donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Imran Akif Khan
Title :
   Arvind Kejriwal : Aik Marde Ahan


 

ارو ند کجریوال:ایک مردآہن


عمران عاکف خان

imranakifkhan@gmail.com


جو شخص سنگلاخ راستوں ،محنت بھری راہوں اور کانٹوں سے بھرے حالات سے مقابلہ کر تا ہوادنیا کی آنکھ کا تارا اور آرزئوں کا آسرابنتا ہے ،اسے عام طور ’مرد آہن‘کہتے ہیں ۔قومی راجدھانی خطہ دہلی کے نئے وزیر اعلاجناب اروند کجریوال عرف’کشن ‘کا شماراسی طرح کے انسانوں میں ہوتاہے۔جنھوں نے ایک انجینئرسے وزیر اعلا تک کا سفر جدو جہد،مسلسل کوششوں ،محرومیوں اور مشقتوں کے ساتھ طے کیا ہے۔کبھی وہ راستوں میں پیدل چلے ہیں اور کبھی انھیںبسوں کے لیے بس اسٹاپوں پر گھنٹوں انتظارکر نا پڑا ہے۔کبھی کبھار انھیں ریلوے پلیٹ فارموں پر رات گذارنی پڑی ہے۔مگر ان سب کلفتوں کے باوجود ان کے عزم محکم اورعمل پیہم میں ذرا بھی کمی نہیں آئی۔ آج وہ قومی راجدھانی خطہ  دہلی کے باوقار عہد ے ’وزارت اعلا‘ پر براجما ن ہیں اور ایسی حکو مت کر نے کا عز م اپنے فو لادی سینے میں بسائے ہوئے ہیں جو بدعنو انی ، کرپشن ، گھپلہ  بازںی اور عام روایا ت حکو مت و شا ہی سے ہٹ کرایک نئی تاریخ رقم کر ے گی۔نہ انھوں نے سرکاری بنگلہ لیا اور نہ سکیورٹی،۔جب دہلی پولیس کے اسپیشل سیل نے ان سے سکیورٹی کی پیش کش کی تو انھوں نے یہ کہہ کر ان کی پیشکش ٹھکرادی کہ ’خدا سب کا رکھوالا ہے اور بہتر ین حفاظت کر نے والاہے۔‘ اسی طرح نہ ان کی گاڑی میں لال بتی ہے اور نہ ان کے لیے خصوصی طیارے ہیں ۔وہ ایک عام انسان ہیں اور عام انسان کی طرح رہ کر ثابت کر نا چاہتے ہیں کہ حکومت اس طرح بھی جاسکتی ہے۔


ہریانہ کے بھوانی ضلع کے سیوانی منڈی میں 16اگست1968کو پیدا ہونے والے اروند کجریوال نے شاید سوچا بھی نہ ہو گا کہ ان کی محنت اس قدر کامیاب ہوگی کہ وہ حکومتی سطح پر ملک سے سیاسی غنڈہ گردی اور بدعنوانی پر ’جھاڑو‘ پھر یں گے ،تاہم اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ عزم محکم ان کے اندر ابتدا سے ہی تھا کہ’ کچھ بھی ہو ،ملک سے بدعنوانی کا خاتمہ کرنا ہی چاہیے۔‘اپنے عزم کی تکمیل کے لیے انھوں نے حصا ر سے ہائی کر نے کے بعد انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنا لو جی سے انجینئر نگ کے بعد اور ملک بھر کی سیرنیز مختلف اداروں میں ملازمت کے بعد محکمہ انکم ٹیکس میں ملازمت کی۔وہاں کاکر پٹ اور بے ایمانی کا ماحول دیکھ کر آپ خون کے آنسو رونے لگے۔محکمۂ انکم ٹیکس غریبوں پر تو ظلم ڈھاتاتھا ،ٹیکس جمع نہ کر نے یا تاخیر سے کر نے پر ان کی جائدادیں ہڑپ کر لیتا تھا مگر جو بزنس مین اور سرمایا داربارسوخ اور منتریوں کے رشتے دار ہوتے تھے ان سے رشوتیں لے کر انھیں دو دو تین تین سال کی مہلت دیتا تھا۔اروند کجریوال  سے یہ دیکھا نہ گیا مگر اس ٰ وقت آپ کمشنر نہیں تھے ۔پھر جیسے ہی خدانے انھیں یہ موقع عنایت فر مایاانھوں نے اولین کارنامہ یہی انجام دیا اوربڑے سرمایا کاروں کی پکڑ دھکڑ شروع کی جس کے باعث ان کی نیندیں حرام ہو گئیں ۔انکم ٹیکس آفس میں جناب کجریوال کمشنر بننے کے بعد بھی ایک عام آدمی کی طرح رہتے تھے ۔ اپنی آفس ،ٹیبل،صوفہ وغیرہ کی خود ہی صفائی کر تے اور کبھی چپراسی کی مدد نہ لیتے۔آپ نے محکمے میں بدعنوانی اور کرپشن کے خلاف ایک زوردار تحریک شروع کر دی ،جس کے باعث محکمے میں کھلبلی مچ گئی اور بدعنوا ن افسران کے ہوش اڑگئے۔آپ کی فرض شناسی اور صاف ستھری شبیہ کے سبب محکمۂ انکم ٹیکس میں اصلاحات کا زرین دور چل پڑا۔


اروند کجریوال کی ایمانداری اور سچائی کا اندازہ اس واقعے سے لگایا جاسکتا ہے ۔وہ خود کہتے ہیں کہ انکم ٹیکس کمشنر کو اتنا اختیار ہوتا ہے کہ وہ اپنے ذاتی اغراضـ و مقاصد کے لیے چاہے تو محکمے سے لاکھوں کروڑوں روپے لے سکتا ہے اور ان کا کوئی حساب کتاب بھی نہیںہوتا ،مگر میں نے یہ سب نہیں کیا ،میں نے ایسا کر نا گناہ سمجھا اور میرا دل ایسا کر نے پر کبھی راضی نہ ہوا ۔

مذکورہ بالا واقعہ اروند کجریوال کی پاک صاف شبیہ اور ذمے دارانہ شخصیت کا بیان ہے۔آج کے عہد میں جب کہ حکومتی سطح پر بدعنوانی،کر پشن اور ڈاکہ زنیو ں کا دور دورہ ہے ایمانداری اور سچائی کی یہ حقیقتیں پرانے زمانوں کی سی باتیں لگتی ہیں ،مگر اب مایو س ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ہمیں قدرت نے ایسا رہنما عطا کیا ہے جو سابق حکومتوں کے گھوٹالہ بازوں ،چورو ں،ڈکیتوں اور بدعنوانوںکاصفایا کر کے جیل رسید کر ے گا اوران کے کیے کی سزا دے گا۔


 اروند کجریوال کا پس منظر کبھی بھی سیاسی نہیں رہا اور نہ ہی وہ منہ میں سو نے کی چمچ لے کر پیدا ہوئے بلکہ ایک عام آدمی کے گھر ان کا جنم ہوااور عا م سے علاقے میں انھوں نے آنکھیں کھولیں۔مگر اس عز م کا کیا کیجیے جنھوں نے انھیں عام سے خاص کر دیا بڑے بڑے مجرم ان کے ہاتھوں انجام کو پہنچے اور ساری دنیا کو ان کی سچائی اور ایمانداری کا لوہا تسلیم کر تے ہوئے انعامات و اعزازات دینے پڑے۔ چنانچہ’رائٹ ٹو انفارمیشن پر کام کر نے کے صلے میں اروند کجریوال کوایشیا کا نوبل ایوارڈ’میگسیسے ایوارڈ‘ملا اس کے بعد آپ کا سفر رکا نہیں بلکہ مزید آگے بڑھا اوراس مرتبہ توآپ نے پورے ملک سے کرپشن و بدعنوانی کا خاتمہ کر نے کا تہیہ کر لیا ۔اسی غرض سے2006میں انکم ٹیکس ملازمت سے استعفا دے کر’پریورتن‘نامی این جی او،کے استحکام میں مصروف ہو گئے۔


اس کے بعد 2011میں جب سیاسی بدعنوانیوں نے زیادہ سراٹھایا اور عوام کاجینا مشکل کر دیا تو سماجی کارکن انا ہزارے کی سرپرستی میںاس کے خلاف ملک گیر سطح پر مہم شرو ع ہوئی۔اس تحریک کا مطالبہ’جن لوک پال بل‘کا نفاد تھا ۔جس کا مقصد تھا کہ سرکاری ،نیم سرکاری ،لوگوں،وزرا اور سیاست داں غرض تمام کرپٹ لوگوں کو اس کے دائرے میں لا کران کے ساتھ عام مجرموں جیسا سلوک کیا جائے مگر بدعنوانی کے دلدل میں گر دن گردن غرق کانگریس نے اسے کسی صورت پاس نہ ہونے دیا۔کجریوال نے جب ہوا کا یہ رخ دیکھا تو لوہے کو لوہے سے کاٹنے والی حقیقت پر عمل کر نے کے لیے انھوں نے26نومبر2012کو ’عام آدمی پارٹی‘کی شکل میں ایک سیاسی پارٹی قائم کی اور موجودہ حکومتوں ،سابق حکومتوں نیز سرکردہ سرمایہ داروں اسی طرح دہلی کی کانگریس کی زیر قیادت حکومت کے خلاف جدو جہد کاآغاز کیا جس کا نتیجہ یہ ظاہر ہوا کہ دیکھنے ہی دیکھتے لو گ عام آدمی پارٹی سے وابسطہ ہونے لگے اور بدعنوانی کے خلاف ’آپ‘ کا ہاتھ مضبوط کر نے لگے۔پھرایک وقت وہ آیا کہ’عام آدمی پارٹی‘ دہلی کے اسمبلی الیکشن 2013میں دوسری بڑی پارٹی بن کر ابھر ی اوراروندکجریوال اپنی مد مقابل شیلا دیکشت کوتاریخی شکست دے کر دہلی کے تخت پر براجمان ہو گئے۔


سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ’عا م آدمی پارٹی‘کو ملک بھر میں مقبول کر نے اور دہلی کے ایوان حکومت تک پہنچانے میں اروند کجریوال نے جتنی کوشش اور محنت کی ہے اس کی مثال نہیں ملتی ،اسی کوشش و محنت نے انھیں مردآہن بنا دیا ۔دہلی کے عوام نے ’عام ا ٓدمی پارٹی‘کو اروند کجریوال کا چہرہ دیکھ کر ووٹ دیا ہے اور ان ہی آواز پر دہلی کی پندرہ سالہ قدیم حکومت کو اکھاڑ پھینکا ہے۔ابھی جیسے جیسے وقت گذرے گا ملک اصلاحات کا دو ر دیکھے گا۔


کچھ دیدہ ور عام آدمی پارٹی کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ پارٹی ہمارے ملک کی نمائندہ  پارٹی ثابت ہوگی،جس طرح ہم مغربی ملکوں کی چیزوں اور طور طریقوں کو اپنا تے ہیں اسی طرح مغربی ملک ’عام آدمی پارٹی‘کی حکومت سے سیاست کا نیاانداز اور طریقے سیکھیں گے اور عام آدمی پارٹی کے طرز پر وہاں بھی پارٹیاں بنیں گی۔یہ ایک خیال ہے ۔خدا کر ے پورا ہوجائے اور ’عام آدمی پارٹی‘دنیا بھر کے لیے ہندوستان کی نمائند ہ پارٹی بن جائے ۔جو عام اور سادہ لوح لوگوں کی پارٹی ہے او رفولادی عزائم سے لیس لیڈران کے ہاتھ میں اس کی کمان ہے۔

*****************

Comments


Login

You are Visitor Number : 474