donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Mosharraf Alam Zauqi
Title : بابری مسجد زمین کا ایک چھوٹا سا ٹک
   Babri Masjid zameen Ka Aik Chhota sa Tukra Nahi Hai


 

بابری مسجد زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا نہیں ہے


آزادی کے بعد سے آج تک مسلمان حق وانصاف کے لیے ترس گئے


— مشرف عالم ذوقی


’’یہ زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہے۔ جس پر چلنے سے فرشتے بھی ڈرتے ہیں۔ زمین میں چاروں طرف بارودی سرنگیں بچھی ہیں۔ ہم سے کہا گیا ہے کہ اسے صاف کیا جائے۔ کچھ سمجھدار لوگوں نے صلاح دی ہے کہ اسے صاف کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ لیکن یہ خطرہ اٹھانا ہوگا۔‘‘
—بابری مسجد کا تاریخی فیصلہ سنانے والے جج سبغت اللہ خاں کے بیان کا ایک حصہ ۔

سبغت اللہ خاں کی حیثیت دراصل اس پورے معاملہ میں اس معصوم اورسہمے ہوئے مسلمان کی تھی جو تاریخی حقائق کی جگہ حکومت اور ماحول کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور تھا۔ وہ اس خطرے کا تجزیہ نہیں کرسکے جو اس غلط فیصلے کے بعد اس ملک کے مسلمانوں کو نفسیاتی سطح پر کمزور کرنے کے لیے کافی تھا۔ بلکہ یہ بھی کہنا چاہئے کہ وہ اس فیصلے سے قبل کی تاریخ پر بھی غور نہ کرسکے جس نے آزادی کے بعد سے ہی اس ملک میں مسلمانوں کو حاشیے پر ڈالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ فیصلہ آنے سے قبل ہی آر ایس ایس اور ہندو مہا سبھا جیسی تنظیموں نے کہنا شروع کردیا تھاکہ اگر فیصلہ ان کے حق میں نہیں آتا ہے تو وہ اسے قبول نہیں کریں گے۔ اور اس کے بعد اگر پورے ملک میں گجرات جیسا ماحول پیدا ہوتا ہے تو یہ ان کی ذمہ داری نہیں ہوگی۔ تو کیا مرکزی اور ریاستی حکومت آر ایس ایس اور ہندو مہاسبھا جیسی تنظیموں سے خوفزدہ تھی؟ فیصلہ سے تین دن قبل تک حکومت اور میڈیا دونوں نے یہ ماحول بنانے کی کوشش کی تھی کہ فیصلہ مسلمانوں کے حق میں ہوگا۔ وہ تاریخی فیصلہ جس کے انتظار میں ۱۸ برس لگے تھے۔ اور جس کے لیے عدلیہ نے 8189صفحات کیا صرف اس لیے برباد کیے تھے کہ مسلمانوں کو یہ بتایا جاسکے کہ اس ملک کے کسی بھی فیصلے پر مسلمانوں کا نام نہیں لکھا جاسکتا—؟ کیا عقیدے اور مذہب کو بنیاد بنا کر جمہوریت کا مذاق نہیں اڑایاگیا—؟ اوراس مذاق میں عدلیہ کے تین ستونوں میں سے ایک ستون کے طورپر اقلیت کی آواز بھی جان بوجھ کر شامل کی گئی کہ مستقبل کے مورخ یہ بتا سکیں کہ انصاف ملنے میں ایک مسلمان کا بھی ہاتھ رہا ہے۔ پانچ سو برس سے جو متازعہ زمین بابری مسجد کی شکل میں تھی، کورٹ نے اس کے بارے میں ایک لفظ نہیں کہا۔ یہ بھی نہیں کہ جو مورتیاں 1949میں وہاں رکھی گئیں، وہ وہاں کیسے آئیں؟


عالمی سیاست کا وہ منظر بھی دیکھئے جہاں ہر جگہ مسلمانوں کو تہہ تیغ کیا جارہا ہے۔ امریکہ کی بالادستی قائم ہے۔ کہیں مسجدوں پر پابندیاں لگائی جارہی ہیں اور کہیں مسلمانوں کی آمدورفت کو روکا جارہا ہے۔ اوراسی دنیا نے امن کا پیغام پہنچانے والے مسلمانوں کو دہشت گرد بھی بنادیا۔ ہندستانی سیاست میں فرقہ واریت کا تماشہ ہوتا رہا اور اس بہانے مسلمانوں کو حاشیے پر ڈالنے کی کارروائی بھی جاری رہی۔ پاکستان کا معاملہ ہو یا کشمیر کا، مسلمانوں کو ہر بار شک کی نگاہوں سے دیکھا گیا۔ اور ہر بار اس ملک کی دوسری بڑی اکثریت کو اپنی صفائی دینے کے لیے سامنے آنا پڑتا ہے۔ 


اس لیے  یہ صرف ایک فیصلہ نہیں تھا — ہماری زندگیاں لگی تھیں دائوپر— اٹھارہ برسوں کے بعد آیا یہ فیصلہ اگرسیاست کی نذر نہ ہوتاتو اس کی شکل مختلف ہوتی۔— صرف یہ ایک فیصلہ آزادی کے بعد کے ہزاروں نکمے فیصلوںکے داغ دھو کر ہمیں مین اسٹریم میں لے آتا— گودھرہ سے مالیگائوں اور بٹلہ ہائوس تک کی نا انصافیوں کو ایک موہوم سی امید کی کرن مل جاتی۔ باربار ہماری وفاداریوں کو چیلنج کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ جبکہ ہماری وفاداریاں کھلی کتاب کی طرح روشن ہیں۔


ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ آج ہم میں سے کوئی بھی اپنے بچوں کو سنہری ماضی کی کہانیاں نہیں سناتا۔ پدرم سلطان بود… یہ ایک واہیات حقیقت تھی، جس کے پیچھے تباہ ہوتی ہوئی نسلوں کو دیکھا ہے ہم نے— آنکھیں کھلتے ہی ہم اپنے بچوں کو حقیقت کی پتھریلی زمین پر چلنا سکھاتے ہیں— مگرہوتا کیا ہے۔ آنکھیں کھلتے ہی ہمارے بچوں کو ایک بٹلہ ہائوس مل جاتا ہے—کہیں دنگے ہوتے ہیں تو وہ ڈر جاتے ہیں۔ اسکول میں دوستوں کے درمیان بھی ڈرے ڈرے ہوتے ہیں۔ ڈر کے یہ انجکشن ان کے جسم میں ہم بھی پیوست کرتے رہتے ہیں— اور اس لیے کرتے ہیں کہ حکومت سے میڈیا تک باربار ہمیں ڈرارہی ہوتی ہے۔ ہم اخباروں میں مسلسل خوف ودہشت کی کہانیاں سنتے رہتے ہیں۔چینلس پر دہشت گردوں کی یلغار دیکھتے ہوئے سہمے رہتے ہیں۔ اوریہ سب مسلمان ہوتے ہیں— دہشت کی ہر کارروائی کے پیچھے ایک مسلمان— ٹی وی دیکھتے ،اخبار پڑھتے ہوئے ہمیں اپنے ہی مذہب اوراپنی قوم کے لوگوں سے نفرت ہونے لگتی ہے—


بابری مسجد فیصلہ آنے کے بعد سارے ملک میں مسلمانوں نے جشن منایا۔ مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔کیونکہ دنگے نہیں ہوئے۔ شانتی رہی۔ 92نہیں دہرایاگیا— یہ مٹھائیاں نہیں تقسیم کی گئی بلکہ ہمیں جبر و ظلم کے آگے جینے کی نصیحت دی گئی۔ ہم دبے رہیںگے۔ ہمارے انصاف یہی رہیںگے۔ اور ہمارا کام مسکرانا ہوگا۔ جشن منانا ہوگا۔ مٹھائیاں تقسیم کرنا ہوگا۔ بات کسی قوم کی شکست اورفتح کی نہیں ہے۔ انصاف کے لیے حقائق ہوتے ہیں۔ دستاویز ہوتے ہیں۔ ثبوت ہوتے ہیں۔ مذہب کا آدرش یا مکھوٹا نہیں ہوتا— لیکن آدرش کا ایک مکھوٹا لگایاگیا —اورعدلیہ کی کرسی پر ایک بے زبان مسلم جج کو بیٹھا کر تاریخ کا اتنا بڑا فیصلہ لے لیاگیا— فیصلہ لینے والے جج نہیں تھے ۔ دو الگ الگ مذہب کے لوگ تھے۔ اگر فیصلہ یہی تھا تو اس کے لیے اٹھارہ سال انتظار کرنے کی کیا ضرورت تھی—مذہب یا آدرش کی کسی بھی بوسیدہ کتاب سے یہ فیصلہ برسوں پہلے بھی سنایا جاسکتا تھا۔


 یہ فیصلہ آستھا بنام انصاف کے نام تھا۔ بہت کچھ تبدیل ہوا۔ جو صورتحال ۱۸ برس پہلے تھی وہ آج کے ماحول میں پہلے سے کہیں زیادہ خوفناک ہوچکی ہے— اٹھارہ سال پہلے صرف مندر مسجد کا معاملہ تھا اور جوش سے بھرے دیوانے تھے— لیکن ان اٹھارہ برسوں میں دنیا کے ساتھ اپنا ملک بھی بدلا ہے۔ 


یہ مت بھولیے کہ چھ دسمبر محض ایک تاریخ نہیں ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ۶۷ برسوں سے اس ملک کا کوئی بھی فیصلہ ہمارے نام نہیں ہوا۔ بھیونڈی، ملیانہ، بھاگلپور، بہار شریف، مظفر نگر، شاملی کے فسادات کو یاد کیجئے تو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ چھ دسمبر کا دن سال میں کئی بار رنگ بدل بدل کر آتا ہے۔ اس فریم میں بھاجپا اور مودی کو فٹ کرکے دیکھیے تو تصویر اور بھی خوفناک ہوجاتی ہے۔ اور اس سے بھی زیادہ خوفناک ہے ملک کے ۳۰ کروڑ مسلمانوں کی خاموشی جو بٹلہ ہائوس فرضی انکائونٹر سے لے کر بابری مسجد فیصلہ تک ہونٹ سی کر رہ جاتے ہیں اور حکومتیں اقتدار میں آنے کے بعد مسلمانوں کو سیاسی، سماجی، اقتصادی ہر سطح پر کمزور اور توڑنے میں لگ جاتی ہیں۔


یہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کو خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے مگر آزادی کے بعد کے خوف کا نفسیاتی تجزیہ کیجئے تو حکومت اور فوج سے پولس کی نوک تک ہر جگہ مسلمان ہی ہوتا ہے جو اپنے گھر، اپنے خاندان اپنے بچوں کے لیے سہما سہما نظر آتا ہے۔ اور یہ بھی اسی آزادی کے بعد کا سچ ہے کہ کرایہ کے مکان سے روزگار اور کیریئر تک ہر جگہ مسلمانوں کو شک کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ بابری مسجد فتح کے بعد ان دنوں کو یاد کیجئے جب بھاجپا اقتدار میں تھی اور مرلی منوہر جوشی بھگوا ایجنڈے کے ساتھ تعلیم اور نصاب پر حاوی تھے اور ایک نئی تاریخ پوری ہشیاری سے تحریر کی جارہی تھی۔ یہاں تک کہ جیوتش اور ویدک علم النصاب کو پڑھا ئے جانے پر زور دیا جارہاتھا۔


چھ دسمبر کے المیہ کو ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال سے جوڑ کر دیکھے جانے کی ضرورت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ چھ دسمبر کے بعد ٹاڈا، پوٹا اور بھگوا تعلیم سے مودی کو رہنما بنانے تک آر ایس ایس انتہائی ہشیاری اور چالاکی سے شطرنج کی بساط پر ایک ایک مہرہ سنبھل سنبھل کر چل رہی ہے۔ اور ایک دن اسپ، فیل اور وزیر کو مات دیتے ہوئے وہ آپ کے دل ودماغ پر بدلی گئی تاریخ و تہذیب کے ساتھ حکومت کریں گے۔ وہ آپ کے ماضی کو گم کردیں گے اور آپ کے مستقبل پر قبضہ کرلیں گے۔ اس لیے ڈریے اس دن سے جس دن وہ اپنے اصل اور بھیانک مقاصد میں کامیاب ہوجائیں گے۔ 

Zauqui2005@gmail.com    

*****************

Comments


Login

You are Visitor Number : 660