donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : M Wadood Sajid
Title : اصل سوال یہ ہے
   Asal Sawal Yeh Hai

 

اصل سوال یہ ہے!
 
ایم ودود ساجد
 
ایک ہندو دانشورنے مجھے ایک سوال بھیجا کہ اب ہندوستانی مسلمان کانگریس جنرل سیکریٹری دگوجے سنگھ اوروزیر داخلہ سشیل کمار شنڈے میں سے کس کو اپنا قائد مانیں گے؟میرے لئے فوری جواب دینا مشکل تھا لہذا میں نے اس وقت خاموشی اختیار کرلی۔میں نے غور کیا کہ آخر ایسا غیرموزوں اورغیر متعلق سوال کیوں کیا گیا؟راجستھان کی راجدھانی جے پور میں منعقد کانگریس کے اجلاس میں وزیر داخلہ سشیل کمار شنڈے نے کوئی نئی خبر تونہیں دی ہے اور نہ ہی انہوں نے کوئی نیا انکشاف کیا ہے!مجموعی طورپرمسلم تنظیموں اور قائدین نے خلاف معمول ‘خدا کا شکر ہے کہ وزیر داخلہ کے بیان پر متوازن رویہ اختیار کیا۔ ایسے بیان پر مسلم تنظیموں اور قائدین نے بڑی مدت کے بعد ایسا رد عمل ظاہر کیاہے۔گو کہ بعض افراد نے اسے شنڈے کی (نعوذ باللہ )حق بیانی بھی قرار دیا۔ریکارڈ کیلئے سشیل کمار شنڈے کے بیان کی تلخیص کو دوہرانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔انہوں نے کہا تھا کہ’ بی جے پی اور آر ایس ایس ‘ہندودہشت گردی کے تربیتی کیمپ چلا رہے ہیں‘۔اگلے روز داخلہ سیکریٹری نے نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے)کے حوالہ سے ’ہندو دہشت گردی‘ میں ملوث وہ دس نام بھی گنوائے جن کو آدھے سے زیادہ ملک پہلے سے ہی جانتا ہے اور جن میں سے بیشترپر مقدمہ چل رہا ہے۔اس اعتبار سے یہ کوئی نئی خبر اور نیا انکشاف نہیں تھا۔لیکن اس بیان کے بعد بی جے پی ‘آر ایس ایس ‘این ڈی اے کے اتحادیوں اور بعض دوسری جماعتوں نے جو ردعمل ظاہر کیا ہے وہ غیر معمولی ہے۔بی جے پی نے تو پورے ملک میں اس کے خلاف مظاہرے کئے ہیں ۔بہوجن سماج پارٹی اور جنتا دل (متحدہ)نے اس بیان پر سخت اعتراض کیاہے۔بین الاقوامی سطح پر مختلف ہندوتنظیموں نے بھی شدیدردعمل ظاہر کیا ہے۔جبکہ مرکزی وزیر خارجہ سلمان خورشید نے کہا ہے کہ وزیر داخلہ نے جو کچھ کہا ہے وہ درست ہے اور یہ کہ ان کا الزام ’ایجنسیوں‘کی تحقیقات پر مبنی ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے اور سابق وزیر داخلہ(پی چدمبرم) بھی اس طرح کا بیان دے چکے ہیں۔ہندو دہشت گردی کی اصطلاح پر انہوں نے یہ بھی کہا کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔اس موضوع پر پچھلے چند برسوں سے زوروشور کے ساتھ بیانات دینے کیلئے مشہور کانگریس کے سینئر لیڈر دگوجے سنگھ نے بھی اس الزام کی تائید کی ہے۔اب سوال یہ ہے کہ وزیر داخلہ کویہ بیان دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی اور اس سے حاصل کیا ہوا؟اس کا جواب کسی حد تک اس سوال کے جواب سے جڑا ہوا ہے جو اس مضمون کی پہلی سطر میں مذکور ہے۔کانگریس کا یہ اجلاس دراصل ۲۰۱۴کے عام انتخابات کے حوالہ سے زیادہ اہم تھا۔اور شاید یہ اسی کی تیاری کا آغاز بھی تھا۔کانگریس کے جواں سال قائد راہل گاندھی کو کانگریس کا نائب صدر بنانااسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔یہ اس امر کا واضح اشارہ ہے کہ اگلا الیکشن انہی کی قیادت میں لڑا جائے گا اور کانگریس کے مجوزہ وزیر اعظم وہی ہوں گے۔لیکن دوسری طرف ایک حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ہندوستان میں سیاسی جماعتوں سے اور خاص طورپر کانگریس سے اگر دو بڑی طاقتیں ناراض ہیں تو وہ اس ملک کے نوجوان اور اس ملک کے مسلمان ہیں۔یہ دونوں اکائیاں اپنے مسائل کے سلسلہ میں حیران وپریشان اور حل کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔نوجوانوں کا تناسب پوری دنیا میں بڑھ رہا ہے لیکن جن ترقی پزیر ممالک میں نوجوانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے ان میں ہندوستان سرفہرست ہے۔۶۶فیصد شہریوں کی عمریں ۳۵سال سے نیچے ہیں جبکہ اگلی دہائی میں ہر سال آٹھ ملین کی افرادی قوت کا اضافہ شروع ہوجائے گا۔بے روزگاری کی شرح نوعمر مردوں میں ۷ء۹ اور عورتوں میں ۷ء۱۸فیصد ہے۔یہ تعدادبرسر روزگار بالغ افراد سے تین گنا ہے۔ایسے میں راہل گاندھی کو کانگریس کا نائب صدر بناکر مستقبل کے وزیر اعظم کے طورپرپیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ہوسکتا ہے کہ ملک گیر سطح پر نوجوان ‘ کانگریس کی طرف راغب ہوجائیں لیکن یو پی میں یہ تجربہ ناکام رہا ہے اور راہل کے مقابلہ میں لوگوں نے اکھلیش کوزیادہ اہمیت دی ہے۔یہ الگ بحث ہے کہ خود اکھلیش بھی اب تک کی کارکردگی سے نوجوانوں اورمسلم طبقات کو مطمئن نہیں کرسکے ہیں۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مسلمان سماجوادی پارٹی سے بدظن ہوکر کانگریس کے سارے ’گناہ‘معاف کردیں گے۔مجموعی طورپرکانگریس کی دوسری بڑی طاقت مسلمان ہیں۔مسلم ووٹروں کی بڑی تعدادفرقہ پرستوں کو اقتدار سے دور رکھنے کی اپنی غیراعلانیہ ذمہ داری کو ادا کرنے کی خاطر سیکولر طاقتوں اور خاص طورپرکانگریس کو ووٹ دیتی رہی ہے۔لیکن اس مرتبہ مسلم نوجوانوں کودہشت گردی کے فرضی الزامات میں دھڑا دھڑ ماخوذ کئے جانے کا معاملہ کانگریس کیلئے سوہان روح بنا ہوا ہے۔ کیا آسام کا مسلمان کانگریس سے مطمئن ہے؟کیا یوپی اور بہار کے مسلمان اس کی ایجنسیوں سے محفوظ ہیں؟کیا مہاراشٹر‘آندھرا پردیش ‘کرناٹک اور راجستھان کے مسلمان اس سے خوش ہیں؟حد تو یہ ہے کہ جن ریاستوں میں کانگریس برسر اقتدار نہیں ہے وہاں بھی مسلمان اس کے قریب نہیںآرہے ہیں۔پھر مسلمانوں کو اپنے قریب لانے کیلئے مرکزی سطح پر کانگریس کوئی موثرعملی اقدام بھی نہیں کر رہی ہے۔مجھے یہ لکھتے ہوئے دکھ ہوتا ہے کہ مسلم قائدین (بعض استثنا کے ساتھ)ذاتی مفادات کی خاطر اجتماعی مفادات کا سودا کرتے رہے ہیں۔انہوں نے نہ کوئی کانشی رام پیدا کیا اور نہ کوئی ملایم سنگھ یادو‘انہوں نے جنوبی ہندوستان کی طرح کوئی ٹوٹا پھوٹا مسلم قائد بھی نہ بنایا کہ جو‘ ان کے ووٹوں کی طاقت پر مرکزی اقتدار میں ایک آدھ وزارت ہی حاصل کرلے۔ لیکن اس سب کے باوجود اس مرتبہ یہ واضح ہے کہ مسلمان اور خاص طورپر مسلم نوجوان ان سیاسی طبقات سے نالاں اور بددل ہیں جن کے اونچے محلوں کی بنیادوں میں ہمارے اسلاف کا خون جگر خشک ہوا ہے۔اور اس کا صلہ یہ ہے کہ یہ جاننے کے باوجود کہ حب الوطنی ہمارے ایمان کا جزولاینفک ہے ‘ ہمارے ہاتھ پاؤں جکڑے جارہے ہیں۔ہندوستان کی جیلوں میں حقوق انسانی کے علم بردار‘جن برادران وطن نے سروے کیا ہے ہم انہیں سلام کرتے ہیں۔انہوں نے بتایا ہے کہ مسلمان اپنی آبادی کے تناسب سے کہیں زیادہ جیلوں میں ہیں۔درجنوں واقعات ایسے ہیں کہ جن میں دہشت گردی کے الزامات میں برسوں سے قید مسلم نوجوان اپنی قیمتی زندگیاں تباہ ہوجانے کے بعد عدالتوں سے ’باعزت ‘ رہا ہوگئے ہیں۔کئی بڑے معاملات تو ایسے ہیں کہ جن میں ’دوسروں‘کی شمولیت ثابت ہوجانے کے باوجود مسلم نوجوانوں کو رہائی نصیب نہیں ہورہی ہے۔ تو شنڈے صاحب! اب ایک سوال آپ سے ہے کہ اگر آپ کے پاس پختہ شواہد موجود ہیں تو آپ نے کارروائی کیا کی؟اور جو بے قصور لوگ جیلوں میں سڑ رہے ہیں ان کی رہائی کیلئے آپ نے کیا قدم اٹھایا؟آپ کو یاد ہوگا کہ بی جے پی کے دوراقتدار میں اور خود کانگریس کے وزیر اعظم نرسمہاراؤ کے دور میں بھی دینی مدارس کو دہشت گردی کے اڈے بتایا گیا تھا۔فرقہ پرستوں کے اس بے ہودہ الزام کو درست مانتے ہوئے ایجنسیوں نے دھڑا دھڑ کئی بڑے مدارس پر چھاپے بھی مارے تھے۔ایک عرصہ تک مدارس میں خوف ودہشت کا ماحول بناکر رکھا گیا تھا۔تو کیا آپ نے بھی آر ایس ایس اور بی جے پی کے دہشت گردی کے اڈوں کی پختہ اطلاع ملنے کے بعد ان پر چھاپے ڈلوائے ہیں؟آپ اگر یہ سمجھتے ہوں کہ مسلمان اس الزام کو دوہرانے سے خوش ہوجائے گا کہ’ فرقہ پرست جماعتیں ہندو دہشت گردی کے تربیتی کیمپ چلارہی ہیں‘تو یہ آپ کی خام خیالی ہے۔ہم نے ہمیشہ کہا ہے کہ دہشت گردی کو مذہب سے جوڑ کر نہ دیکھئے۔مگر ہماری اس فریاد کو کبھی نہیں سناگیا۔آج تک اسلامی دہشت گردی کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔اس پر نہ کبھی سلمان خورشید کو غصہ آیا اور نہ مایا وتی کو۔لیکن آج سب کہہ رہے ہیں کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتااور یہ کہ اس الزام سے ہندو بہت ناراض ہیں۔ہمارے غصہ اور ناراضگی بلکہ ہماری بے بسی اور بے کسی کی فکر نہ کسی راہل اور سونیا کو ہے اور نہ کسی شنڈے اور مایا کو۔اگر فکر ہے تو ہمارے ووٹوں کی ہے۔وزیر داخلہ کا یہ انکشاف مسلم ووٹوں کے اس غیرفطری محل پر قبضہ کرنے کیلئے تھا جو اتنی محنت کے بعد دگوجے سنگھ نے آر ایس ایس اور بی جے پی کو گالیاں دے دے کر تعمیرکیا تھا۔لیکن یہ مت بھولئے کہ غیر فطری بنیادوں پر کھڑے کئے جانے
والے محلوں کو آخر کار گرنا ہی ہے۔ 
*******************
Comments


Login

You are Visitor Number : 795