donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Imran Akif Khan
Title : ایسا مچا ہے تہلکہ اک میرے عہد
   Aisa Macha Hai Tahalka Ik Mere Ahad


 

ایسا مچا ہے تہلکہ اک میرے عہد


عمران عاکف خان
imranakifkhan@gmail.com


تہلکہ ایک ایسا لفظ ہے جس سے لغت میں ہنگامہ خیزی اور سنسنی خیزی مراد لی جاتی ہے۔اصطلاحا ًاس کے معانی یہ ہیں کہ کسی خبر کوسنتے ہی یہ تصور ذہنو ں میںآئے کوئی انہونی بات یا چیز بڑی شدو مد کے ساتھ رونما ہوئی ہے ۔اس کو اس طرح بھی سمجھ سکتے ہیں کہ کسی ملک،خطے یا علاقے میں ایک عرصے سے کوئی مشن ، پرو پیگنڈہ،سوچ ،تجربہ نہایت خفیہ اور رازدارانہ انداز میں ہورہا ہو ،پھر کوئی تیسری آنکھ اس کا بھنڈا پھوڑدے او رساری دنیا کو اس کی تباہی و ہلاکت کے بارے میں باخبر کردے ۔اس طرح تہلکہ مچ جاتا ہے اور دنیا گو یا ہل جاتی ہے۔جو بھی اسے سنتا ہے اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی اور لب کھلے کے کھلے رہ جاتے ہیں ۔


مگر ہمارے عہد میں تہلکہ کے نئے معانی تراش کیے گئے ہیں۔ اس جدت کے موجد مشہورزمانہ انگلش میگزین’ تہلکہ‘ کے ایڈیٹر ترون تیج پال ہیں ۔انھوں نے اس کے معانی یہ تراشے کہ بڑے بڑے سیاسی لیڈران ،شخصیات اور افراد کی اصلیت دنیا کے سامنے ظاہر کر نا۔ان کی دھوکہ دھڑی اور فریب کاریاں دنیا کے سامنے مدلل طور پر پیش کر نا نیزوہ جس جماعت،گروہ یا فکر سے وابستہ ہیں اس کا گویاپانی کاپانی اور دودھ کا دودھ کرنا۔ترون تیج پال نے اپنی بیان کی ہوئی ’تہلکہ ‘ کی اس تشریح کا عملی نمونہ بھی پیش کیا اور بلا خوف و تردد ایسے تمام لوگوں کو دارالعوام میں لا کھڑا کیا جو خود کو عام انسانوں سے بلند و ماورا سمجھتے تھے اوران کے گناہوں کو ان کے سفید کپڑوں نے چھپا رکھا تھا۔اس طرح ان کی میگزین ’تہلکہ‘نے ہندوستانی سیاست کے ان کے تمام چہروں سے نقاب نوچ ڈالے جنھوں نے سیاست اور ملک میں کرپشن اوررشوت خوری کا بازار گرم کر کے عوام الناس پر زندگی تنگ کر رکھی تھی۔ ایک وقت وہ آیا کہ روزانہ خبریں ملتیں کہ آج اس لیڈر کا تجزیہ کر دیا گیا اور آج اس کی فریب کاری ظاہر ہو گئی۔آج اس نیتاکو رشوت لیتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہے اور آج اس کی کرسی سلب کرلی گئی ۔یہ سب کارنامے ’تہلکہ ‘ہی انجام دے رہا تھا ۔اس کی بدولت اس کے ایڈیٹر ترون تیج پال ’بے باک اور فرض شناس صحافی،نڈرقلم کار اور حوصلہ مند انسان بن گئے اور ان کی میگزین آسمان صحافت کا دمکتا ستارہ بن گئی ۔ہر دو کی مقبولیت ،ناموری اور شہرت میںدنوں اور راتوں کی رفتارسے بھی تیز اضافہ ہونے لگا ۔لیڈران کی حالت یہ تھی کہ وہ ترون تیج پال کے نام سے موت کی طرح ڈ رتے تھے۔ ترون تیج پال ان کے لیے اللہ میاں کا ڈنڈا بن گئے جو ان کے سروں پر ہر وقت مسلط رہتا تھا ۔ہر طرف ترون تیج پال اور بس ترون تیج پال ہی کی گونج، غلغلہ اور شہرہ تھا ۔معاصرانہ چشمک نے بھی اس وقت جنم لے لیا اور ان کے کچھ محالفین ان کی اس مقبولیت سے جلنے لگے مگر ترون تیج پال اس طرح اسکینڈلوں،کیسوں اورمدعوںکے تجزیے پیش کر تے تھے کہ لوگ عش عش کر تے رہ جاتے ،حقائق اور بارکیو ںکا بیا ن اس قدر تفصیل اور وضاحت سے کرتے کہ مخالفین اپناسا منہ لے کر رہ جاتے تھے۔ کسی کو بھی ان پر انگلی اٹھانے کا بھی موقع نہ ملتا تھا ۔مجرم خود عدالت میں برضا و خوشی اپنے گناہوں کا اقرار و اعتراف کر تا تھا۔قصہ مختصر یہ کہ تروج تیج پال دونمبر کا دھندہ کر نے والوں کے لیے مجسم ’تہلکہ‘بن گئے تھے ۔ان کا نام جرائم اور بد عنوانی کی دنیا میں ’تہلکہ‘مچا دیتا تھا۔ مجرمین رات کے اندھیرے میںجرایم کر تے ہوئے ڈرتے تھے کہیں ترون تیج پال تو نہیں دیکھ رہے ہیں ۔


اس طرح کے زلزلہ خیز اور سنسنی کے پیامبرترون تیج پال جب بلندیوں سے گرے تو ہائے کیا کہنا کیسے گرے۔پستیاں بھی ان سے اوپر رہ گئیں ۔ تہلکہ کی زندگی میں ایسا تہلکہ مچا کہ انسانیت نے شرم سے سر جھکالیا۔ہمارے عہد میں ایک تہلکہ ایسا مچا جسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔ تہلکہ مچانے والے کی حالت اس قدر مجرمانہ ہو گئی کہ عدالتوں نے ضمانتیں دینے سے سختی سے انکار کر دیا۔حالانکہ کل تک وہی شخص عدالتوں ،ملک اور قوم سب کے لیے سرمایہ فخر تھا مگر آج اسے عدالت ملک اور قوم ہتھکڑیوں میں جکڑا ہوادیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ ترون تیج پال مر گیا جس کے ذریعے بڑے لوگوں کے ذریعے ستم زدہ انسانوں کو نجات ملتی تھی اورسیاست غنڈے قسم کے انسانوں سے پاک ہورہی تھی۔ اب تو جوترون تیج پال نظرو ںکے سامنے ہے وہ لاش ہے لاش ۔جسے لوگ بہت جلد دفنادیتے ہیں ۔ مگر یہ لاش نہ جانے کب دفنائی جائے گی؟جس کاوجود دن بدن ماحول کو متعفن کرتاجارہا ہے۔


چلو مانا کہ ’’ہر عروج را زوال است‘‘  اور’’ لکل عروج زوال ‘‘یہ بھی مسلّم حقیقت ہے کہ چڑھتا سورج زوال پذیر ہوتا ہوتا بے دم ہو کر غروب ہوجاتا ہے مگر اس کا مطلب یہ تو ہر گزنہیں کہ آدمی اس طرح گر ے کہ حیوان اور بے زبان خلق خدا بھی اس پر ملامت کرے۔وہ ننگ انسانیت بن جائے اور سماج و معاشرہ کو اس سے گھن آنے لگے؟گرنے اور زوال پذیر ہونے کا مطلب یہ کس نے بتا دیا کہ آدمی ذلتوں کی غار میں ڈوبتا چلا جائے ۔ہائے ترون تیج پال ۔۔۔۔۔ذرا سوچ لیا ہوتا کہ یہ میں کیا کر نے جارہا ہوں ۔میں آج تک دوسروں کو بے لباس کر تا آیا ہوں کل جب خود میرے کپڑے اتریں گے اس وقت میرا کیا عالم ہوگا؟اوہو انسان کس قدربھولا ہے کہ وہ خود دوسروں کی نقل حرکت دیکھتا رہتاہے مگر اپنے بارے میں سوچتا ہے کہ اسے کوئی نہیں دیکھ رہا ۔کہیںایسا ہوتا ہے بھلا ؟!


ترون تیج پال بلکہ ’تہلکہ ‘کی زندگی کا تہلکہ ایسے تمام لوگوں کے لیے نشان عبرت اور لمحۂ فکریہ ہے جو پر سکون ماحول میں ہنگامے بر پا کر نے کے لیے کبھی کبھی بے قصوروں اور معصوموں کا جینا مشکل کر دیتے ہیں ۔اپنی نفسانی خواہشات کی تسکین کے لیے اپنے ماتحتوں کا استحصال کر تے ہیں۔وہ یاد رکھیں کہ ان کی زندگیوں میں بھی ایسے ہی ہنگامے برپا ہوں گے اور اس طرح ہوں گے کہ انھیں کہیں سرچھپانے کو جگہ نہ ملے گی۔ترون تیج پال کی حالیہ زندگی ان کے سامنے کھلی کتاب کی طرح موجود ہے جسے جب چاہیں اور جہاں چاہیں وہ پڑھ سکتے ہیں۔ترون تیج پال نے ایسا بھی کیا ہے کہ اپنی شہرت کو مزید چمکانے کے لیے اکثر غریبوں کو بھی پر یشان کیاہے۔بس ان کے دل سے نکلنے والی آہوں نے آج ترون تیج پال کا بیڑہ غرق کر دیا اور اس کی زندگی موت سے بد تر ہوگئی ۔حالت یہ ہے کہ ترون تیج پال جیسے ’شخص ‘پر معمولی قسم کے انسان بھی تھوک رہے ہیں ۔اس سے زیادہ انسان کی ذلت اور کیا ہوگی؟


ترون تیج پال کی ٹریجڈی وہ ٹریجڈی ہے جس نے ہر عہد میں آسمانوں کے آگے انسانیت کا سر جھکایا ہے اور اس پر جملے کسنے کا موقع دیاہے۔کہتے ہیں وہ لڑکی جو جنسی استحصال کی شکار ہوئی ہے وہ ترون تیج پال کی پوتی کی عمر کی ہے۔ذرا سوچیے جب انسا ن ایسے بچوں کے ساتھ اس طرح کی گھنائونی حر کات کرے جو اس کی شفقتوں ،عنایتوں اورنوازشو ںکے مستحق ہوں تو کیا خداکی خدائی کو غضب نہیں آئے گا؟فطرت کو جلال نہیں آئے گا؟کاینات متزلزل نہیں ہوگی؟ضرور بالضرور خدا کی خدائی کو غضب آئے گا۔ فطرت کو جلال آئے گا اور کاینات میں زلزلے بر پا ہوں گے ۔جس کی تازہ اور زندہ مثال ترون تیج پال ہیںو ہ اسی غضب جلال اور زلزلوں کے شکارہوئے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ آج انھیں کہیں پناہ نہیں مل رہی ہے اور زندگی کا قافیہ تنگ سے تنگ تر ہوتا جارہا ہے۔

*****************

Comments


Login

You are Visitor Number : 747