donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Iftekhar Rahmani
Title :
   Yeh Rabto Zabt Ba Yee.n Barhami MaazAllah

 

   یہ ربط وضبط بہ ایں برہمی معاذاللہ 


افتخار رحمانی 

سب ایڈیٹر:بصیرت آن لائن ڈاٹ کام


یوم جمہوریہ کی رنگارنگ ثقا فتی تقریب کی جب جھانکی نکل رہی تھی تو پورا ملک تالیوں اور مسکراہٹوں سے استقبال کر رہا تھا خوشی و مسرت کا سلسلہ لامتناہی تھا لیکن اسی تالیوں ،مسکراہٹوں اور خوشی ومسرت کو دفعتا مرض نا گہاں نے آدبوچا اور بجنے والی تا لیوں اور مسکراہٹوں کو روک لیا گیا بعض شریک جہان عیش و نشاط کے چہر ے پر درد اور چبھن کی لکیریں صاف طور پر محسوس کی گئیں اور بعض نے برجستہ اپنے دردو چبھن اور رنگ میں بھنگ کی کلفتو ں کا اظہار بھی کر دیا آخرش ان تمام بے کیفی ،حزن وملال کی و جہ کیا ہے ؟ کیا ہوا کہ تالیوںاور مسکراہٹوں کو روک لینا پڑا ؟واقعہ یہ ہے کہ عیش و نشاط اور مسرتو ں پر برق اسو قت گری  جب ان گرگ صفت شرکائے جہان عیش ونشاط کو شیرکا سامنا کرنا پڑا تھا اور اس شیر کی دلا وری ،جرات اور عزیمت کی زریں تاریخ کی ایک جھلک دیکھنا پڑا تھا کیونکہ فی الحقیقت شیر کی آمد آمد تھی اور گرگ ظالم نے اس سے خوف زدہ ہوکر دم دباکر بھاگ جانا مناسب سمجھا بنا ء بریں تا لیوں ،زمزمہ مسرت ،مسکراہٹوںاور قہقوں کے طوفان ہوشربا میں خلل و اقع ہو ا ۔

    ہمار ایہ ملک جمہوری ملک ہے یہاں ابتداء سے ہی آپسی الفت و یگانگت اور مساوات کی ایک وسیع دنیا آباد رہی ہے اور جب ’بیگانگان وطن ‘اور لونگ الائچی کے غاصب و ظالم تا جر کا ناپاک تسلط قائم ہوا تو تمام با شندگان ارض ہند نے اتحاد و اتفاق کی ایک عظیم مثال قائم کر کے ان غاصبوں کو راہ فرار اختیار کر نے پر مجبور کر دیا ا و ر چشم فلک نے یہ منظر بھی بڑے تحیر و استعجاب سے دیکھا کہ یہ ظالم بھیڑئیے دم دباکر بھاگ کھڑے ہو ئے کہ جن کی حکمرانی کا سکہ چلا کر تا تھا ۔ ملک کی آزادی کی خاطر بڑ ی بڑی قربانیاں نذر کی ہیں کہ جن کا تصوربھی ہمار ی نسل نو کے لئے ایک امر محال ہے خانقا ہ میں ’حق اللہ ‘کے نعرہ پیہم اور’ تصور جاناں‘ میں محو رہنے والے عاشقان پاک طینت اور منبر و محراب کے امام خطیب شمشیر بر ہنہ لے کر ان ظالموں کے خلاف صف آراء ہو گئے ، دھرم شالہ اور ’مٹھ‘ میں تپسیا میں مصروف عمل رشی بھی ان فرنگیوں سے مقابلہ کر نے میدان میں کود پڑ ے بنارس ،الہ آباد ،کاشی ،متھر ا اور ملک کے طول  و عرض میں قائم ہزاروں مٹھوں کے لا کھو ں رشیوں نے اپنی جانیں مادر وطن کے تحفظ کی خاطر قربان کردیں ،مرکز علوم معارف درس گاہ ولی اللہی کے ہزار ہا ہزار جیالوں نے اپنی جانیں قربان کرکے گیتی ہند کے  برگ وبار میں شادابی اور جاودانی کی روح پھونک دیں الغرض بلا تفریق مذہب وملت ہر ایک نے ممکن البساط خدمات ملک کی آزادی کیلئے وقف کر دیں اور آپسی اتحاد و اتفاق کی ایسی مثال قائم کی کہ ہر ذرہ گیتی چمن اخوت و مر وت کی تصویر تھا اسی ملکی خدمات کے ذیل میں شیر میسور ٹیپو سلطان شہید کانام آب زر سے نوشتہ دیوار ہے ۔ملک کی صدیو ں پرانی تاریخ اس امر کی غماز ہے کہ شیر میسور نے اس وقت انگریزوں کیخلاف علم جہاد بلند کیا تھا جب طائران فضائے جد و جہد اپنی حواس کھو بیٹھے تھے اور پرواز سے یکسر انکار کر دیا تھا ،حوصلے منتشر ہوچکے تھے ،قافلہ تھک گیا اور اہل قا فلہ نے  بھی اپنی کوتاہ پائیو ں کا شکوہ کررہے تھے عین اسی وقت ٹیپو سلطان نے پست حو صلہ کو تابانی دی ،متحرک کیا اور تھکے ہو ئے قافلہ میںایسا شوق جہاد پیدا کیا کہ یہ اپنی کو تا ہ پائیو ں کے شکووںکو بھی بھول گئے ۔

    ہمار ا یہ ملک جس کو اپنی عظیم جمہوریت کا افتخارہے اور اس افتخار پر سدا نازاں بھی ہے مگر افسوس  اس جمہوریت کو الوکی شب ہنگامی کی نحوست کا اثر ہو چکا ہے سیا ہ شب میں سا ت سمندر پار سے آیا ہوا  ’بوم فرنگ ‘ابتدائے سحر میں مرغوں کی اذان سے قبل ہی اپنا راگ الاپ دیا اور اسی ابتدائے سحر میں بوم فرنگ کی سحر ہنگامی کی ایسی نحوست واقع ہو ئی کہ چمن زار کا مر غ آپس میں الجھ گیا اور آپسی نفرت و عداوت کی ایک فضا قائم ہو گئی کہ ایک ہی چمن کے مرغ دو الگ الگ مکروہ فکر و خیال کے حامل ہو گئے اسی مکروہ فکر و خیا ل کا مظاہرہ اس وقت دیکھنے کو ملا جب یوم جمہوریہ کی تقریب میں شیر میسور کے نام اور ان کی خدمات سے منسوب جھانکی بر آمد ہوئی۔ وہ افراد جو ازل سے ہی آپسی دشمنی اور عداوت نیز فضول کی نکتہ چینی کو ضرور ی خیال کر تے ہیں ان کے پیٹ میں مروڑ پید ا ہوگیا اور ایک عظیم مجاہد آزادی کی خدمات پر سوالیہ نشان بھی کھڑا کیا حتی کہ سوشل نیٹ ورک پر خوب ہنگامہ بھی کیا کہ ان کی وجہ سے ہزاروں لوگوں کی جانیں تلف ہوئیں۔جانیں کیونکر تلف ہونے لگیں ؟اگر جانیں قوم وملک کی خدمت میں تلف ہوئیں تو سبحان اللہ! کیونکہ ارض ہند اسی وقت لالہ زار ہوگی جب ملک کا بچہ بچہ اپنے جسم  کے خون کا آخری  قطرہ بھی نذرکرنے سے دریغ نہ کرے لیکن ملک کے شر پسندوں کے معنی ہر گز یہ نہیں تھے بلکہ انھوں نے یہ معنی مراد لیے ہیںکہ شیر میسور خواہ مخواہ جنگ لڑ کر لوگوں کی جانیں تلف ہونے کا سبب بنے راقم براہ راست ان لوگوںسے  یہ سوال کر تاہے کہ آپ کا یہ کہنا کہاں تک درست ہے جب کہ تاریخ کے صفحات ان کی خدمات جلیلہ سے بھرے پڑے ہیں اورپکارپکار کر کہہ رہے ہیں کہ میں ہوں  ان خدمات کاگوا ہ جن کا تم انکار کر رہے ہو ۔

    ذرا خیال کیجئے کہ کیا یہ وہی ہندوستان ہے جہاں مجاہدین آزادی کی خدمات کا اعترا ف اوران کی تئیں خراج عقیدت پیش کیا جاتا تھا ؟ابھی چند دنوں قبل جو واقعہ اوردل کے لخت لخت کو ٹکڑے کردینے والا سانحہ پیش آیا اس سے یہ حقیقت آشکارا ہو گئی کہ فرقہ واریت اپنی جڑ مضبوط کر چکی ہے اور اس رو میں تمام تر حقیقتوں کو پامال بھی کیا جا چکا ہے اگر ٹوئیٹر پر ہو نے والی بحث کے ایک ایک حرف کو دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ ملک کا ایک بڑاطبقہ کس مر ض نا گہاں کا شکا رہو چکا ہے مگر اطمینان کی بات یہ ہے کہ بعض ایسے بھی ہیں جو ملک کے عظیم جیالوں کی عظمت کا ادراک رکھتے ہیں اور انھیں سچا خراج عقیدت بھی پیش کرتے ہیں ۔

آخر یہ ہنگامہ اورلفظی جنگ کیوں شروع ہوئی ؟ملک کا ایک بڑا طبقہ ہزاروں جان اور معصوموں کے قاتل اعظم مودی کو اپنا حقیقی ہیرو سمجھنے لگا ہے اوریہ بھی خیال رکھتا ہے جب تک ملک کا وزیر اعظم مودی نہیں ہوتا ان کے خیال کے بموجب ہندوستان میں ہندوراشٹر کا قیام ممکن نہیں لیکن یا د رکھنے کی بات ہے کہ یہ ملک جمہوری ہے اور جمہوریت کی بحالی ہی اس خطہ میں امن وسکون کی ضامن ہے اگر ہندو راشٹر کا تصور ان کے دل ودماغ میں کلبلا رہا ہے تو ان تصورات کو بدل دیں کیونکہ ہزاروں افرادنے اپنی جانیں جمہوریت کی لئے ہی قربان کی تھیں ۔یہ خام خیالی ہے کہ ملک کا اگلا وزیر اعظم مودی ہوگا کیو نکہ اب ہندوستان بھی ایک عظیم سیاسی انقلاب کی زد پر میں آچکا ہے یہ طے ہے کہ مودی  فوبیا محض شدت پسندکے اندرہی رہ کر اپنے نقطہ عدم کو پہونچ جانے والی چیزہے اور وہ دن قریب ہی تصور کیا جانا چاہئے جب مودی فوبیا کا سرشام جنازہ اٹھے گا  اور دنیا محو تماشہ رہے گی۔

iftikharrahmani9@gmail.com
Mob     9267415346

  ************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 708