donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Md. Amir Mazhari Qasmi
Title :
   Siyachin Ki Tarah Bulandbala Hamare Fauj Ke Hauslon Ko Salam

برفیلی جہنم اور ٹپکتی سرخ لہو کی بوندیں


سیاچین کی طرح بلندوبالا ہمارے فوج کے حوصلوں کو سلام


محمد عامر مظہری  قاسمی جالے

استاد دارالعلوم سبیل الفلاح جالے


ہمارے فوج کے حوصلوں کی طرح بلند وبالا سیاچین کی سرد جہنمی چوٹیاں اتنے خوناک کہ چاند کی کرنیں بھی صاف وشفاف دودھ کی طرح سفید سرد جہنم میں اترنے سے گھبراتی ہو، سورج کی  شعلہ بار گرمی بھی اپنی گرمی سے شرم شار ہو کر گھٹنے ٹیک دے، گلیشئیر گلابوں کی سرزمین پر برف کا دوزخ، جہاں آج تک زندگی نے سر نہیں اٹھایا، 20ہزار کی بلندی، برفیلے پہاڑوں،  ایک سو ساٹھ کیلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سرد طوفانی ہوا،  جسم کو کاٹ ڈالنے والی سرد ہواؤں کے جھونکیہڈیوں کو منجمد کردینے والے منفی 40.30 درجہ حرارت خطرناک راستے، برفانی گھاٹیوں، سرد غاروں، موت کے کنویں، سانس لینے میں مشکلات، ہاتوں، پاؤں کو  برف کی بیماری، ایسی بیماری جس سے جسم کے اعضاء کاٹنے پڑے، غیر انسانی ماحول، دنیا کا سب سے زیادہ بلند وبالا میدان جنگ جہاں جانا  تقریبا ناممکن، جس کی چوٹیوں پر آکسیجن ماسک کے بغیر زندہ نہیں رہا جاسکے، جس کے لیے محسوس لباس کی ضرورت ہو، منفی درجہ حرارت کی وجہ سے سیال چیز جم جائے، بول براز بھی کرنے کا رسک نہیں لیا جا سکے، کیونکہ جسم کا کوئی حصہ ننگا ہوا تو موت، ہلمیٹ اتارا تو گردن سے بال تک جم جائے، پاؤں کا کو ئی حصہ ننگا ہوا یا چلے تو پاؤں ٹخنے سے شل ہو جائے، اور ڈاکٹر پاؤں کاٹنے پر مجبور ہوجائے اکسیجن ماسک کے مسلسل استعمال کرنے کی وجہ سے انسان کی  قوت سماعت، قوت بینائی، سونگھنے کی حس ختم ہو جائے، سیاچین کے سرد جہنم میں تمام تر احتیاط کے باوجود بھی 20دن سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتے، اس بے آب و گیاہ سرد جہنم کی وادی، برفانی  طوفانوں کی سفید چادر پر ہمارے باعزم حوصلوں سے لیس فوجی تعینات ہوتے ہیں، گزشتہ 3 فروری کو سیاچین میں اچانک برف کے تودے گرنے سے مدراس رجمنٹکے 10فوجی دب گئے  اس حادثے کے بعد امدادی کاروائیاں شروع کی گئی، لیکن چند دن قبل فوج نے کسی جوان کے زندہ ہونے کی امید چھوڑ دی تھی۔ مگر ایک فوجی جونیئر افسر ہنومن تھپا زندہ بچے رہے، لیکن ان کی موت بھی 11فروری کو ہوگئی، اس حادثہ میں شہید ہونے والے مشتاق احمد ایس، صوبے دار نگیشا ٹی ٹی، حولدار ایلو مالائی ایم، لانس حولدار ایس کمار، وغیرہ ہیں،  ہم سلام پیش کرتے ہیں ان  بہادر وطن کے بیٹے کو جو اپنے دیش کی عزت و آبرو پر کٹ مرنے کو تیار ہوتے ہیں، وطن کے ان شہبازوں کو  جو آپنی جانوں ہتھیلی میں رکھ کر اپنے سروں کو دشمنوں کے نشانے اور جسم کو سرد جہنم کے حوالے کرکے صرف اور صرف اس وطن کی حفاظت کے لیے سیاچین جاتے  ہیں اور اپنے لہو کو سرد کرکے وطن کے وقار کو اونچا کرتے ہیں، اور وطن کی عزت وآبرو کی حفاظت کرتے ہیں، اور سرد جہنم میں دشمن اور موسم کا مقابلہ کرتے ہیں، اور برفانی طوفانوں کی سفید چادر پر اپنے سرخ لہو سے وطن کے دفاع کے لیے جان دیتے ہیں، پاکیزہ سرخ  خون کی قربانی دے کر سفید برفیلے پہاڑوں کو گواہ بناتے ہیں،  اور خود اپنی موت سے بے پرواہ ملک کی سلامتی کے لیے خون جگر سے سینچکر اس کی حفاظت سے کمر بستہ ہوتے ہیں، ملک کے تیئں اگرچہ کہ مختلف زبانیں ہمدردی کے الفاظ بولتے ہیں، لیکن سرحدوں کے پار سے ممکنہ حملوں کی روکنے کی کوششوں کو یہی وہ چند افراد ہیں، جو ان فولادی لوگوں کے مقابلے کے لیے ہمیشہ بر سر پیکار رہتے ہیں، انہیں نہ دھوپ کی تپش کی پرواہ ہوتی ہے، اور نہ ہی خون کو منجمد کردینے والی ان سرد ہواؤں کی جو انسانیت ایک لمحے میں لقمۂاجل بنا دیتی ہیں، کسی نے سچ ہی کہا ہے، ہمارے. ملک کی حفاظت ان جانبازوں کی وجہ کر ممکن ہو پاتا ہے، جنہیں نہ تو مانگ کے سیندورکے مٹنے کی پرواہ ہوتی ہے، اور نہ ہی بلکتے بچوں کے آنسوؤں کی جو اپنے باپ کو سرحدوں پر لڑتے ہوئے اپنی کھلی آنکھ سے دیکھتے ہیں، 1984سے اب تک تقریبا 900جانبازوں نے اپنی سرخ لہو کی بوندیں سرد کر چکے ہیں، اور اس برفیلی جہنم میں اپنی جان ملک کے لیے قربان کر چکے ہیں، اور ہماری حکومت بھی اس پر اچھی خاصی خطیر رقم خرچ کرتی آئی ہے ٹائمز آف انڈیا  کی رپوٹ کی مانیں تو ہماری حکومت.کو سیاچین گلیشئر پرکو اپنے قابو میں رکھنے کے لیے  گزشتہ تین عشروں سے روزانہ دس لاکھ ڈالڑ یعنی چھ کروڑ اسی لاکھ  روپے خرچ کرنی پڑتی ہے، دوسرے الفاظ میں حکومت کو یہاں فی سیکنڈ اٹھارہ ہزار روپے خرچ کر رہی ہے، یہ رقم اتنی زیادہ ہے کہ اگر حکومت چاھے تو اب تک ہر سال چار ہزار نئے سکینڈری اسکول تعمیر کر سکتی ہے، یعنی تیس برسوں میں وہ ایک لاکھ بہتر ہزار اسکول تعمیر کر چکی ہوتی، سیاچین میں تعینات فوجی افسروں کو ماہانہ اکیس ہزار، جوانوں کو چودہ ہزار روپے ماہانہ الاؤنس دیا جاتا ہے، نیز پاکستانی حکومت کو بھی اتنی ہی جانی مالی نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے لیکن اتنے بھاری نقصانات کے باوجود  دنیا کے اس بلند خرچیلے محاذ سے دونوں ممالک کے فوجیوں کی واپسی کی ہرکوشش ناکام رہی، کیوں کہ اٹل بہاری واجپئی کے دور اقتدار میں بھی سیاچین پر بات چیت ہوئی تھی، لیکن 26 نومبر 2008 میں ممبئی حملہ کے بعد بات ختم ہوگئی، ہمارے موجودہ وزیر اعظم جس فراخ دلی اور دوراندیشی کے ساتھ پڑوسی ملکوں کے ساتھ تعلقات کی استواری کی کوشش کی تھی لیکن پٹھان کوٹ حملہ ہو نے کی وجہ سے یہ رک گیا، اگر دونوں ملکوں کے وزیر اعظم سیاچین کے تنازعات حل کر لیں، اور سیاچین جیسے سرد جہنم محاذپر دونوں ملکوں کی گرما گرمی ختم ہوجائے اور دونوں ملکوں کے افواج 1984 سے پہلے والی پوزیشن پر چلے جائیں تو دونوں ملک اپنی عوام کے بنیادی مسائل روٹی، کپڑا، علاج ومعالجہ اور دیگر ایشوز پر توجہ دے سکیں گے، اس کے لیے دونوں ملکوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ جنگ کی صورت دونوں کے مفاد میں نہیں ہے، پڑوسی کے ناطے سرحدی تنازع ہو سکتا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اپنے جوانوں جہاں انسان کا جانا ناممکن ہو وہاں ان کو شہید کرتے رہیں اورزبردست خرچ  کرتے رہیں اس کے لیے بھی پاکستان کو چاھیے کہ وہ پٹھان کوٹ معاملہ میں  کوئی ٹھوس قدم اٹھائے، اور سیاچین کو دونوں ملکوں کے سربراہ اور ساتھ میں چین بھی امن مقام یا نو وارزون میں تبدیل کردے۔ (یواین این

 

**************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 442