donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Imran Akif Khan
Title : دل پھر دہل رہے ہیں ‘اللہ خیر کرے
   Dil Phir Dahal Rahe Hain Allah Khair Kare


دل پھر دہل رہے ہیں ‘اللہ خیر کرے

 

 

عمران عاکف خان

imranakifkhan@gmail.com


ابھی 84کوسی پریکرما کے وقت کی گھڑ خوریاںاور اس کے نتیجے میں بر پا ہونے والے مظفر نگر کے بھیانک فرقہ وارانہ فساد کی یادیں ذہن میں تازہ ہیں کہ فسطائیوں کی ایک جماعت وشو ہندو پریشداتر پردیش میں’’سنکلپ دیو س‘‘ یا ’’یوم عہد ‘‘ منانے کی آڑ میں ناپاک منصوبے بنائے ہوئی ہے۔یوم عہد میں وہ اس بات کا عہد کرے گی کہ ’’ رام مندر ایو دھیا میںبابری مسجد کے ڈھانچے پر ہی بنایا جائے گا۔اس کے لیے چاہے کتنی ہی جانیں دینی پڑیں اور چاہے کتنی ہی رکاوٹوں کا سامنا کر نا پڑے ہم اس سے نہیں ہٹیں گے۔‘‘بظاہر تو یہ ‘’’یوم عہد ‘‘منانے کی ضد ہے مگر بہت شدت سے محسوس ہو رہا ہے کہ پھر کہیں قیامت بر پا کر نے کے ارادے ہیں اور پھر کہیں آگے لگا نے کے منصوبے ۔تاہم حکومت بھی ان کا منہ توڑنے کا عزم کیے ہوئے ہے ۔اس نے’’ سنکلپ یاتر ا‘‘ پر پابندی عایدکر دی نیز فسطائیوں کی ناکہ بندی کے لیے انتظامیہ نے ریاست بھر میں ہائی الرٹ کر دیا اور متعدد اضلاع کو سیل کر دیا ہے۔قانون کی سرحدوں کو توڑنے والے فسطائیوں کو حراست میں لینے اورفسادی لیڈران کی نظربندیوں کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔ چنانچہ ذرائع کے مطابق تادم تحریر 350کارکنان حراست میں لے لیے گئے اور تنظیم کے بڑے لیڈران رام ولاسں ویدانتی اورنرتیہ گوپال داس سمیت متعددلوگوں کو ان کے گھروں میں نظر بند کر دیا گیاہے۔خلاف معمول اس مرتبہ ٹرانسپو ر ٹ کے ادارے بھی مستعد ہیںاور ریلوے انتظامیہ بھی حرکت میں ہے ۔حکومت کے اس طرح کے کڑے انتظامات دیکھ کر فسطائی بو کھلاہٹ کے شکار ہیں اور رد عمل کے طور پر ان کے منہ میں جو آرہا ہے بک رہے ہیں ۔چناچہ ا شوک سنگھل نے زہر اگلتے ہو ئے کہا کہ ’’یوپی حکومت نے ہماری سنکلپ یاترا پر پابندی لگا کر اچھا نہیں کیا ۔ اس کے نتایج بہت جلد سامنے آئیں گے ۔ہم ہر حال میں یاترا نکالیں گے اور جو ہوگا دیکھا جائے گا۔‘‘ 


 فسطائیوں کے یہ عزائم ایسے ہی ہیں جیسے 84 کوسی پر یکرما کے وقت تھے اور حکومت نے تقریباً ایسے ہی انتظامات کیے تھے جن کے سبب فرقہ پرست دھول چاٹتے رہ گئے ۔۔۔۔۔مگراپنی اس شکست کا بدلہ ان ظالموں نے مظفر نگر میں فساد بر پا کر کے لیا تھا جس کے زخم ابھی تک تازہ ہیں ۔


یوپی حکومت اپنی دانست میں امن بر پا کر نے کے انتظامات کر رہی ہے مگر حساس لوگوں کے دل ایک انجانے خوف سے دہل رہے ہیں ۔لمحہ لمحہ ان کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا ہوتا جارہا ہے اور ان کے ہاتھ آسمانوں کی طرف اٹھ رہے ہیں ’’اللہ خیر کرے ‘پتا نہیں اب کہاں مظفر نگر کی تاریخ دہرائی جائے گی ۔‘‘ ایسے نازک ناز ک حالات میں ان کی دلی تمنا ہے کہ اتر پردیش حکومت ریاست بھر کے انتظامات کو اس وقت تک اسی طرح بر قرار رکھے جب تک کہ فرقہ پرستو ں کا زور ٹوٹ نہ جائے اس لیے کہ اگر انھیں چھوٹ ملی اور حکومت نے حسب سابق انھیں ڈھیل دیدی تو پھر یہ کہیں آگ لگا ئیں گے اور پرامن زمین کو شر و فساد سے بھر دیں گے۔


میں یہ باتیں ایک ایسی حکومت سے کہنے کی جسارت کر رہا ہوں جس کااور فسادات کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔مختصرسے عرصے میں اس حکومت میں اتنے فسادبر پا ہو گئے کہ لوگ اکھلیش یادو کی حکومت کو’ فسادی حکومت ‘کہنے لگے ہیں۔مگر میں ابھی بھی اتر پر دیش حکومت سے جانب سے پر امید ہوں کہ اس نے مظفر نگرفساد کو ریاست کا آخر ی فساد بنانے کے لیے اقدام کر لیے ہوں گے اور اب کبھی وہ اس طرح کی سُستی اور نااہلی کا ثبوت نہیں دے گی۔نیز دشمنان ملک سے اپنی بے زاری کا ثبوت بھی دے گی ۔


ایسے نازک حالات میں جتنی ذمے داری ریاستی حکومت کی بنتی ہے اس سے کہیں زیادہ مرکزی حکوت کی بنتی ہے ۔مگر اسے تو نہ جانے کیا ہو گیا۔ایک عرصے سے منموہن سنگھ کی حکومت بالکل معطل ہو کر رہ گئی ہے۔حالانکہ وہ پورے ملک کی حکومت ہے مگر اسے ملک کی کوئی پر واہ ہی نہیںہے۔یوپی میں کیا ہورہا ہے۔فرقہ پرستوں کے ناپاک ارادے کیا ہیں اور انھیں کس طرح شرو فساد پھیلانے سے رو کنے کے لیے کیا اقدام کیے جائیں ۔اسے فکر ہے تو اس کی کہ کوئلہ گھوٹالوں سے اسے کیسے نجات ملے اور جو اس نے بدعنوانی کی ہے اس سے کیسے جان چھوٹے۔نیز 2014کے الیکشن میں وہ پھرکیسے بازی مارے ۔ یہ عجیب گونگی بہری حکومت ہے جو ہمارے سرمنڈھ دی گئی ہے جس کے وجود سے ملک کی فضامکدر ہو گئی اور باشندگان وطن کو گھٹن سی محسوس ہوتی ہے ۔حکمراں یوپی اے کی مثال اس زخم کی سی ہے جو بھر نے کے قریب ہوتا ہے اور اس کی بد بو سے انسان کا دماغ پھٹنے لگتا ہے۔اس کے چند دنوں بعد زخم صحیح ہوجاتا ہے اور انسان ایک تکلیف دہ عنصرسے آزاد ہوجاتا ہے۔وہ وقت بہت قریب آگیا ہے جب ہم منموہن کی کٹھ پتلی حکومت سے آزاد ہوکر اپنے ملک کو خوشحال اور پر امن دیکھیں گے۔


دراصل یہ درد ہی ایسا ہے کہ ناچاہتے ہو ئے بھی یوپی اے کی برائی نوک قلم پر آجاتی ہے ورنہ یہ وقت تو اترپر دیش کی نازک نازک حالت پر اپنے احساسات پیش کر نے کا ہے اور اللہ پاک سے دعا کر نے کا یا خدا اترپردیش کا معاملہ کسی عظیم تباہی کے بغیر ختم کر دیجیے اور فسطائیوں کے ناپاک ارادو ں کو تہس نہس کر دیجیے۔


اتر پردیش میں اب تک جتنے بھی فساد ات ہو ئے ہیں ان میں ایک بات مشترک رہی ہے کہ حکومت کی جانب سے ان پر بر وقت کارروائی نہیں کی گئی اور لاپر وا ہی برتی گئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فرقہ پرست شیر ہو گئے اور انھوں نے حکومت کو یر غمال بنا لیا۔رفتہ رفتہ ان کی ہمت اتنی بڑھی کہ حکومت سے بھی لوہالینے کو تیار ہو گئے۔پھر حکومت کے سامنے تو پیش نہیں گئی اور اس کا غصہ نہتے اور بے بس عوام پر اتارد یا ۔ حکومت نے حسب سابق کارروا ئی نہیں کی اور اقلیتیں تباہ ہو گئیں۔


 یوپی حکومت ایک عرصے سے اس تگ دو میں ہے کہ وہ ایک کامیاب اور لوگوں کا امیدوں پر کھری اترنے والی حکومت کیسے بنے اور اس کے اور عوام کے درمیان جو خلیج بن گئی ہے اسے کیسے پاٹا جائے ۔مگر آج تک وہ اس معمہ کا حل تلاش نہیں کرسکی ہے۔اس کے لیے یہ آسان سی بات پتنگ کی ڈو ربنتی جارہی ہے جو الجھتی ہی جارہی ہے اور اس کا سرا نہیں مل رہا ہے۔دراصل اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ تخت حکومت پر ایک ایسے شخص کو بٹھادیا گیاہے جس کے ’سیاست ‘گر نہیں آتے۔اس کے آس پاس خوشامدیوں کی بھیڑ لگی ہو ئی ہے جو اسے غلط سلط مشورے دے رہیں جن نتیجہ عوامی نقصان کی صورت میں نکل رہا ہے۔راجہ بھیاجیسے قاتل سیاست داں کابینہ میں آتے جارہے ہیں اور عوام دور ہوتے جارہے ہیں۔یہ صورت حال کسی حکومت کے لیے اس کی موت اور تباہی ہے۔

*******************

Comments


Login

You are Visitor Number : 644