donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Imran Akif Khan
Title : ظالم فسطائی اوربے بس اکھلیش یادو
   Zalim Fistayi Aur Be Bas Akhilesh Yadav


ظالم فسطائی اوربے بس اکھلیش یادو


عمران عاکف خان
imranakifkhan@gmail.com
09911657591


ہندوستا ن جیسے امن و آتشی کے گہوارے ملک میںآزادی وطن کے ایک طویل عرصے بعد کبھی خون ناحق اور غیر فطری موت کا تصور بھی نہیں تھا ۔یہاں کے لوگ موت کی سوداگری اور غارت گری فراموش کر چکے تھے۔ بس باہر ملکوں کے بارے میں سنتے اور پڑھتے تھے کہ فلاں جگہ 50آدمی بم دھماکوں سے جاں بحق ہو گئے۔فلاں شہر میں 100آدمی ہلاک کردیے گئے ۔فلاں جگہ درجنوں آدمیوں سے بھری بس بم سے اڑادی گئی ۔۔۔۔۔۔لیکن افسوس!6دسمبر1992 اور2002کے مسلم کش فسادات کے بعد یہ وبائیں اور نمونے ہمارے ملک میں بھی ہو نے لگے اور فسادات کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ چل پڑا۔کشمیر سے کنیا کماری ’چندی گڑھ سے جے پور اورکلکتہ بنگلور و جنوبی ریاستوںتک فرقہ وارانہ فسادات کی لہر چل پڑی اور فرقہ پرست جیلوں میں بند مسلم نوجوانوں کاقتل کر کے اور چلتی بسوں و ٹرینوں میں بلوا کر کے یہ وارداتیں انجام دے رہے ہیں۔حکومتیں اور انتظامیہ بجائے ان پر قدغن لگانے اور ملک میں امن امان کی فضا بحال کر نے کے ان تماشوں عام تماشائیوں کی طرح کو دیکھ رہی ہے۔سرزمین ہند پھر لال ہورہی ہے اور یہاں کی حکومتیں آپسی رسہ کشی کی شکار ہیں۔ 


جس وقت میں یہ سطور لکھ رہا ہوں مغربی اتر پر دیش کا ضلع مظفر نگر آگ و خون کا نمونہ بنا ہوا ہے ۔متعدد علاقے کر فیو زدہ ہیں اور شہر میں پولیس کی وردی میں شرپسند عناصر دندناتے پھر رہے ہیں۔ مظفر نگر میں یہ کیسے ہوا ؟کیوں ہوا ؟ابتدا کس نے کی ‘یوپی حکومت اس فساد پر کنٹرول کیوں نہیں کر سکی اور آخری سوال یوپی حکومت کیوں بے بس بنی ہو ئی ہے؟۔۔۔۔۔۔یہ سوالات ہر حساس انسان کے ذہن و دماغ میں طوفان مچا رہے ہیں ۔


اس کا آغاز دارالعلوم دیوبند کے ایک طالب علم پر ٹرین میں حملہ ہونے کے بعد ہوا ۔جس کے رد عمل میں مسلمان سڑکوں پر نکل آئے ۔شر پسندو ں کو مسلمانوں کا یہ احتجاج پسند نہیں آیا لہٰذا انھوں نے اپنے ناپاک منصوبوں کو تیزکرتے ہو ئے شرپسندی کی حد کر دی اور 27اگست کوضلع مظفر نگر کے باشندے شاہنواز قریشی نامی شخص کو چھرا گھونپ کر انتہائی بے رحمی سے قتل کر دیا۔اس کے رد عمل میںمسلمانوںنے اس کے دو قاتلوںکو موت کے گھاٹ اتار دیا۔اس کے بعدآنا فانا میں مظفر نگر میں فساد رو نما ہو گیا۔فرقہ پرست بی جے پی اور فسطائی طاقتوں کے نمائندے نہتے شہریوںپر اندھا دھند گولیاں چلانے لگے ۔جن کی زد میں آنے سے ٹی وی صحافی‘فوٹو گرافر س اور مختلف شعبہ ہائے حیات سے وابستہ9ادفراد ہلاک اور35افرادزخمی ہو گئے ۔مبصرین کہتے ہیں کہ شر پسندوںکی بندقوں کی دھنادھن نے جنرل ڈائر اور جلیاں والا باغ کی یاد تازہ کردی ۔لاشیں کر ب ناک چیخیں مارتی ہو ئی تڑپ رہی تھیں اور دم توڑرہی تھیں۔ ۔۔۔۔۔یہ سب ہوا اور انتظامیہ مکمل طورپر نااہل بن کر یہ تماشا دیکھتی رہی۔کہتے ہیں یہ فسادحالات کشیدہ ہونے کے باوجودشرپسندوں کی جانب سے ہفتے کو ہونی والی مہاپنچایت پر روک لگانے کارد عمل تھا مگر شرپسندوں نے’ قانون‘ کی دھجیاں اڑاتے ہو ئے پنچایت منعقد کی اور کھل کر شرانگیزی کر تے ہو ئے شرکا کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی ہدایتیںدی گئیں۔وقائع نگار کہتے ہیں کہ میٹنگ میں لوگ ہتھیارو ںکو لہرارہے تھے ۔اس سے میٹنگ کے مقام کی راہ میں پڑنے والے گائوں میں ایسے ہی اسلحوں کے مظاہرے کیے گئے جن سے گائوں کے لوگوں نے ڈر کر گھروں کے دروازے بند کر لیے اور چارو ںطرف خوف و ہراس پھیل گیا۔اس سے پہلے ایسی ہی کوشش دیوبند میں کی گئی مگر وہاں کی انتظامیہ نے اس پر بر وقت کارروائی کی اور فرض کی ادئیگی کا حق ادا کر دیا۔ ۔۔۔پھرمظفر نگر میں فساد بر پا ہو گیا۔9افراد لقمہ اجل ہو گئے اور متعدد زخمی ۔۔۔۔۔اس کے بعد شہر میںغیر معینہ حکم امتناعی نافذ کر دیا اور بے بس حکومت نے چند پولیس افسران کو معطل اور مہلوکین کے ورثا کو چند لاکھ روپے معاوضہ دینے کا اعلان کرکے گویااحسان عظیم کر د یا!


یہ بات سب جانتے ہیں کہ ابھی اکھلیش یادو حکومت کو مشکل سے ڈیڑھ سال کا عرصہ گذرا ہے لیکن اس نے یوپی میں فسادات کی ایک تاریخ رقم کر دی۔سرزمین یوپی نے کبھی اتنے ’ یکے بعد دیگرے ‘مسلسل اور لگاتا ر فسادات نہیں دیکھے ہوں گے جتنے اس مختصر سے عرصے میں اب تک رونما ہوچکے ہیں۔افسوس!ایس پی حکومت کی اعلا کمان نے ایک نااہل ‘نوعمر اور سیاسی حالات سے ناواقف شخص کے ہاتھوں میں محض ’’تجربے ‘‘کے لیے یوپی کی کمان دے دی اور وزیر اعلا موصوف نے فرقہ پرستوں کے رحم و کرم پر اتنی بڑی ریاست کو چھوڑدیا۔ہندوستان اوریوپی کے عوام ان لوگوں کو کبھی معاف نہیں کر یں گے جنھوں نے اکھلیش یادو جیسے ناکارہ شخص کو وزارت اعلا کی کر سی پر براجمان کیا ہے۔خود  چین کی بانسری بجانے لگے اوردلّی کے تخت کا خواب دیکھنے لگے۔ ان کا حال وہی ہوگا کہ 
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم ٭نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے


کوسی کلاں سے لے کر مظفر نگر تک تمام فسادات میں اکھلیش یادو ایک بے بس حکمراں کی شکل میں نظر آئے ہیں جو مرنے والوں کے لواحقین کے زخموں کا مداواکر نے اور فرقہ پرستوں کی گر دن توڑنے نیز ان کے منصوبوں کو خاک میں ملانے کے بجائے ریاست کے خزانے کو بر باد کررہے ہیں ۔بھلا بتائیے۔۔۔۔چند لاکھ روپے خیرات کر نے سے کیا ریاست پر لگنے والے فساد ات کے داغ مٹ جائیں گے ؟اس سے بھی اہم سوال یہ کہ کیا مرنے والے واپس آجائیں گے ؟ان بوڑھے ماں باپ کے بچے ‘ان گھر وں کے چراغ‘ان بیویوں کے آسرے ‘ان بچوں کے سہارے کیا واپس آجائیں گے جنھیں فرقہ پرستوں کا ظلم اور گولیاں ہضم کر گئیں ۔۔۔۔۔ہر گز نہیں ۔کسی بھی طرح یہ ممکن نہیں ہے ۔


ہندوستان میں یہ عجیب رسم چل پڑی ہے۔کہیں سیلاب آیا‘قدرتی آفات سے عوام دوچار ہو ئے ‘فرقہ وارانہ فسادات ہو ئے یا کسی بھی طرح غیر فطری موت ہو ئی تو اس وقت مرکزی یا ریاستی حکومتوں کے خزانے کھل جاتے ہیں اور غمزدہ لوگوں کو پیسوں کے چمچماتے نوٹ دے کر غموں کو بھولنے کی تلقین کی جاتی ہے۔یہ کیسا پاگل پن ہے اور کیسی دیوانگی۔۔۔۔۔اس سے بہتر تو یہ تھا کہ ان اسباب کے رونما ہونے سے پہلے ہی ان کے انسداد کی کوششیں ہوتیں اور ان شعلوں کو بجھایا جاتاجن سے آشیانوں میں آگ لگنے کا اندیشہ تھا ۔۔۔۔۔۔ہاتھ پہ ہاتھ دھرے رہنے والے یہ حکمراں اور لیڈران ایسا نہیں کر تے بلکہ یہ عجیب طرفہ تماشا ہے کہ اپنی سیاست چمکانے اور خود کو ملت کا سب سے بڑا ہمدرد ثابت کر نے کے لیے جیسے ہی بلا ٹلتی ہے متاثرین کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے لیے پہنچ جاتے ہیں اور اپنی کھوکھلی تقریروں سے ماحول کو گرمادیتے ہیں ۔ایک بات کہنا تو وہ کسی طرح نہیں بھولتے کہ ’’یہ سب ہماری حکومت کو بدنام کر نے کی سازش ہے ۔دشمنوں کو ہماری حکومت پسند نہیں آرہی ۔ہم عوام سے اپیل کر تے ہیں کہ وہ افواہوںپر دھیان دینے کے بجائے حکومت و انتظا میہ سے تعاون کر یں۔‘‘اس کے بعد اپنی چمک دارسی گاڑی میں بیٹھ کر یہ جا اور وہ جا۔رہ جاتے ہیں زخموں کو چاٹتے عوام اورشیطانی قہقہے لگاتے شرپسند ۔ 


قارئین کرام !شاید میرے یہ احساسات آپ پر گراں گذررہے ہوں گے۔۔۔۔مگر میں جھوٹی تعریفوں کا قائل نہیں ہوں ۔میرے سینے میں اتنے زخم اور پھپھولے بھرے ہیں کہ میرا سینہ ٹیس اور درد سے پھٹا جارہا ہے۔حالانکہ مجھے کسی وزیر یا حکمران سے ذاتی پر خاش نہیں ہے مگر میں یہ حقیقت بھی کسی طرح تسلیم نہیں کر سکتا کہ جہاں جہاں فسادات ہوتے ہیں وہاں کی حکومتوں کو اس کی اطلاع نہ ہوتی ہواور ان کی ملی بھگت نہ ہوتی ہو ۔۔۔۔ مظفر نگرکے حالیہ فساد کا یہ لاواتو 12دن پہلے سے ہی پک رہا تھا۔اس وقت یوپی حکومت عوام کی تسلیاں دے رہی تھی کہ’’ عوام صبر کا دامن نہ چھوڑیں ۔افواہوں پر دھیان نہ دیں ۔یہ معمولی بات ہے اور دوچار دن میں حالات معمول پر آجائیں گے ۔۔۔۔‘‘ 


جب کہ آج تک کی تاریخ یہ ہے کہ شرپسند عناصر جو بھی ناپاک منصوبہ بناتے ہیں اس کا اختتام فرقہ وارانہ فساد اور مسلم اقلیت کے قتل پر ہوتا ہے ۔کوسی کلاں سے لے کر غازی آباد‘ڈاسنہ اور میرٹھ تک ہونے والے فسادات کی تاریخ اکھلیش یادو کے سامنے تھی مگر انھوں نے اس معاملے کو طول دیا اور 12ویں دن فرقہ پرست اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے پھر انتقامی کارروائی کر نے سے قبل ہی پوری ریاست میں ہائی الر ٹ کردیا تا کہ مظفر نگر کے مقتولین کی تعزیت اور متاثرین کی فریاد رسی کے لیے کوئی نہ آسکے۔ سوال ہوتا ہے کہ پہلے سے ہائی الرٹ کیوں نہیں کیا گیا ؟ اس کامطلب اکھلیش یا دو حکومت ہندوئوں سے زیادہ مسلمانوں کو ملک اور ریاست کے حق میں نقصان پہنچانے والا سمجھتی ہے اور اسے مسلمانوں سے زیادہ فرقہ پرستوں کے مفاد عزیز ہیں۔ اورکیا مطلب ہے اس کا۔


یہ عجیب ٹریجڈی ہے کہ اکھلیش یادو ایک تو نااہل وزیر اعلااس پر مستزاد وہ فرقہ پرستوں کے ہم نوا ہیں اور درپردہ ان کی حمایت کر رہے ہیں ۔اپنی ریاست کے مسلمانوں کو ان کے مظالم کا شکارہوتے دیکھ رہے ہیں ۔یا پھر ایک نئی تعبیر بن رہی ہے کہ ’’ظالم فسطائی اور وبے بس اکھلیش یادو۔‘‘

*********************

Comments


Login

You are Visitor Number : 628