donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Imran Akif Khan
Title :
   Congress Aur Musalman


کانگریس اور مسلمان


عمران عاکف خان
imranakifkhan@gmail.com


جیسے ہی ملک کی پانچ ریاستوںمیںانتخابات کابگل بجا اور مرکز کے عام انتخا با ت قریب آنے لگے سیاسی لیڈران اپنے اپنے خول سے باہر آنے لگے اور اپنی اپنی بولیاں بولنے لگے۔


بی جے پی جیسی فسطائی جماعت کے افراد اور لیڈران تو بہت پہلے سے ہی میدان میںموجود ہیں اور پر امن علاقو ںمیں آگ لگا رہے ہیں ۔۔۔۔اب کانگریس کے نوجوان لیڈر اور قومی نائب صدرراہل گاندھی بھی کود پڑے اور حسب سابق یوپی سے اپنی لن ترانیوں کا آغاز کردیا۔بڑی تیز آواز میں مسلمانوں اور کانگریس کی یگانگت ‘یکجہتی اور مسلمانوں کے تئیں اپنی جماعت کی ہمدردیوں اور مسیحائی کا بیان کر رہے ہیں ۔جگہ جگہ ریلیاں منعقد ہو رہی ہیں اور راہل گاندھی کی شعلہ بیانی بھی جس میں زیادہ تر مظفر نگر فساد اور اتر پردیش حکومت کی نااہلیوں کا بیان ہے ۔مگریہ سب باتیں وہ امیروں کے بیچ میں کہہ رہے ہیںوہ غریبوں سے نہیں ملتے ۔ ضرورت ہی کیا ہے۔ان سے تو بس ووٹ ہی لینی ہے اور پھر پانچ سال تک چاہے وہ لٹتے ر ہیں یا برباد ہو جائیں‘ اسے کوئی پر وانہیں!


راہل گاندھی بڑی بڑی اور ناقابل یقین باتیں کہہ کر دودھ کے دھلے بن رہے ہیں اور اپنی جماعت کو مسلمانوں کا ہمدرد‘مسیحا اور دوست کہہ رہے ہیں ۔بڑی شدو مد سے ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں کہ اس کی جماعت نے جتنا مسلمانوں کو دیا ہے اس سے زیادہ کسی حکومت یا جماعت نے نہیں دیا نیز اس کی جماعت ہمیشہ کے لیے مسلمانوں کی دوست اور ہمدرد رہی ہے اور رہے گی۔ گذشتہ دنوں انھوں نے اپنے رنگ میں آکر رامپور اور علی گڑھ میں اظہار تشکر ریلی سے خطاب کے دوران کہا کہ’’ مظفر نگر میں ووٹ حاصل کر نے کے لیے فساد کرایا گیا ہے ۔کئی سیاسی جماعتیں ہیں جو لوگوں کے درمیان خلیج بنانا چاہتی ہیںجب کہ کانگریس ہمیشہ ہی عوام کے حقوق کا تحفظ کیا ہے۔۔۔۔‘‘


راہل گاندھی رو میں جانے کیا کیا بولتے گئے ۔اپنی جماعت کی تعریف کے پل باندھتے چلے گئے حالانکہ ہندوستان کی موجودہ نسل اور سیاسی تجزیہ نگار بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ کانگریس مسلمانوں کی کتنی ہمدرد ہے اور کتنی مسیحا ۔ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ یہ ایسی جماعت ہے جو پیا سوں کو پانی میں زہر ملا کر گلاس دیتی ہے اور پھر اس کے مرنے سے پہلے اس کا ووٹ لے کر راج کر تی ہے ۔کبھی تو اس کا نوالہ چھین کر دوسرو ںکو ددے دیتی ہے اور ان سے ووٹ لیتی ہے۔


یہ سچ ہے کہ کسی وقت کانگریس اور مسلمان ایک ہی چیز کے دو نام تھے ۔ کانگریس بول کر مسلمان مراد لیے جاتے تھے اور مسلمان بول کر کانگریس ۔مگر ملک کی آزادی کے کچھ عرصہ قبل اور آزادی کے بعد تو یہ اصطلاح پوری طرح ختم ہو گئی کیونکہ کانگریس نے ایسے حالات پیدا کیے اور مسلمانوں پر اتنے ظلم کیے کہ ان کی اکثریت مسلم لیگ ‘جمعیۃ علما ہند اور دیگر جماعتوں کے پرچم تلے چلی گئی۔


کانگریس کو اس عظیم تبدیلی سے شدید جھٹکا لگا اوراس نے دوبارہ مسلمانوں کو خود سے قریب کر نا چاہا مگر اس وقت تقسیم کا المیہ پیش آگیا اور مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد یہاں سے ہجرت کر گئی ۔یہ بات بھی کانگریس کے لیے ہوش ربا ثابت ہو ئی اور اس نے بچے کھچے مسلما نوں سے ہمدردیاں کیں ‘مولاناآزاد اور چندمسلم لیڈران کو جماعت میں بڑے عہد ے دے کر مسلمانوں کو لبھایا ۔پھر لٹے پٹے مسلمان کانگریس کی طرف چلے آئے اور اس کا مقصد عظیم حاصل ہو گیا ۔ پنڈت نہرو نے مسلمانوںکے بل پر حکومت بنا لی مگر اس دوران مسلمانوں پر پھر مظالم شروع ہو گئے ۔ا ن کی تہذیب و تمدن کی علامت دکن کو پولیس ایکشن برپاکر کے بر باد کر دیا گیا نہ صرف یہ بلکہ دکن کے اتحاد کو پارہ پارہ کر کے اسے آندھرا‘کر ناٹک اور مہاراشٹر میں تقسیم کر دیا۔ 
کیا راہل گاندھی اپنے پردادا جواہر لال نہرو کے مظالم بھول گئے جس نے دکن پر قبضہ کر نے کے لیے پولیس ایکشن کر ایا جس کی زد میں آکر نہ صرف حیدرآبادفرخندہ حال برباد ہوا بلکہ لاکھوں انسان قتل ہو ئے اور بے شمار دوشیزائوں کی عصمتیں لٹیں ۔ایک حیدرآباد ہی کیا پورے دکن میں کانگریس نے کمینے پن کا مظاہر کیا۔اورنگ آباد‘عثمان آباد ‘بیدر ‘حیدرآباد اور دکن کے دیگر علاقے آج بھی ان خوفناک حالات کو نہیں بھولے ہیں ۔حالانکہ ان حادثات کو نصف صدی سے زیادہ عرصہ گذر چکا ہے مگر وہ تھے ہی ایسے جنھیں کسی طرح بھلایا نہیں جاسکتا ۔


کانگریس کا حالیہ دس سالہ عہد گواہ اور بیان ہیں کہ مسلمانوں سے اس جماعت نے کتنی ہمدردی کی ہے ۔ان کے نوجوان بے قصور ہونے کے باوجود آج تک جیلوں میں بند ہیں ۔اس کا وزیر داخلہ ایک بیان دیتا ہے پھر اس سے مکر جاتا ہے۔ریاستی حکومتوں کومسلم نوجوانوں کے تعلق سے ایک مکتوب لکھتا ہے لیکن اس کا کوئی اثر آج تک دکھنے میں نہیں آیا بلکہ وزیر داخلہ صاحب کہتے ہیں کہ’’مسلمان خوش فہمی میں نہ رہیں وہ بیان مسلمانوں سے متعلق نہیں بلکہ اقلیتوں سے متعلق تھا ۔۔۔۔۔۔‘‘یہی نہیں بلکہ آج تک اس جماعت نے ایک وقف بورڈ اور اوقاف کی اراضی کا معمولی سامسئلہ تک حل نہیں کیا۔اس کے وزیر اقلیتی بہبود بس بیان بازی کرتے رہتے ہیں ۔حالانکہ بیانوں سے زیادہ کام اہم ہوتا ہے۔اس کے علاوہ مسلمانوں کے لیے اس جماعت نے ایسے ایسے قوا نین اور ضابطے بنا ئے ہیں کہ وہ بے چارے ملک میں سر اٹھا کر بھی نہیں چل سکتے ۔


راہل جی!آپ کس سے کانگریس اور مسلمانوں کی باتیں کہہ رہے ہیں !کسے بے وقوف بنا رہے !یہ وہ عہد ہے جس میں تاریخ ہمیشہ کے لیے ذہنوں میں محفوظ رہ جاتی ہے۔اب کوئی گذرے واقعات کو نہیں بھول سکتا ۔اورہاں!مظفر نگر فسادات کے زخم اب جب کہ مندمل ہوتے جارہے ہیںاور فساد متاثرین میں زندگی کے آثار دکھا ئی دے رہے ہیں ۔ایسے وقت میں آپ انھیں کیوں کر ید رہے ہیں؟انھیں ان کالے دنوں کی یاد کیوں دلا رہے ہیں ؟بجائے اس کے کہ آپ ان کی فریاد رسی کر تے اور ان کے زخموں کو بھرتے انھیں مزید تکلیف دینے کے لیے ان کے جذبات سے کھلواڑکررہے ہیں !افسوس ہے اس سفاکیت پر اور لعنت ہے آپ کی اس حیوانیت پر۔  


 واہ بھئی! آپ کی سیاست ہو رہی اور غریبوں کی جانوں پر بن رہی ہے۔کاش آپ کاگھر لٹتا‘آپ کے معصوم بچوں کے بھی ہاتھ پائوں کٹتے اور آپ کے گھر میں وہی سب کچھ ہوتا جو شرپسندو ںنے غریبوں ‘بے بسوں اور نہتوں کے گھروں میں کیا ہے ۔ تب پتا چلتا اوراس وقت احساس ہوتا آپ کو کہ سیاست کیا ہوتی ہے اور حقیقت کیا ہوتی ہے ؟


راہل جی !جس مظفر نگر فساد کی بات آپ کر رہے ہیں ۔وہیں سے تھوڑی دوری پر ہاشم پورہ اور ملیانہ ہے جہاں بے قصوروں کو آپ کی جماعت کے اقتدار کے عہد میں گولیوں سے بھون دیا گیا تھااور جیتے جاگتے لاتعداد عام انسان اور’ مسلمان‘خون میں لت پت ہو گئے تھے۔اس وقت آپ نے کوئی بیان نہیں دیا۔اسے حکومت کی کارروائی کا نام دیا گیا اور ملکی سلامتی کے تحت کیے گئے آپریشن کا نام دیا گیا ۔


راہل جی !یہ ہے کانگریس جماعت کی تاریخ جسے آپ مسلمانوں کی ہمدرداور مسیحا جماعت کہتے نہیں تھکتے ۔۔۔۔۔ہم نے مانا کہ اس ملک کے مسلمان کانگریس کو مجبوراًووٹ دیتے ہیں اور فرقہ پرستوں سے ملک کو بچانے کے لیے کانگریس کو اقتدار بخشتے ہیں مگر اس کا مطلب یہ تو 
نہیں کہ آپ جھوٹ بولتے رہیں اور عوام میں گمراہیاں پھیلاتے رہیں۔خدا را ہوش کے ناخن لیجیے اور غریب‘بے بس ‘نہتے اور سدا کے مظلوم و ستائے ہو ئے عوام کی جذبات سے کھلواڑ مت کیجیے۔ بس آپ سے آخر میں یہی میر ی استدعا ہے ۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 747