donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Imran Akif Khan
Title :
   Jan Lokpal Bill Aur Siyasi Duniya Ki Halchal


 

جن لوکپال بل اورسیاسی دنیا کی ہلچل


عمران عاکف خان

imranakifkhan@gmail.com


 15اگست 1947کو ہمارا وطن عزیز ہندوستان گوروں کی دو سو سالہ غلامی سے آزاد ہوا اس کے معاً بعد یہاں کی سیاسی جماعتوںو قیادتوں نے اسے اپنا غلام بنا لیا۔نیز اپنی ہوس مال وزر کی تکمیل کی خاطر لچیلے قوانین اور سودھان بنا کر مادر ہند کوجی بھر کے لوٹاجس سے نہ صرف اس کے زخموں پہ زخم لگے بلکہ عالمی سطح پر بھی اس کا نام و نشان مٹ گیا ۔یہ ایک دو دن کا المیہ نہیں بلکہ 65سال کے زخم ہیں جنھوں نے ہندوستان کی عظمت و مسخ کر ڈالا ۔اپنوں کے دیے زخموں کو ہندوستان جھیلتا گیا مگر اس وقت انتہا ہوگئی جب اپنوں کی چیرہ دستیوں کے ساتھ غیر ملکی لٹیروں نے بھی یہاں لوٹ مار مچادی نیز وہ یہاں کی حکومتوںکی سرپرستی  میںعوام ہند کا خون چوسنے لگے۔پھر جیسے ہی مقصد حاصل ہوا ہڈیوں کو پھینک کر آگے بڑھ گئے۔۔۔۔۔یہ سلسلۂ حیوانیت دراز ہوتا جارہا تھا کہ تقریباً دو ڈھائی برس سے ہندو ستان کو ان عذابوں سے نجات دلانے کے لیے سرزمین مہاراشٹر سے ایک آواز اٹھی اور اس کے بعد سے ہی عوام اورمرکزی حکومت کے درمیان قومی سطح پر ایک جنگ چھڑگئی جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔عوام کا مطالبہ ہے کہ مجرمانہ شبیہ اور غیر منصفانہ پہچان رکھنے والے بد عنوان قومی و ریاستی لیڈران پر قانونی اور تادیبی شکنجہ کسا جائے جب کہ مرکزی حکومت عوام کے اس مطالبے کو پیروں تلے کچل کر اپنی دائمی بالاتری کی دھاک بٹھا نا چاہتی ہے۔

بد عنوان لیڈران کے خلاف ہونے والی ایسی قانونی و تادیبی کارروائی کو ’لوک پال بل‘کانام دیا گیا ہے جسے سب سے پہلے 2011میں سماجی کارکن اناہزارے نے ’انڈیا اگینسٹ کرپشن‘کے بینر تلے ا ٹھایا تھا ۔مرکزی حکومت کی جانب سے اول اول اس تحریک کودبانے کی کوشش کی گئی لیکن اگست 2011 میں ہونے والی انا ہزارے کی طویل بھوک ہڑتال اور میڈیا کے جھکائو نے کانگریس کے زیر قیادت حکومت کو دہلا دیا۔حکومت کے پاس انا کی بات نہ ماننے کا اب کوئی جواز نہیں تھا۔اس کی رضا دیکھ کر اناو ٹیم انا نے لوکپال بل کی تشکیل میں حکومت کا ہاتھ بٹایا (وہ بل اپوزیشن کی مخالفتوں کے بعد 2013کے پارلیمانی سیشن میں پاس بھی کر دیا گیا) مگر چو نکہ وہ بل اہم نکات سے عاری اور ناقص تھا ، اس لیے یہیں سے ہی ٹیم انا کے اہم ترین رکن اروند کجریوال نے اپنا راستہ بدل دیا اور اپنی سیاسی جماعت ’عام آدمی پارٹی ‘تشکیل دے کر لوکپال بل کو ’جن لوکپال بل ‘کا نام دیا اور بدعنوانوں کو انتخابات میں ہرانے کا عزم کر لیا۔ چنانچہ 2013کے دہلی اسمبلی انتخابات میںتبدیلی کے خواہش مندوں نے انھیں امید سے زیادہ ووٹ دے کر دہلی کی دوسری بڑی اکثریتی پارٹی بنا دیا۔تاریخ نے پہلی مرتبہ دیکھا کہ ایک نئی نویلی پارٹی 28سیٹیں لائی۔اس تاریخی کامیابی سے جہاں ’عآپ‘کے تئیں عوام کے خلوص اور جذبات کا علم ہوا وہیں دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ اس بہانے سرکاری طور پربرائیوں وبدعنوانیو ں کے خاتمے کا پلیٹ فارم مل گیا ۔چنانچہ کانگریس کی حمایت سے 18دسمبر 2013کو دہلی میں ’عام آدمی پارٹی‘ کی حکومت قائم ہو گئی ۔اتنی عظیم ،حیرت انگیز اور اچانک کامیابی کے بعد بھی ’عام آدمی پارٹی ‘ اپنے مقاصد پر گامزن رہی ،حالانکہ اسے مقصد بھٹکانے کی لاتعداد کوششیں کی گئیں مگر کوئی کامیاب نہیں ہوئی۔اس پر مزید انتخا با ت سے قبل کیے گئے وعدے پورے کر کے ’عآپ‘نے عوام کے دلوں میں جگہ بنالی۔ضرورت پڑی تو کانگریس و بی جے پی نیز مرکزی حکومت سے بھی لوہا لیا ۔یہاں تک تو معاملہ اتنا سنگین نہیں تھا مگر جب اروند کجریوال کے حوصلے اور ’عام آدمی ‘کو اس کا حق دلانے کے ارادے ’جن لوک پال بل‘کے نفاذ کی’ضد ‘تک بلند ہوئے توکانگریس وبی جے پی دشمن کی طرح کھل کر سامنے آگئیں اور کجریوال حکومت کے خلاف نازیبا کلمات ، گستاخانہ اندازاور بے بنیاد الزمات تراشی کا ایک طویل سلسلہ شروع کر دیا۔مگر ان طوفانوں میں بھی کجریوال کی کشتی بحفاظت ساحل سے آلگی اور طوفان منہ کی کھاکر رہ گئے۔

’جن لوکپال بل ‘کیا ہے؟اور کیوںاس کے نفاذ پر اس قدر لوگ آسماں سرپے اٹھا ہوئے ہیں ؟یہ سوال ہر اس ہندوستانی کا ہوسکتا ہے جسے گذشتہ 66سال سے سیاسی گمراہیوں اورتاریکیوں میں رکھا گیا ہے۔نیز اسے زباں بندرکھنے کی تاکید بھی کی جاتی رہی ہو۔

موٹے طور پر اگر اس کا کوئی جواب ہو سکتا ہے تو وہ یہ ہے کہ جیسے گھر کے کسی تاریک گوشے میں کچھ چوہے گھر کی بنیادو ں کوکھودرہے ہوں اور قیمتی اشیاکو بر باد کررہے ہوں اچانک ان پر کہیں سے ٹارچ کی روشنی پڑجائے اور ان کی چوری پکڑی جائے ۔پھر اس میں کسی چھوٹے بڑے،صاحب حیثیت ،مرکزی یا ریاستی چوہے کی کوئی تخصیص نہیں، سب کے سب مجرم اور قابل گرفت ہوتے ہیں ۔ان کی سزا پنجرے میں قید کر نا یا دنیا سے ہی مٹادینا ہوتی ہے۔بس یہی ہے ’جن لوک پال بل ‘جو ان نیتائوں اور لیڈران کی چوری پکڑتا ہے جو ہمارے ملک کی دولت،معیشت اور عوامی بہبود کی اشیا کو برباد کرتے ہیں ۔عوام کے حقوق کو پامال کرتے ہیں اور انھیں ووٹ بنک بنا کر بے وقوف بنا تے ہیں۔ ایسے تمام لیڈروں اور بدعنوانوں حکمرانوں کو پکڑنے والا پنجرہ ’جن لوک پال بل ‘ہے ۔اس کی مخالفت کا سبب اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ جس دن قانون کے ہاتھ بد عنوان لیڈران کی گردنوں تک پہنچیں گے اس دن دنیا کانگریس ،بی جے پی،سماج وادی پارٹی ،بی ایس پی اور دیگر جماعتوں کے لیڈران کو ’بے لباس ‘دیکھے گی۔برسو ںکا بھرم تو ٹوٹے گاہی مزید عوام ان کے گنجے سروں پر رہے سہے بال بھی نہیں چھوڑیں گے۔
یہ خدشات ایک طرف ،یہ فکریں ایک جانب اور ملک کی بڑی پارٹیوں کی یہ تشویشیں جدا مگر اروند کجریوال یا عام آدمی پارٹی کی ’ضد ‘ہے کہ یہ بل پاس ہونا ہے ۔۔۔۔۔یہ بل پاس ہونا ہے ۔۔۔۔۔۔یہ بل پاس ہونا ہے۔۔۔۔۔۔اس کے لیے وہ کسی حدتک بھی جانے پر آمادہ ہیں ۔اگر انھیں حکومت سے بھی ہاتھ دھونے پڑیں تو وہ تیار ہیں ۔بلکہ ان کا قول ہے کہ میں ’عام آدمی‘ کو اس کا حق دلانے کے لیے ایوان میں آیا ہوں حکومت کر نے نہیں ۔مجھے اگر حکومت کر نی ہوتی تو اتنا گورکھ دھندا کرنے کی کوئی ضرور ت نہیں تھی اور ہاں !جن لوکپال بل پہلے صرف مطالبہ تھا مگر اب میری ضد ہے ۔‘یہ کجریوال کے ایمان اوراس انسان کے اقوال ہیں جو غریب انسانیت و عوام کی فلاح و بہبود اور گندے انسانوں سے اس کی نجات کے سپنے دیکھتا ہے۔

’عآپ‘کے یہ نین کٹیلے اور تیکھے تیور دیکھ کر برسو ںقدیم اور عمردراز پارٹیوں کا پتّہ پانی ہوا جارہا ہے ۔ وہ ایک گھن چکر میں پھنس گئی ہیں،ایک ہلچل مچی ہوئی ہے ان کے خرمنوں میں۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ اس عرصۂ محشر میں کریں تو کیا کر یں ؟مگر جب تک وہ کوئی فیصلہ کر یں گی اس وقت دیر ہوجائے گی اور دہلی کی باوقار حکومت ’جن لوکپال بل‘ نافذ کر کے ’بدعنوانوں ‘کا ہر جانب سے گھیرائو کر لے گی۔ 

***************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 620