donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Jalaluddin Aslam
Title :
   Taleem Ka Amal Aik Mustaqil amal Hai

تعلیم کا عمل ایک مستقل عمل ہے

 

جلال الدین اسلم، نئی دہلی

موبائل نمبر: 09868360472

قوموں اور ملتوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ عروج و زوال میں تعلیم یافتہ افراد کا سب سے اہم اور کلیدی رول رہا ہے اسی لیے دنیا کی ہر مہذب و ترقی یافتہ قوم نے اس حقیقت کو کبھی فراموش نہیں کیا اور وہ زندگی کے رموز کو پانے کے لیے علم کے عمل کو نہ صرف نسل درنسل منتقل کرنے کی ہر ممکن سعی کرتی رہی ہے بلکہ یہ بات بھی ترقیاتی قومیں اچھی طرح سمجھتی ہیں کہ جو قومیں اپنے تابناک ماضی سے کٹ جاتی ہیں گویا وہ اپنی جڑ کو ہی کھودیتی ہیں۔

ایک دانشور کا کتنا بامعنیٰ قول ہے کہ وہ قومیں کبھی نہیں مرتیں ہیں جن کی تجربہ گاہیں تادیر روشن رہتی ہیں۔ یہ وہی لوگ یا وہی قومیں روشن کرسکتی ہیں یا کرتی رہی ہیں جو زمانے کے بدلتے تقاضوں کے مافی الضمیر کو سمجھنے اور انہیں پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے عزم و عمل سے لیس ہوں۔ یہ کاہلوں اور جاہلوں کا کام نہیں ہے۔ یہ توہمہ وقت مستعد اور آمادۂ کار ذہنوں کا حق ہے کیوں کہ جاہل اور کاہل وقت کی رفتار کا ساتھ نہیں دے سکتے۔

واضح رہے کہ جب تک مسلمانوں کے ہاتھوں میں علم کا عمل تھا، وہ پوری دنیا میں نہ صرف سرخرو ہی رہے بلکہ دنیا پر حکمرانی بھی کی اور دوسروں کے لیے مشعلِ راہ بھی بنے رہے۔ لیکن مسلمان جیسے جیسے علم و ہنر سے روگردانی کرتے گئے اپنے ماضی سے کٹتے گئے اور آج ناگفتہ بہ حالات پر پہنچ گئے۔ حتیٰ کہ ہر کس و ناکس کی تضحیک کا موضوع بنے ہیں نیز مذہب و ملت اور اسلاف کے کاموں اور کارناموں کو بھی رسوا و ذلیل کرتے جارہے ہیں۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ جس مذہب کی ابتدا ’اقراء‘ پر ہو اور جس دین نے اپنے ماننے والوں پر علم حاصل کرنا فرض قرار دیا ہو اور ہر مرد و وزن کے لیے ضروری ہو کہ وہ زندگی اور کائنات کے پُراسرار حقائق سے واقف ہو، تاکہ جس معاشرے میں وہ شب و روز گزار رہے ہیں اس میں ان کی حیثیت کیا ہے، صحیح مقام و حیثیت کیا ہے، اس کا پوری طرح علم ہو۔ تعلیم انہی بنیادی حقائق کو آشکارا کرتی ہے۔

اسلام کے ابتدائی ادوار پر نظر رکھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ نبی آخر الزماںؐ نے تعلیمی اہمیت و ضرورت پر جابجا زور دیا ہے اور مسلمان مرد و عورت پر علم حاصل کرنا فرض قرار دیا ہے۔ ابتدائی دور میں رسول اکرم اور صحابہ کرام اس فرض کو بلامعاوضہ انجام دیتے تھے۔ دارارقم، مسجد نبوی وغیرہ جنہیں اسلام کے تعلیمی مراکز کی حیثیت عام تھی وہاں فری داخلہ اور فری تعلیم کا نظم قائم تھا اور یہ سلسلہ آج تک اکثر جگہوں اور اداروں میں قائم ہے لیکن افسوس کہ تعلیم کا اصل مقصد اور اس کی روح مفقود ہوگئی ہے جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ آج ہم نے اپنی تعلیم کو تقسیم کرکے خود کو بھی تقسیم کرلیا ہے۔ ہم آج دینی و عصری تعلیم میں ہٹ کر اس سے حاصل ہونے والی حکمت و دانائی سے ہی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جس کے نتیجے میں اغیار نے ہم پر یلغار کر رکھی ہے۔ ہمارے مدرسے اور مساجد دشمنوں کی نظروں میں اب دہشت گردی کے اڈے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ہر شخص تعلیمی نظام میں نت نئی تبدیلیوں کے لیے مشورے دینے لگا ہے۔ کوئی اسے بھگوا کرن کرنے کی تلقین کرتا ہے تو کوئی سیکولرزم پر مبنی درس دے رہا ہے اور مسلمان اپنی اپنی فکر کی الگ الگ کشتیوں میں سوار تباہی کی منجدھار میں غوطہ زن ہیں۔

مدارس کے کردار ہوں یا مسلمانوں کی تاریخ انہیں مسخ کرنے کی ہر ممکن کوشش ہر دور میں رہی ہے چاہے وہ یوپی اے کا دور رہا ہو یا این ڈی اے کا۔ ہر ایک نے ہی ان پر شکنجہ کسنے کی کوشش کی ہے اور تاحال یہ سعی جاری بھی ہے۔ نہیں کہا جاسکتا کہ مستقبل میں حالات کیا رخ اختیار کرسکتے ہیں۔ قرائن و قیاس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے حالات بد سے بدتر ہونے والے ہیں۔ موجودہ حکومت سے کسی خیر کی امید رکھنا محض سادگی ہی کہی جائے گی۔ مسلمانوں کے تعلق سے جس طرح کی خیرخواہی کا دم بھرا جارہا ہے اور اس تعلق سے مسلمانوں میں ہی کچھ لوگ حکومت کی تائیدو حمایت میں آگے آگے ہیں، ان کی درپردہ ذہنیت اور مساجد و مدارس پر تسلط رکھنے والوں کی نیتوں پر کسی طرح کا تبصرہ کیے بغیر حقائق کا اندازہ لگانا مشکل نہیں رہا، وہ بھی ایسے حالات میں جب حکومت خود اپنی سرپرستی میں ان نام نہاد علما و صوفیوں کی عالمی سطح کی کانفرنسیں کراکر خوش کرنے کی کوشش کر رہی ہو۔

اس وقت حکومت کے کارندے، مدارس و مساجد کے علاوہ مسلمانوں کے پرسنل لا پر حملہ آور ہیں او رہمارے پرسنل لا بورڈ کے عمائدین کرام اپنا دائرہ کار وسیع کرنے میں پیش پیش ہیں یعنی پرسنل لا بچانے کے بجائے دستور اور سیکولرزم بچانے میں اپنی ساری توانائی صرف کر رہے ہیں۔ جب ایسی صورت حال کسی قوم کے علماء و اکابر حضرات کی بن جائے گی تو اس قوم کا اللہ ہی حافظ ہے۔ کتنی سچی بات ہے کہ اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے اور آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ ہماری نیتوں اور اعمال کے نتیجے میں ہی ہو رہا ہے۔ ہماری نگاہوں کے سامنے چند بڑے مدارس کے علاوہ چھوٹے چھوٹے مدارس کا سیلاب ہے۔ ان مدارس میں بچوں کے نام رقوم جمع کی جاتی ہیں اور بچوں کے مستقبل سے کھلواڑ کیا جاتا ہے۔ راقم کے سامنے کئی ایسے مدارس ہیں جہاں سوائے روپیہ بٹورنے کے کچھ نہیں ہوتا۔ اگر آپ نے انہیں ٹوکنے اور روکنے کی کوشش کی تو آپ دین کے دشمن یا مداخلت فی الدین کے مرتکب قرار دے دیے جائیں گے۔ اس صورت حال سے مسلم پرسنل لا کے ذمہ داران اور اداروں و تنظیموں کے ذمہ داران خوب واقف ہیں۔ اصلاح سماج کے رسائل اور تنظیمیں بھی بہت کچھ کرنے کا دعویٰ کرتی ہیں لیکن ان کا کام نہ ہمیں نظر آتا ہے اور نہ ان اداروں کو ہی یہ نام نہاد ادارے نظر آتے ہیں۔

یوں تو یہ مدارس ہر چھوٹے بڑے شہر میں، قصبات و دیہاتوں میں مقامی آبادی کی تعلیمی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے قائم کیے جاتے ہیں لیکن یہ المیہ ہی ہے کہ مدارس علاقائی ضرورت کو ذہن میں رکھتے ہوئے قائم کیے جاتے ہیں اور جس کے نتیجے میں ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں مدارس کا ایک لامتناہی سلسلہ بھی قائم ہے جہاں حفظ قرآن اور ناظرہ کی تعلیم دی جاتی ہے اور بعض مدارس میں درس حدیث کے انتظام ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان مدارس میں درس حدیث کا حق ادا نہیں کیا جاتا جس کے نتیجے میں ہی ان مدارس کے فارغ التحصیل طلبا صحیح معنوں میں عالم دین نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ شہر کی کسی ویران مسجد کو آباد کرتے ہیں یا پھر کسی دور افتادہ علاقے میں مدرسہ کے نام پر چندہ جمع کرنے لگتے ہیں۔ اس طرح چندہ کا دھندہ کرنے والوں کی ایک نسل تیار ہوجاتی ہے اور یہی لوگ کچھ اور آگے بڑھ کر عرب ملکوں سے خیرات و زکوٰۃ کی کثیر رقوم حاصل کرنے لگتے ہیں جس سے انہیں خاصی تقویت ملتی ہے۔

ہمارے خیال میں ان چھوٹے مدرسوں (دکانوں) پر اگر کنٹرول کرنا ہے تو علاقے کے لوگ ان کی طرف توجہ دیں اور انہیں اپنے علاقے کے بڑے مدرسوں سے الحاق کردیں، اس طرح ملت کی بڑی رقم جو دین کے نام پر بیجا صرف ہو رہی ہے صحیح جگہ پر خرچ ہوگی اور بچوں کی زندگیوں سے کھلواڑ ہونے کے بجائے ان کی تعلیم و تربیت سے اور باوقار دینی و عصری تعلیم سے بھی آراستہ ہوگی۔ ایسے مدارس قائم کریں جہاں دینی و عصری تعلیم کا انتظام ہو۔ دو دو جگہ بٹ کر بچوں کی تعلیم بھی متاثر ہو رہی ہے اور والدین پیسوں کے بوجھ تلے مرے جارہے ہیں۔ جدید طرز کے پرائیویٹ اسکولوں میں بچے کتابوں کے بوجھ سے ہانپ رہے ہیں تو ان کے ماں باپ ان کی فیس خصوصاً ڈونیشن کے نام پر ہلکان ہو رہے ہیں۔ یہ ایسا موقع ہے کہ اگر مسلمان اپنے اپنے علاقوں میں نیک نیتی سے ایسے مدرسے یا اسکول قائم کریں جس میں دین و دنیا دونوں کی تعلیم کا انتظام ہو تو نام نہاد اسکولوں اور مدرسوں سے بھی بڑی حد تک نجات مل جائے گی اور غیروں کی طرف سے ہر روز برسنے والے تیروں سے بھی۔ یہی نہیں بلکہ ان اسکولوں اور مدرسوں میں پڑھنے والے آپ کے بچے ایمان و عقیدے کے طور پر مسلمان بھی رہیں گے اور خدائی حکم ’اقراء‘ کے معنی و مفہوم کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی ہر ممکن کوشش بھی کریں گے۔ بصورت دیگر ہمارے بچے غیر مسلم اداروں میں تعلیم حاصل کریں گے اور وہ اپنے دین، اپنی تہذیب و تمدن سے ناآشنا ہوں گے اور ہاتھ جوڑنے، پاؤں چھونے جیسے آداب بھی سیکھیں گے اور اپنا ایمان و عقیدہ بھی بندے ماترم وغیرہ پڑھ کر کھودیں گے جیسا کہ دیکھا جارہا ہے کہ آج کل ہمارے بچے ان اسکولوں میں سے آدھے مسلمان اور آدھے ہندو بن کر نکل رہے ہیں او رہم سب یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی برداشت کر رہے ہیں۔

اللہ کے رسولؐ کا فرمان کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔ کتنا واضح ہے لیکن ہمارے کچھ علماء نے نہ معلوم کیوں اسے غیر واضح کردیا ہے۔ نہ اس حدیث میں تعلیم کے بارے میں عورت و مرد کی تفریق ہے اور نہ ہی دینی و عصری تعلیم کا فرق بیان کیا گیا ہے، بلاتفریق تعلیم سیدھی سیدھی بات کہی گئی ہے کہ ہر مسلمان مرد و عورت پر علم حاصل کرنا فرض ہے۔ تو ہم صرف دینی تعلیمی ادارے ہی کیوں قائم کرتے رہے؟

مضمون کی اوائل سطروں سے یہ بات بھی واضح ہوگئی ہے کہ اس وقت مسلمانوں میں دو طرح کی تعلیم مروج ہے۔ ایک دنیوی اور دوسری دینی اور دونوں کی جامعات الگ الگ ہیں۔ دنیوی جامعات میں جو تعلیم دی جاتی ہے وہ عصری ضرورتوں کے مطابق ہے لیکن ان میں دینی تعلیم کا کوئی انتظام نہیں ہوتا جس کی وجہ سے مسلم بچوں کی کثیر تعداد دینی علوم سے بے بہرہ رہ جاتی ہے۔ اس کے برعکس دینی جامعات ہیں جن کے نصاب تعلیم میں عصری ضرورتوں کا کوئی لحاظ نہیں رکھا گیا ہے، ان جامعات کے فارغین دنیوی علوم سے بالکل ہی ناواقف ہوتے ہیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ جب دینی طلبا عملی زندگی میں خود کو ناکام محسوس کرتے ہیں تو ایسے راستے اختیار کرلیتے ہیں جو دینی شعار کے خلاف ہوتے ہیں۔ کھلی بات ہے کہ تعلیم کی یہ تقسیم غیر حقیقت پسندانہ ہے اور اس نے مسلمانوں کو بے اندازہ نقصان پہنچایا ہے۔

تعلیم کی اس دوری کو ختم کرنا بہت ضروری ہے۔ ایک ہی طرح کی جامعات ہوں جن میں بقدر ضرورت دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم دی جائے۔ اعلیٰ مذہبی تعلیم کے لیے علاحدہ سے ایک یا دو دینی درس گاہوں کا انتظام ہو جہاں مسلمانوں کی دینی ضروریات کے مطابق بلندپایہ عالم تیار کیے جائیں۔

یوں تو یہ بہت بڑا کام ہے لیکن نیک نیتی ہو اور عزم و استقلال ہو تو کوئی بڑا کام نہیں۔ ہمارے یہاں کئی بڑی جماعتیں ہیں جن میں ایک بڑی جماعت اسلامی ہند ہے جو بڑی حد تک اس طرح کا کام انجام بھی دے رہی ہے، اس کے کئی ادارے ایسے ہیں جہاں دینی و عصری تعلیم کا کسی حد تک انتظام ہے۔ اگر وہ اس بڑے کام کا بیڑہ اٹھالے تو یہ ایک بہت بڑی قومی ملی اور دینی خدمت بھی ہوگی اور امت مسلمہ ہمیشہ اس کی احسان مند رہے گی۔

جیسا کہ پہلے عرض کرچکے ہیں کہ تعلیمی کام ایک مسلسل عمل اور سعی پیہم کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ ایک نسل سے دوسری نسل میں تہذیبی ورثے کا کام کرتا ہے۔ اس لیے اسے قائم و دائم رکھنے کے لیے پورے عزم و استقلال سے اس فریضہ کو انجام دینا ہوگا۔ یاد رکھیے! ہمارے تعلیمی، تہذینی اور دینی ورثے کو نہ صرف چھیننے کی کوششیں ہو رہی ہیں بلکہ اسے مکمل طو رپر تباہ کردینے کی عالمی طور پر سازشیں بھی ہو رہی ہیں۔ ایسے میں ہم سب کی ذمہ داری بنتی ہے اسے ہمیں سچے دل سے سوچنا ہوگا۔


۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 546