donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Md. Sharib zeya Rahmani
Title :
   Jungle Raj Kahan Hai, Bihar Me Ya ......

 جنگل راج کہاں ہے، بہارمیں یا......؟


محمد شارب ضیاء رحمانی


 الیکٹرانک میڈیاسے لے کر پرنٹ میڈیاکی توجہ بہارمیں جرائم کی خبروں پرمرکوز ہے گویاکہ سارے کرائم صرف اسی ریاست میں ہورہے ہیں۔بی جے پی کاالزام ہے کہ’’ جنگل راج پارٹ ٹوآگیاہے‘‘۔ان واقعات پرمیڈیاکی نظر ایسی ہی ہے جس طرح الیکشن کے زمانہ میں ہندوستان کامطلب ’’بہار‘‘ تھااورملک کی راجدھانی کومرکزی کابینہ سمیت دہلی سے پٹنہ منتقل کردیاگیاتھا۔یہ الگ بات ہے کہ ڈیڑھ ماہ میں سینتس ریلی کرنے والے وزیراعظم بہارکوبھول چکے ہیں۔ریاست کیلئے بی جے پی کے سنیئرلیڈران اپنے خون جگرکوصرف کرنے کی بات کہہ رہے تھے لیکن اب ترقی کی بات نہیں،جرائم پرمزے لے رہے ہیں۔بہارمیں تونتیش نے افسران کی جم کرکلاس بھی لی ہے لیکن کیابی جے پی بتائے گی کہ دہلی ،ہریانہ ،مہاراشٹرمیں وزیراعلیٰ یاوزیراعظم نے کب افسران کوبدانتظامی پرڈانٹ پلائی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ لالوکے بیٹے تیج پرتا پ یادوکی حلف برداری میں غلطی او رپھردوبارہ حلف لینے پردوبجے سے لے کرشام پانچ بجے تک بی جے پی اورالیکٹرانک میڈیانے خوب بحث کی لیکن جیسے ہی بی جے پی کو لالویادونے مودی کی حلف برداری میں صریح غلطی کی نشاندہی کرکے ان سے دوبارہ حلف لینے کوکہاتوموضوع ہی بدل گیا۔ایک ایک بیان کی تشریح کرکے راجد،جدیوکے درمیان اختلاف کی افواہ اڑائی جارہی ہے لیکن ذرائع ابلاغ کی توجہ شیوسیناکے مرکزی حکومت پرتلخ تبصروں پرنہیں جاتی۔

سنگھی میڈیاکوجرائم کی خبریں بہارکے علاوہ ،یوپی ،بنگال اورآسام سے مل رہی ہیں۔الیکشن کہ وجہ سے ان دونوں ریاستوں میں فرقہ وارانہ ماحول خراب کیاجارہاہے۔اجودھیاکی ساری سرگرمیاں یوپی کے ماحول کومزیدخراب کرنے کیلئے جاری ہیں۔یہ اوربات ہے کہ الیکشن پنجاب میں بھی ہونے والے ہیں ،جس ریاست میںمنشیات کی لت سب سے زیادہ ہو،گروگرنتھ کوجلادیاجائے،کسان بدحال ہوں وہ جنگل راج نہیں ہوسکتاکیونکہ یہاں سرکارغیراین ڈی اے کی نہیں ہے۔اسی طرح میڈیاکے منظرنامہ سے ہریانہ غائب ہے ،آرایس ایس کے کارسیوک کھٹرکی سرکارمیں دلتوں پرمظالم،جرائم اورکرائم پراس کی توجہ نہیں جاتی۔وزیراعظم اپنے ہی پریوارکے کھٹرکے پڑوس کے صوبے میں بربریت پرخاموشی سادھے ہوئے ہیں کیونکہ ان کے وزیرکے نزدیک ’’دلت کتوں کے برابر‘‘ہیں۔اورخودبرہمنی تاریخ میں بھی ان کی حیثیت اس سے زیادہ نہیں ہے۔دہلی جوآدھی ہی کجریوال سرکارکے پاس ہے باقی سارے انتظامی اموراورپولیس محکمے مودی سرکارکے قبضہ میں ہیں،میں جرائم کی صورتحال کیاہے سب کومعلوم ہے ۔مزہ کی بات یہ ہے کہ کل تک میڈیاخوب دہلی کے جرائم کی تشہیرکرتاتھالیکن جب کجریوال نے ملک کوبتادیاکہ اس میں اسٹیٹ حکومت کچھ نہیں کرسکتی،پولیس مودی سرکارکے انڈرمیں ہے تودہلی کے جرائم پربی جے پی اورمیڈیاکی توجہ کم ہوئی ہے۔’’اب نہ ہوگاناری پروار،اب کی بارمودی سرکار‘‘کانعرہ مودی جی نے دیاتھالیکن ان کی ناک کے نیچے دہلی اورہریانہ میں ناری پرکتنے وارہورہے ہیں ،بتانے کی ضرورت نہیں ہے،اس کے باوجودمرکزمیں بیٹھی آرایس ایس حکومت مدھیہ پردیش میں ویاپم گھوٹالہ کے پس منظرمیں جتنی جانیں گئیں ،اسے جنگل راج نہیں کہاجاسکتا،مہاراشٹرمیں کسانوں کی خودکشی جنگل راج کانمونہ نہیں ہے کیونکہ وہاں بھی آرایس ایس کی حکومت ہے۔

بدعنوانی اوردہشت گردی پرعدم برداشت کاوعدہ پی ایم کرتے رہے ہیں۔پہلے توسشماسوراج،وسندھراراجے،پنکجامنڈے،شیوراج سنگھ چوہان اوراب ارون جیٹلی پرسارے الزام کووہ برداشت کررہے ہیں ۔بلکہ الزام پروزیراعظم نے تودفاع میں اترکر کہاکہ جس طرح حوالہ گھوٹالہ کے الزا م سے اڈوانی بری ہوئے ،جیٹلی بھی ہوں گے ۔یہ ہرشخص جانتاہے کہ وزیراعظم کوآدھی بات ہی معلوم رہتی ہے یاوہ یہ سمجھتے ہیں کہ آدھی بات عوام نہیں سمجھ سکی ہے۔ایساہی اس بار بھی ہواحوالہ گھوٹالہ کے الزام لگنے کے بعدان کے’’ مارگ درشک‘‘ نے تواستعفیٰ دے دیاتھا،مودی اسے چپاگئے،جب کہ ان کے ’’مارگ درشک‘‘ نے للت گیٹ اورویاپم گھوٹالہ پرہنگامہ کے دوران بھی ان لیڈروں کوپاک صاف ہوکرپھرکابینہ میں آنے کی نصیحت کی تھی ۔مودی اسے بھی چھپاگئے۔

منموہن سرکارمیں مہنگائی بڑھے تویہ ملک کولوٹنے والے ،مودی سرکاردال سے لے کرپیازاورگیس تک میں لوٹ مچادے تویہ ملک کاوکاس ہورہا ہے ۔ریل کرائے مستقل بڑھائے جارہے ہیں تواسے جدیدکاری کے وسائل کاانتظام بتایاجارہاہے ۔جس ملک میں000 78بارہویں پاس بھیک مانگنے پرمجبورہوںوہاں بلٹ ٹرین کاکیاجوازہے۔عالمی بازارمیںتیل کی قیمت میں زبردست کمی کے باوجودعوام کے حق کومارکرصرف خزانے بھرے جارہے ہیں پھربھی ہے وکاس پرش سرکار۔ایودھیاپرعبدالرحیم قریشی بولیں توعدالت کی توہین وہی بات یوگی،شرما،ساکشی،سادھوی بولیں توکارسیوا؟۔رام مندرکیلئے پتھرتراشے جائیں تو معمول کی بات اورمسجدکاماڈل بنے توکیس۔حامدانصاری پروٹوکول کے مطابق یوم جمہوریہ کی سلامی نہ لیں(کیونکہ یوم جمہوریہ کی سلامی صرف صدرجمہوریہ کااستحقاق ہوتاہے)توغدارِوطن اوروزیراعظم پروٹوکول توڑکرسلامی لے لیں تودیش بھکت،فلم ہال میں مسلم فیملی قومی گیت کے وقت بیٹھی رہے تواسے ہال سے باہرنکال دیاجائے لیکن ماسکومیں انٹرنیشنل میڈیاکی نگاہوں کے سامنے قومی گیت کے وقت آگے بڑھنے کااشارہ وزیراعظم نہ سمجھیں،چلناشروع کردیں اورپھرانہیں پکڑکراپنی جگہ واپس لایاجائے تودیش کانام روشن کرنے والے ویکتی ہیں۔اندازہ لگائیے کہ ملک کہاں جارہاہے۔ سوال یہ ہے کہ بین الاقوامی برادری کے سامنے ملک کوشرمندہ کرنے کی جوابدہی طے ہونی چاہئے یانہیں۔بہت ممکن ہے کہ روس ،افغانستان سے واپسی میں اچانک پاکستان دورہ بھی اپوزیشن کے اس سوال سے بچنے کیلئے کیاگیاہو،مودی اپنے اس مبینہ مقصدمیں کامیاب بھی ہوگئے اورآنے کے بعدکانگریس جوماسکومیں ملک کوشرمسارکرنے پرگھیرنے کامن بناچکی تھی،اس کی توجہ بدل گئی ۔ پاکستان جاکرارون جیٹلی کامعاملہ بھی ٹھنڈاکرنے کی کوشش ہوسکتی تھی لیکن کجریوال نے بہرحال اسے زندہ رکھاہواہے۔

سنگھ سرکارایک طرف یہ وعدہ کرتی رہی ہے کہ جب تک دہشت گردی پاکستان کی طرف سے ہورہی ہے ،اس کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں ہوگی لیکن اچانک تعلقات استوارہونے لگتے ہیں۔منموہن سرکارمیں مودی جی نے کہاتھاکہ لولیٹرلکھنابندکرو،پاکستان کوجواب دینے کیلئے چھپن انچ کے سینہ کی ضرورت ہے لیکن اب لولیٹرکیا،آم اورساڑی کاتبادلہ ہونے گایہی نہیں اب دیارِمعشوق میں بھی گھوم آئے،جس پر پوری بی جے پی، خارجہ پالیسی کی تعریف کے پل باندھ رہی ہے۔سوال یہ ہے کہ اگریہی  دورہ منموہن سنگھ کرتے توان کارویہ کیایہی ہوتا؟۔کبھی پیرس میں نواز شریف سے ملاقات ہوتی ہے اور میڈیاسے چھپاکراچانک پاکستان دورہ کا پروگرام بن جاتاہے۔لیکن وہاں کی کرکٹ ٹیم کیا، پی سی بی کے افسر ہندوستان نہیںآسکتے ہیں،کوئی پاکستانی گلوکارہندوستان میں اپنے فن کامظاہرہ نہیں کرسکتا،کوئی مصنف کسی ادبی پروگرام میں شرکت کرے تومیزبان کے چہرے پرسیاہی پوتی جاتی ہے لیکن وزیرخارجہ گھوم کرآجائیں توشاندارڈپلومیسی۔دیش سے باہرگاندھی اور دیش میں گوڈسے کی اس دوہری پالیسی کوپوراملک دیکھ رہاہے۔اس پرکسی کوکوئی اعتراض نہیں ہے کہ پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات بحال کیئے جائیں بلکہ یہ ملک کی ترقی کیلئے ضروری ہے ۔سوال ان یوگی آدتیہ ناتھوں، گری راجوں اور سادھوی پراچیوںسے ہے کہ پاکستان کی گالی توکسی اورکودیتے ہیں اورمضبوط تعلقات خودبنارہے ہیں۔پڑوسیوں میں نیپال سے تعلقات بہتر تھے مودی سرکارکی غلط خارجہ پالیسیوں کے نتیجہ میںوہ بھی خراب ہوگئے۔وزیراعظم آرایس ایس کے پرچارک بن کرگیتاتقسیم کرنے اوریوگاکروانے کیلئے بیرون ملک گھومتے ہیںاورباورکراناچاہتے ہیں کہ وہ وزیرخارجہ کی ذمہ داری  تندہی کے ساتھ اداکررہے ہیں۔

لال قلعہ کی فصیل سے وزیراعظم نے کہاتھا کہ ایک سال میں بدعنوانی کاایک الزام تک نہیں لگا۔ وجہ ہے کہ بی جے پی لیڈران اپنے علاوہ سب کومورکھ سمجھتے ہیں۔بہارنے عوام کومعصوم سمجھنے کاخمیازہ بھگتادیاہے۔ خبریہ بھی ہے کہ کابینہ میں تبدیلی ہونے والی ہے۔ممکن ہے کہ بہارالیکشن کے تناظرمیں کابینہ میں شامل کئے گئے وزراء میں سے کچھ کوباہرکاراستہ دکھاکریوپی ،تمل ناڈو،پنجاب(جہاں آئندہ دوبرسوں میں الیکشن ہونے والے ہیں)کے لیڈران کوکابینہ میں جگہ ملے گی۔دیکھنایہ ہے کہ داغی اوربڑبولے کی چھٹی ہوتی یانہیں ۔دینک بھاسکرکے مطابق ارون جیٹلی کوپھروزیردفاع بنایاجاسکتاہے لیکن جیٹلی کی وزارت (خزانہ) سنبھالنے کیلئے متبادل نہیں مل رہاہے ،بہت ممکن ہے کہ ڈی ڈی سی اے معاملہ میں جیٹلی کے دفاع کیلئے مودی اسی لئے مجبوربھی ہوں کیونکہ سنیئرلیڈران کوکنارہ لگانے کے بعداہم وزارتوں کیلئے ’’مناسب ‘‘لیڈر ان کے پاس نہیں ہیں۔ وزیراعظم نے کابینہ کی تشکیل کے ساتھ ہی جوکام کرنے کی نصیحت کی تھی اورفعال سرکارکاوعدہ کیاتھاوہ سب بس جملہ ہی رہ گیا،ویسے توسارے وعدے ہی جملہ ہیں۔ دفعہ تین سترکوبی جے پی نے اپنے انتخابی منشورمیں شامل کیالیکن دفعہ کی حمایتی پارٹی کے ساتھ مل کراس نے سرکاربنالی جومودی بھکتوں کوزبردست دھوکہ ہے۔بہت دلچسپ پہلویہ ہے کہ گذشتہ برس آرایس ایس سرکارنے اقتدارکے نشہ میں چورکرہوکرکرسمس کی چھٹی کونشانہ بنایاتھا۔اسکولوں میں بچوںکوزبردستی وزیراعظم کی تقریرسنی پڑی تھی لیکن دوشکست کے بعدایساکیاہوگیاکہ اس سال کرسمس میں وہ ’’دیوس‘‘ یادنہیں آئے۔تعلیمی ،انتظامی اوراہم اداروں کا جس طرح بھگواکرن ہورہاہے اس سے ہر انصاف پسندشہری ملک کی جمہوریت کے تئیںتشویش میں مبتلاہے۔جنگل راج ،مرکزی حکومت اوربی جے پی کی اسٹیٹس حکومتوں میں ہے میڈیاکوچاہئے کہ وہ جنگل راج  کی اصل تصویریں دکھائے ۔ملک کے حالات عالمی برادری کے سامنے بھی آگئے ہیں ۔اسی لئے ہربیرون ملک دورہ سے قبل وزیراعظم کو مذہبی رواداری پربیان دینے کی ضرورت پیش آرہی ہے تاکہ لندن کے تلخ تجربے پھرنہ دوہرائے جائیں۔غرض کہ وہ کون ساکام ہے جس کی وجہ سے یوپی اے سرکاربدنام تھی اوروہ آج نہیں ہورہاہے۔


*****************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 652