donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Jameel Anjum
Title :
   Uth Ke Ab Bazme Jahan Ka Aur Hi Andaz Hai

 

اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے


جـمـیـل انجـم کلکتہ

(Mob:9831614027) 


    اب جبکہ2014ء کے پارلیمانی انتخابات قریب ہوتے جا رہے ہیں۔ فطری طورپر نام نہاد سیکولر پارٹیوں کو مسلمانوں کی یاد شدت سے ستانی لگی ہے۔ مسلمانوں کی زبوں حالی ان کے ساتھ کی گئی مسلسل ناانصافیاں اور انہیں مختلف ذرائع سے تباہ و برباد کرنے کی ہرممکن کوششوں پر مگر مچھ کے آنسو ساون بھادوں کے موسم کی طرح برسنے شروع ہوگئے ہیں۔ اس تناظر میں جمعیۃ علماء ہند ( محمود مدنی) کی شاخ نے پے در پے دو کانفرنسوں کا انعقاد کیا جو کہ دہلی اور کانپور میں منعقد ہوا۔ اس کانفرنس کی خصوصیت یہ تھی کہ ہندستان کی سیکولر جماعتوں پر تو خوب نکتہ چینی کی گئی اورمسلمانوں کے تعلق سے ان کی منافقانہ پالیسیوں پر سوالات اٹھائے گئے۔ یہاں تک کہ سیکولر لیڈروں اور حکومتوں کو بدنام زمانہ مودی سے ’’بد تر‘‘ قرار دیا گیا۔ نئی دہلی کے منعقدہ اجلاس میں اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی اور انہوں نے مسلمانوں کے بڑے مجمع میں یہ یقین دہانی کرائی کہ ان کی حکومت مسلمانوں کے تئیں اپنے سابقہ موقف پر قائم ہے نیز وہ راجندر سچر رپورٹ اور رنگاناتھن رپورٹ کی سفارشات پر عمل در آمد کو یقینی بنائے گی اور ریاست میں مبینہ مسلم دہشت گردوں کو جو بے قصور ہیں ان کی رہائی کیلئے قانونی پہلوئوں کا جائزہ لے گی۔ نوجوان وزیر اعلیٰ نے برملا اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ مسلمانوں کے ساتھ حق و انصاف کا برتائو نہیں کیاگیا۔

     وزیر اعلیٰ کی ان تمام تر یقین دہانیوں کے باوجود جمعیۃ علماء کے کانپور اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے مولانا محمود مدنی نے اکھلیش یادو کی نیت پر حملہ کرتے ہوئے انہیں خوب کھری کھری سنائیں اور انہیں یاد دلایا کہ سماج وادی پارٹی نے مسلمانوں کو اٹھارہ فیصد ریزرویشن دینے کا اپنے انتخابی منشور میں وعدہ کیوں کیاتھا؟ اکھلیش یادو حکومت کی جانب سے بے قصور مبینہ مسلم دہشت گردوں کی رہائی کی بابت اب تک کچھ نہ کئے جانے نیز انسداد فرقہ وارانہ فساد بل اسمبلی میں نہ پیش کئے جانے پر حکومت کی مسلم دوستی پر سوالیہ نشان لگائے۔ اس حقیقت کا اعتراف تو دونوں باپ بیٹے (اکھلیش اور ملائم) مختلف مواقع اور مختلف پلیٹ فارموں سے متعدد بار کرتے رہے ہیں کہ سماج وادی پارٹی کی شاندار کامیابی میں مسلمانوں کے ووٹوں نے نتیجہ خیز کردار ادا کیا ہے۔ تعلیمی اداروں، اوقاف، اردو اور ریزرویشن جیسے موضوعات کے علاوہ اکثر موضوع پر بھی مسلمانوں کو بہلایاگیا کہ دہشت گردی کے الزام میں جن مسلم نوجوانوں کو غلط طریقے سے گرفتارکیا گیا ہے ان کو فوراً رہا کرنے کی کارروائی شروع کی جائے گی لیکن گرفتار شدہ غلط اور جھوٹے الزامات کے تحت گرفتار لوگوں کی رہائی تو دور رہی، ریاست میں پے در پے پھوٹ پڑنے والے فرقہ وارانہ فسادات کے تحت برباد شدہ مسلمانوں کی گرفتاریوں کا نیا سلسلہ شروع ہوگیا۔ دس ماہی حکومت میں دس سے زیادہ بڑے اور خوفناک قسم کے فرقہ وارانہ فسادات واقع ہوچکے ہیں۔ 

    افسوسناک بات تو یہ ہے کہ ا ن تمام فسادات میں حکومت کا رویہ تو بالکل بے حسی کا رہا ساتھ ہی مقامی پولس اور انتظامیہ نے روایتی مسلم دشمنی کا مظاہرہ کیا۔ ان فسادات میں متھرا کے کوسی کلاں کا فساد بیحد سنگین نوعیت کا تھا جہاں مسلمانوں کے پورے محلے کو چاروں طرف سے گھیر کر کئی دنوں تک فسادیوں نے پولس کی موجودگی اور حمایت سے طوفان برپا کررکھا تھا۔ مسلمانوں کو جانی و مالی طورپر تباہ و برباد کرنے کے بعد بہت ہی منصوبہ بند طریقے سے چن چن کر مسلمانوں کو گرفتار کرنے کی دوبارہ کارروائی شروع ہوئی اور حد تو یہ ہے کہ انہیں گرفتار کرنے کے بعد قومی سلامتی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیاگیا۔ واضح ہوکہ این ایس اے کے تحت جن مسلمانوں کو فساد کے پانچ ماہ بعد گرفتارکیاگیا ہے ان میں ایک مسلم نوجوان انجینئرخالد علی بھی ہیں۔ ظاہر ہے ان کا بھی قصور یہی ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔ مسلم نوجوانوں کی رہائی کی یقین دہانی کرانے والی اکھلیش حکومت کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں ہے کہ انجینئر خالد علی گزشتہ10دسمبر 2012ء سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے کیوں ہے؟ اس کا قصور کیا ہے ؟ اور اسے قومی سلامتی ایکٹ کے تحت کیوں گرفتار کیاگیا ہے؟ یہی ہے نام نہاد سیکولر پارٹیوں کا اصل اور مکروہ چہرہ، جس کا خمیازہ ہر دور میں مسلمانوں کو ہی بھگتنا پڑا ہے۔

    مولانا محمود مدنی نے کل ہند کانگریس کی صدر اور یوپی اے حکومت کی چیئرپرسن سونیا گاندھی پر بھی نشانہ سادھا اور انہیں یاد دلایا کہ آزادی کے بعد سے آج تک مسلمانوں کے ساتھ سیکولرزم کی آڑ میں تیس ہزار سے زائد فرقہ وارانہ فسادات کروائے گئے لیکن کسی ایک فسادی کو بھی آج تک سزا نہیں ملی اورنہ ہی کسی کمیشن کی رپورٹ پر عمل درآمد کیاگیا۔جمعیۃ العلماء کے اجلاس کا لب و لباب سیکولر لیڈروں اور سیکولر حکومتوں کی نفی کرتا رہا، لیکن حیرت انگیز طورپر اس اجلاس میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے خلاف کچھ بھی نہیں کہاگیا۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ان پارٹیوں کی مسلم دشمنی تو اظہر من الشمس ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی بھگوا بریگیڈ کا بس چلے تو وہ اس ملک سے مسلمانوں کانام و نشان ہی مٹا کر رکھ دے لیکن اب تو سیکولر پارٹیاں بھی انہیں خطوط پر چل رہی ہیں اور دلی کے تحت پر براجمان ہونے کیلئے آر ایس ایس کی پالیسی بھی اپنانے کو تیار ہیں۔ مسلمانوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ہندوتو کی جانب قدم بڑھانے کو بھی ذہنی طورپر خود کو تیار کرچکی ہیں۔ کانگریس کی مثال سامنے ہے جو خود کو سیکولر زم کا سب سے بڑا علمبردار تصور کرتی ہے مگر مسلمانوں کو ذہنی طورپر احساس کمتری میں مبتلا کرنے کیلئے اسرائیل کی تیار کردہ پالیسیوں پر عمل پیرا ہے۔ یہ تو طے ہے کہ اس ملک سے مسلمانوں کا وجود مٹایا نہیں جا سکتا مگر انہیں تیسرے اور چوتھے درجے کا شہری تو بنایا جا سکتا ہے۔ انہیں نفسیاتی خوف میں مبتلا تو کیاجا سکتا ہے۔ ملک کی خفیہ ایجنسیوں کے ذریعہ ان کا جینا تو دوبھر کیاجا سکتا ہے۔ پولس اور انتظامیہ دونوں مل کر ان کی ناک میں دم تو کرہی سکتی ہے۔ طاقت کا توازن تو حکومتوں اور انتظامیہ کے پاس ہی ہوا کرتا ہے۔ اس کے ذریعہ کسی بھی قوم یا فرقے کو تباہی و بربادی کے غار میں تو دھکیلا جا ہی سکتا ہے۔ الیکٹرونک میڈیا حکومت کی شہ پاکر الگ مسلمانوں کی جان کا دشمن بنا ہوا ہے اور انہیں دہشت گرد ثابت کرنے کی ناپاک کوششوں پر منصوبہ بند طریقے سے عمل پیرا ہے۔ علاقائی سیاسی پارٹیاں سیکولرزم کا نقاب پہن کر مسلمانوں کے خلاف لام بند ہوگئی ہیں۔ دور دور تک مسلمانوں کاکوئی ایسا پلیٹ فارم نہیں ہے جہاں سے ظلم و ناانصافی کے خلاف آواز بلند کی جا سکے۔ ہندی مسلمانوں کیلئے موجودہ وقت اور حالات نہایت پر آشوب ہیں اور دعوت فکر دے رہے ہیں۔ ہر گام پر خطرہ منڈلا رہا ہے اور ہر مقام پر رہزن گھات لگائے بیٹھے ہیں۔ چاروں طرف سے نشانے سادھے جا رہے ہیں اور ٹارگیٹ پر مسلمان ہیں ایسے میں بس اللہ ہی حافظ و ناصر ہے۔

*********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 630