donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : M Wadood Sajid
Title : جا ہم نے تجھے معاف کیا
   Ja Hamne Tujhe Maaf Kiya

جا ہم نے تجھے معاف کیا
 
ایم ودود ساجد
 
میں نے اپنی تین دہائیوں پر محیط صحافتی زندگی میں اس منظم پیمانے پرانصاف کاقتل پہلے نہ دیکھااور نہ سنا۔لہذا اس ہفتہ دوران سفر جس موضوع پرمیں نے تیاری کی تھی اس کو چھوڑکرزیرنظر موضوع پر بہ عجلت تمام یہ سطور لکھنی پڑ رہی ہیں۔اس موضوع کا جو سب سے افسوس ناک پہلو ہے وہ یہ ہے کہ مظلوموں کو انصاف بانٹنے والی عدالت خودکٹہرے میں کھڑی نظر آتی ہے۔گوکہ اس ایک عدالت کا فیصلہ حرف آخر نہیں ہے اور اس سے اوپر بھی عدالتیں موجود ہیں تاہم عدالت کی قابل احترام کرسی پر بیٹھ کر جس ’شخص‘نے ہندوستانی آئین کے زہریلے دشمن کو تمام الزامات سے پاک کردیا اس نے انصاف کا بھرم رکھنے والی تمام دیواریں منہدم کرڈالیں۔
 
مارچ 2009میں انتخابی مہم کے دوران ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے پیلی بھیت کے مختلف حلقوں میں مینکا اور سنجے گاندھی کے سپوت اور سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کے پوتے ورون گاندھی نے کھلے طورپر مسلمانوں کو دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ورون ہندو کی طرف اٹھنے والے ہاتھ کو کاٹ ڈالے گا‘۔انہوں نے ہندوؤں کو للکارتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہندؤ ایک ہوجاؤ اور پیلی بھیت کو پاکستان بننے سے بچاؤ‘۔انہوں نے اپنے مقابل مسلم امیدواروں کو’کٹوا‘ اسامہ بن لادن اور اس کی اولاد قرار دیا تھا۔کٹوا ورون گاندھی جیسے بدزبان افراد کے خیال میں ایک گالی ہے جو ختنہ کرانے والوں کے لئے دی جاتی ہے۔ہندوستان میں ختنہ مسلمان ہی کراتے ہیں۔ورون نے جو کچھ کہاتھابہت سے حلقوں کوگاندھی خاندان کا فرد ہونے کے ناطے ان سے اس کی توقع نہیں تھی۔لیکن میرے لئے اس میں حیرت اور تعجب کی کوئی بات نہیں تھی۔یہ تو ان کے خمیر میں پڑا ہوا ہے۔اوپر سے ان کا تعلق اس پارٹی سے ہے جس کی بنیاد میں ہی خرابی کی صورت پوشیدہ ہے۔ان کے والدکانگریس میں رہ کر مسلمانوں اجاڑکر خوش ہوتے تھے اوران کی والدہ ایک عرصہ سے بی جے پی کی کفش برداری کررہی ہیں اور مویشی پالنے والے مسلمانوں کے خلاف جارحانہ مہم چلاتی رہی ہیں۔
 
ورون کی بد زبانی پرالیکشن کمیشن آف انڈیا نے سخت موقف اختیار کرکے بی جے پی جیسی جماعت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیاتھا۔ان کے خلاف تین معاملات درج کرائے گئے۔یوپی میں مایا وتی حکومت نے ان پر نیشنل سیکورٹی ایکٹ بھی لگادیا تھا۔فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کے الزامات کے تحت ورون کو ۲۰دن جیل میں بھی رہنا پڑا۔اس دوران پولس نے معاملہ کی تحقیقات بھی کیں اور کم وبیش تین درجن افراد کو ورون کی منافرت انگیز اور زہریلی تقریروں کا گواہ بھی بنایا۔ورون کے خلاف ایف آئی آر کسی عام مسلم شہری نے نہیں بلکہ ڈی ایم کی ہدایت پر اے ڈی ایم نے کرائی تھیں۔گواہوں میں ہندو بھی تھے اور مسلمان بھی۔اسی طرح کئی صحافی بھی گواہ بنائے گئے تھے۔خاص طورپر ان صحافیوں کو کلیدی گواہ بنایا گیا تھا جن کی رپورٹیں ان کے اپنے چینلوں پر نشر ہوئی تھیں اور جس میں انہوں نے ورون گاندھی کو صاف طور پر مسلمانوں کو ڈراتے دھمکاتے ہوئے اور انتہائی قابل اعتراض زبان استعمال کرتے ہوئے دکھایا تھا۔پولس نے اپنا کیس مضبوط کرنے کے لئے ٹینٹ اور چائے والے تک کوگواہ بنایا تھا۔لیکن انجام کار یہ ہوا کہ سماجوادی پارٹی کی حکومت نے آئین ہند کے اس کھلے دشمن اور مسلمانوں کے ہاتھ کاٹنے کی کھلی دھمکی دینے والے اس بدزبان کی گلوخلاصی کے ایسے شرمناک انتظام کرڈالے کہ جن کو بیان کرتے ہوئے قلم لرزتا ہے۔اسٹنگ آپریشن کے لئے مشہور ایک ادارہ’ تہلکہ ڈاٹ کام ‘نے ورون گاندھی کی گلوخلاصی کے بعد جو سلسلہ وار تفصیلی انکشافات کئے ہیں ان سے جو تصویر ابھر کر آئی ہے وہ بہت ہی خوفناک ہے۔آئیے مختصراً جائزہ لیتے ہیں۔تین درجن گواہوں میں سے ایک گواہ بھی ایسا نہیں ہے جو منحرف نہ ہواہو۔ان میں مسلم گواہ بھی تھے۔قسم کھانے کو ایک ہندو صحافی گواہ ایسا رہ گیا تھا کہ جو ورون کے حق میں گواہی دینے کو تیار نہیں تھا۔لہذا اسے پیلی بھیت کے سپرنٹنڈنٹ آف پولس امت ورما(آئی پی ایس)نے مبینہ طورپریہ دھمکی دے کر مجبور کردیا کہ اگر اپنے بیوی بچے پیارے ہیں تو وہی کہو جو ہم بتارہے ہیں۔وہ تمام پولس والے بھی منحرف ہوگئے جو ورون کی ریلیوں کے دوران ڈیوٹی پر تھے اور جنہوں نے اس کی زہریلی تقریریں خود اپنے کانوں سے سنی تھیں۔ٹینٹ والے مسلم گواہ نے تو کسی ریلی کے منعقد ہونے سے ہی انکار کردیا۔کچھ پولس والے ایسے بھی نکلے جنہوں نے یہ کہا کہ ہم ریلی کے دوران موجود تو تھے لیکن ہم نے ورورن کی تقریر سنی ہی نہیں۔اسٹنگ آپریشن کے مطابق کم سے کم چارگواہوں کوپانچ پانچ لاکھ روپیہ بھی دئے گئے۔ایک ہندو صحافی کو ویگن آر کار دی گئی۔اسٹنگ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ خود ایس ایس پی امت ورما کو دس لاکھ اور ---کرسی عدالت پر بیٹھے ہوئے فرد کو بیس لاکھ روپیہ دئے گئے۔اناللہ وانا الیہ راجعون۔اس پورے منظرنامہ کا سب سے کریہہ منظر یہ ہے کہ زیادہ تر گواہوں کی گواہی اس وقت ہوئی جب کرسی عدالت پر فاضل جج --عبدالقیوم-- متمکن ہی نہیں تھے۔یہ نام دوبارہ پڑھئے۔جی ہاں فاضل جج کا نام عبدالقیوم ہی ہے۔اپنی نوعیت کا یہ واحد مقدمہ تھا کہ یوپی میں سماجودای حکومت کی تشکیل کے بعد جس کی ہر روز سماعت ہوئی اور اتنی جلد اس مقدمہ کا فیصلہ آگیا کہ بعض مبصرین نے اسے عدلیہ کی عالمی تاریخ میں پہلا اور انوکھا واقعہ قرار دیاہے۔ جب ماہرین کے ایک پینل کی رپورٹ کی روشنی میں ورون گاندھی سے جرح کی گئی اور اس نے سی ڈی اور مختلف لوگوں کے موبائل فون میں ریکارڈ اپنی تقریروں میں اپنی آواز کے ہونے سے ہی انکار کردیا تو اس کو اپنی آواز کے نمونے دینے پر مجبور نہیں کیا گیا ۔حالانکہ ماہرین کی رپورٹ میں اس بات کی استدعا کی گئی تھی کہ ملزم سے اس کی آواز کے نمونے مانگے جائیں ۔ورون گاندھی نے بھری عدالت میں جے شری رام کے نعرے تو لگائے لیکن اپنی آواز کے نمونے دینے سے انکار کردیا۔ جج صاحب کے طرز عمل کا اس سے زیادہ کربناک پہلو اور کیا ہوگا کہ انہوں نے ملزم سے ایک بار بھی نہیں پوچھا کہ تم آواز کے نمونے کیوں نہیں دینا چاہتے؟اس مقدمہ کا ایک تاریک پہلو سیاست دانوں کے طرز عمل کا بھی ہے۔اسٹنگ آپریشن اور عدالت کے ریکارڈ سے جو نکتہ سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ ورون گاندھی کو جس کلیدی گواہ کے انحراف کے سبب رہائی ملی ہے وہ سماجوادی پارٹی کاممبر اسمبلی ہی نہیں بلکہ اکھلیش یادوحکومت میں وزیر بھی ہے۔ریاض احمد نامی اس وزیر کو الیکشن جتانے میں خود ورون گاندھی نے اہم کردار ادا کیا تھا۔انہوں نے بی جے پی کے امیدوار کے لئے کام کرنے کی بجائے سماجوادی پارٹی کے امیدوار ریاض احمد کے لئے کام کیا۔ریاض احمد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ورون کی والدہ مینکا گاندھی کا بے حد قریبی ہے۔قارئین کو یاد ہوگا کہ اکھلیش کے وزیر اعلی بنتے ہی حکومت نے اس معاملہ کو واپس لینے کا اعلان کیا تھا۔یعنی سماجودی پارٹی کی حکومت اس سلسلہ میں شروع سے ہی بد دیانت تھی۔لیکن دہلی کی شاہ جہانی جامع مسجد کے امام سید احمد بخاری نے جب احتجاج کیا تو حکومت نے پلان بی پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا۔اب جو صورت نکل کر آئی ہے وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے اس کھلے دشمن اور آئین مخالف شیطان کو سزا سے بچانے کے لئے ملایم سنگھ ‘ان کے بیٹے اکھلیش یادو’ان کی پوری حکومت ‘ ان کا مسلم وزیر‘پیلی بھیت کی پولس اور انتظامیہ ‘عدالت کے پیش کاراور سرکاری وکیل حتی کہ خود عدالت کے سب سے بڑے نگہبان تک برہنگی اور کھلی ناانصافی پر اتر آئے۔ایسے میں آخر کس گواہ کی ہمت ہوتی کہ وہ ورون گاندھی کے خلاف یہ گواہی دیتا کہ اس نے اس کی زہریلی تقریریں اپنے کانوں سے سنی ہیں۔اس موقعہ پر مجھے اعظم خان صاحب یاد آتے ہیں کہ امریکہ میں انہوں نے اپنی معمول کی بے عزتی پر تو پورے ملک کو سر پر اٹھالیا لیکن عدل وانصاف کے حوالہ سے پورے ہندوستانی مسلمانوں کی اس شرمناک اہانت پر لب سی لئے ہیں۔ حال ہی میں اکھلیش یادو نے دعوی کیا ہے کہ انہوں نے سی بی آئی سے ورون گاندھی کے معاملہ کی تحقیقات کی سفارش کی ہے لیکن خود اعظم خان صاحب فرمارہے ہیں کہ ورون گاندھی کے خلاف سی بی آئی سے تفتیش کراکے ہم ورون گاندھی کے قد کو بڑھانا نہیں چاہتے۔کتنی دلچسپ بات ہے یہ؟میری آنکھیں ان قائدین کو بھی تلاش کرتی ہیں جن کاکوئی دن احتجاج کئے اور بیان دئے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔آخر اتنے بڑے ظلم اورانصاف کے اتنے منظم قتل پر وہ خاموش کیوں ہیں؟کیا انہوں نے بھی ورون گاندھی کو معاف کردیا؟
****************************
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 720