donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Jameel Anjum
Title : انصاف کے دہرے معیار کا شکار ہندست
   Insaf Ke Dohre Miyar Ka Shikar Hindustani Musalman

انصاف کے دہرے معیار کا شکار ہندستانی مسلمان
 
جمیل انجم  
 
آ ، عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گل پکار میں چلاؤں ہائے دل
 
ایک مایوس شاعر کا یہ شعر پست حو صلگی اور مایوسی و ناامیدی کا آئینہ دار ہے۔ جہاں چیخنے چلانے اور آہ وزاری کرنے کو زندگی کا حاصل بتایا گیا ہے کچھ یہی حال ان دِنوں ہندستانی مسلمانوں کا ہے جہاں مسلمانوں کومسلمان ہونے کی سزا ایک تواتر کے ساتھ دی جارہی ہے اور مسلمان بیچارہ ہر ظلم و ستم سہہ کر صرف آہ وزاری پرہی اکتفا کررہا ہے اورایک عجیب بے بسی اور ناچار ی کی کیفیت سے خود کو دو چار محسوس کررہاہے۔ فرقہ پرست طاقتےں، جو آزادی کے بعد سے آج تک حکمرانی کے مزے لوٹ رہی ہیں اور مسلمانوں کے قیمتی ووٹوں سے ایوان اقتدار تک پہنچتی رہی ہیں ایک تسلسل اور منصوبہ بند طریقے سے فرقہ وارانہ فسادات کے ذریعہ جنکی تعداد ہزاروں تک پہنچتی ہے، اس قوم کو تباہ وبرباد کرتی رہیں مگر آج تک کسی ایک فسادی کو بھی سزا نہیں ملی جیسے کہ مسلمانوں کو مارنا کاٹنا ان کی عورتوں کو بے آبرو کرناان کے مال و اسباب کو لوٹنا یہ سب راج دھرم کی باتےں ہیں جنہیں فرقہ پرست بحسن وخوبی نباہ رہے ہیں۔ ابھی حال ہی میں ممبئی دھماکوں کے مجرموں کو موت کی سزاسنائی گئی لیکن انصاف کرنے والے منصفوں سے کوئی پوچھے کہ اسی ممبئی میں شیو سینکوں اور پولس نے مشترکہ طورپر ڈھائی ہزار مسلمانوں کا قتل عام کیا ان کی املاک کو لوٹا اور انہیں سڑکوں پر لاکھڑا کیا۔ شری کرشنا کمیشن کی رپورٹ کو سرد خانے میں ڈال دیاگیا چونکہ ممبئی میں شیوسینک ہر قانون سے بالاتر ہیںلہٰذا ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ انصاف کا یہ دوہرا پیمانہ کیا انصاف کا خون نہیں ؟ اس ملک میں چند کروڑ سکھ تو اپنے اوپر کئے گئے ظلم کو برداشت نہیں کرسکتے اور اندرا گاندھی کے قتل کے بعد رونما ہونے والے سکھ مخالف فسادات پر اپنا انصاف لے سکتے ہیں اور حکومت کو مجبور کرسکتے ہیں کہ وہ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچائے مگر مسلمان اُلٹے ظلم کا شکار ہونے کے باوجود ناقابل ضمانت دفعات کے تحت گرفتار کرلئے جاتے ہیں جبکہ اس ملک میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً تےس کروڑ ہے۔ اسکو کہتے ہیں مرے کو ماریں شاہ مدار۔ 
 
فرقہ پرست قوتوں نے اب مسلمانوں کوتباہ کرنے کاایک نیا اور انتہائی خطرناک منصوبہ بنایا ہے اور اسکا بلیو پرنٹ کانگریس کے اعلیٰ دماغوں کا تےار کردہ ہے۔ وہ یہ ہے کہ پڑھے لکھے اوراعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمانوں کودہشت گردی کے جرم میں گرفتار کرلو، اس الزام میں اب تک جتنے لوگ گرفتار ہوئے ہیں ان میں 99فیصد مسلمان اور بیشتر پڑھے لکھے ہیں۔ ان میں ہر ایک کی کہانی درد ناک ہے اورایک دوسرے سے ملتی جلتی ہے۔ ایک بات نوٹ کرنے کے لائق ہے کہ جن مسلمانوں کی گرفتاریاں ہوئیں وہ مذہبی خیالات کے تھے اور مذہبی خیالات کے لوگوں کودہشت گرد ثابت کرنا نہایت آسان ہوتاہے کیونکہ ہندستانی بیوریو کریسی کے مطابق اکثر مذہبی خیالات کے لوگ جومسلمان ہیں وہ دہشت گرد ہیں۔ 
 
ملے مجھ کو غم سے فرصت تو سناؤں وہ فسانہ
کہ ٹپک پڑے نظر سے مئے حشرتِ شبانہ
 
حکومت کا رویہ ہندستان میں مسلمانوں کے تعلق سے یہی رہا ہے جو اسرائیل کا فلسطینیوں کے ساتھ ہے۔ آپ غور کریں۔ اسرائیل کے مہلک ہتھیاروں کامقابلہ مظلوم فلسطینی مسلمان اینٹ اورپتھروں سے کررہے ہیں اور ہندستان کی خفیہ ایجنسیوں کا مقابلہ کرنے کا ہندستانی مسلمانوں کے پاس کوئی وسیلہ اور ذ ریعہ نہیں ہے۔ حد تو یہ ہے کہ بعض شہروں میں انہیں اپنا مقدمہ لڑنے اور وکیل صفائی کو کھڑے کرنے کی بھی اجازت نہیں دی جاتی۔ کیا انصاف کا تقاضہ یہی ہے کہ ملزم کو اپنی صفائی میں بھی کچھ کہنے کا موقع نہ دیا جائے ؟ کیا یہ ظلم نہیں ہے؟ اور کیا یہ دستور کے منافی نہیں ہے؟ 
 
اس حقیقت سے ذرہ برابر انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دہشت گردی کے بھی اس ملک میں دوپیمانے ہیں، دہشت گرد ی کی اس سیاست پر سونیا جی بھی خاموش ہیں۔ اورمن موہن سنگھ نے چپ کے تالے اپنے لبوں پر ڈال رکھے ہیں۔ پسِ پردہ اس ملک میںاب قانون کا دوہرا پیمانہ اپنا کام کررہا ہے جسکے تحت بے قصور مسلمان سزا بھگتتے رہیں گے اوربھگوا دہشت گرد جن پر جرم ثابت ہوچکاہے انعام واکرام سے نوازے جاتے رہیں گے۔ اس کی سب سے روشن مثال سمجھوتہ ایکسپریس اورمکہ مسجد وغیرہ بم دھماکوں کے ذمہ داروں کوتربیت دینے والا کرنل سری کانت پر وہت ہے جسے ہر مہینے سرکار کی طرف سے تنخواہ دی جارہی ہے اس کے باوجود کہ وہ ایک دہشت گرد ہے اور جیل میں ہے اور فوج کی ڈیوٹی سے بھی الگ ہے دوسری طرف ایک بے قصور مسلمان اعجاز مرزا کو گرفتار کرلیا جاتا ہے اورعدالت اسے بے قصور مان کر رہا بھی کردیتی ہے کیونکہ تفتےش ایجنسی کے پاس اسکے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے اس کے باوجود اسے ملازمت سے برخاست کردیا جاتاہے۔ یہی ہے حکومت کی نظر میں انصاف کامعیار۔ لہٰذا اب اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہی پڑے گا کہ ہندستان میں مسلمان ہونا اب ایک ناقابل معافی جرم بنکر رہ گیا ہے۔ اور کہیں بھی کبھی بھی آپکو دہشت گرد بتا کر گرفتار کیاجاسکتا ہے۔ 
 
ترکوں کا زوال محض اس بات پرہوا تھا کہ ان پر جمود طاری ہوگیا تھا اور انہوں نے قرآن مجید کی یہ آےت بالکل فراموش کردی تھی۔ ترجمہ : ”مسلمانوں ! جہاں تک تمہارے بس میں ہے قوت پیداکرکے دور گھوڑے تےار رکھ کر دشمنوں کے مقابلے کےلئے اپناساز وسامان مہیا کئے رہو کہ اس طرح مستعد رہکر تم اللہ کے اور اپنے دشمنوں پر اپنی دھاک بٹھائے رکھو گے نیز ان لوگوں کے سوا اور وں پر بھی جن کی تمہیں خبر نہیں۔“ (الانفال۔60)
 
آج ہندستانی مسلمانوں پر بھی جمود طاری ہے دشمن وار پہ وار کئے جارہا ہے مگر اپنے دفاع کی کوئی فکر نہیں۔ جو لیڈر یاسیاسی قوتےں انہیں برباد کرنے پر تلی ہیں مسلمان انہیں ہی اپنے ووٹوں کے ذریعہ حسنہ اقتدار پر بیٹھا رہے ہیں چاہے وہ اتر پردیش میںسماج وادی پارٹی ہو یا ملک کی مختلف ریاستوں میں اقتدار کامزہ ٹوٹتی کانگریس۔ کب جاگے گا ہندستانی مسلمان اور کب اپنے دشمنوں کے خلاف صف آرا ہوگا۔ ؟ یا پھر ہندی مسلمانوں کا حال وہی ہوگا جو اسپین کے مسلمانوں کا ہوا تھا؟ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کیا تاریخ خود کو دوہرانے کا انتظار کررہی ہے؟
 
بشکریہ: مشتاق دربھنگوی
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 751