ گھبرا کر اپنے مآل کیطرف لوٹ آئیں اور ہو ا بھی یہی ۔

     فضائے سیاست میں پرواز کسی بے جان ممولا کی فطرت نہیں ہے بلکہ شاہین و شہباز کا یہ جہاں ہے کہ جسمیں بغیر کسی روک ٹوک کے پرواز کرتے  چلے جاتے ہیں،یہاں باد مخالف کی تندی ہے تو طو فان عظیم کی ہلاکت آفرینی بھی بلکہ اگر کسی ممولا نے اپنی جرات بے باک کا اظہار کر بھی بیٹھا ہے تو اسے اپنی تمام قوتیں اس سے مقابلہ آرائی کیلئے صرف کر ناہونگی اور بڑی بے جگری سے اس سے دودو ہاتھ کر نے ہونگے ۔کجریوال بد عنوانی کی تعاقب کے زعم میں ممولا سے شا ہین بن گئے اورفضائے سیاست کی تندی اور طوفان عظیم کو خاطر میں لائے بغیر پرواز کردیا اور اپنی اصلی خو کابھی مکروہ مظاہرہ کردیا کب تک بے جان ممولا فضا کی سر گرمیوں کی تاب لاتا لازما زمین پر آگرا اور پرواز سے یکسر انکار کردیا ۔کجریوال کیلئے ضروری تھا کہ و ہ سیاست کے تمام نر م و گرم حالات کامقابلہ کرتے اور اپنے صبروتحمل کا مظاہر ہ کرتے۔ کیا لوک پال بل کاپاس نہ ہونا ان کے مستعفی ہونے کی و جہ ہے ؟؟اگر ان کا یہی شوق اور ان کی عقل و ہوش کی سر گرانی بھی تو ان کیلئے مظاہر ہ او ر کرایے کے لوگوں کی بھیڑ جمع کرنا ہی زیبا تھا ۔آج جبکہ انھوں نے اپنا استعفی دیا ہے تو اس سے دلی کی سیاسی فضا مکدر ہو گئی ہے و ہ مزدور طبقہ 

جنھوں نے اپنا مسیحا اور غم خوار تصور کیا تھا اور ان پر کامل یقین اور اعتماد کا اظہار کیا تھا ان کی غم خواری کون کریگا ؟و ہ آج غم میں ڈوبے ہوں گے کہ ہمار ی کشتی  کا نا خدا عین منجدھار میں کشتی گرداب کے سپرد کر گیا !کجریوال نے جس نعرہ سے عوام کا  اعتماد حاصل کیا تھااس اعتماد کو محض ایک ہی لفظ میں توڑدیا آخر ان کے اس عمل کے کیا اسباب و عوامل ہیں جب کہ تمام حالات اگر سازگار نہ تھے تو مخالف بھی نہیں کہے جا سکتے اگر مخالف بھی تھے تو ان کو فہم و تدبراور دا نشمندی سے حل کر لینے چاہیے آخرش استعفی کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟؟اصل و اقعہ یہ ہے کہ خو د کجریوال کی اتنی ذہانت اور دانشمندی کہاں کہ و ہ سیا سی حالات کا مقابلہ کر تے کسی کے ایماء پر انا ہزار ے کی معیت میں بد عنوانی کیخلاف صف آرائی کی اور شورو غل مچاتے ہوئے ایوان تک پہونچنے میں کامیا بی حاصل کی، راقم باربار ان ہزار بد نصیبوں پر حیران ہوتاہے کہ جنھوں نے اپنے وو ٹ کی اہمیت کونہ سمجھتے ہوئے ایک نا تجر بہ کار آدمی کو دیا ۔ووٹ دینا ہی جرم نہ ہوتا بلکہ انھوں نے سب سے بڑی بھول یہ کی کہ تمام مسائل کے تدارک کا لا زمہ کجریوال کو سمجھنے لگے، اگر یہ کہیں کہ کجریوال کے اس اقدام سے ان بد نصیبوں کو دھوکہ ہو ا جنھوں نے ان کو ووٹ دیا ہے تو بیجا نہ ہوگا با لکل صد فی صد سچ ہے کہ ان کی کشتی کے نا خدا نے اپنی کو تاہ ہمتی کے با عث عوام کو دھوکہ دیا ہے۔ کجریوال نے آج اپنے زعم ناتواں کے بموجب استعفی دے دیاہے تا ہم اس کے نتا ئج اچھے ہوں ،امید کرنا خطا ہو گی کہ جس صورتحال میں انھوں نے اپنے اس رد عمل کا اظہار کیا ہے اس سے ان کے ذوق لطیف کی سمت بھی اشارہ ہے کہ جس طر ح ان کیلئے بھیڑ جمع کرنا اور شور و غل مچانا آسان ہے بعینہ اسی طرح حکومت گرانا ،بنانا اور استعفی دینا آسان ہے ۔نا عاقبت اندیش کی جماعت کی مصداق عام آدمی پارٹی ہے جو صرف اور صرف شور 

ہنگامے اورعجلت پسندی کی عادی ہے اور تلخ نتا ئج سے کو سوں دو ر۔اگرعام آدمی پارٹی اور خا ص آدمی صبر و ضبط اور تحمل سے کام لیتے تو دہلی کے سیا سی افق پر بحران کے با دل نہیں منڈلاتے لیکن اب کیا ہو سکتا ہے جب کہ تمام خدشات سچ ہو نے لگے اور دہلی کی سیاست بحران کی شکار ہوگئی ۔ہر ایک کو اس کے مضمرات کا منتظر ہو نا چاہیے کہ کجریوال کی ضد ،عجلت پسندی اور ان کے استعفی کی پیش کش کیارنگ لا تی ہے لیکن یہ بات یاد رکھنے کے لا ئق ہے کہ اب کبھی عام  آدمی اپنا رنگ نہیں جما سکتی بلکہ شور ہنگامے ،مر دہ با د زندہ باد کے بیہودہ نعروں نیز جنتر منتر کیلئے ہی و قف ہو گی ۔غالب مرحوم دھلوی کا شعر کجریوال’’ دھلو ی ‘‘کی نذر    ؎ 

و حشت و شیفتہ اب مر ثیہ کہویں شاید 
مر گیا غالب آشفتہ نوا ،کہتے ہیں

iftikhar rahmani 
(بصیرت فیچرسروس)

******************************
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 554