donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Mumtaz Meer
Title :
   Umr Sadhe Pandrah saal

عمرساڑھے پندرہ سال

 

ممتاز میر


  ۱۶ دسمبر ۲۰۱۲ کو دہلی میں ایک ہولناک واقعہ پیش آیا تھا۔دہلی کی ایک چلتی بس میں ۶ لوگوں نے ،بشمول بس ڈرائیور ،ایک ۲۳ سالہ لڑکی کی عصمت دری کی تھی۔ان ۶ لوگوں میں ایک شخص نابالغ یعنی ساڑھے سترہ سال کا تھا ۔اور کہتے ہیں کہ جنسی عمل کے دوران اسی ’’بچے ‘‘ نے سب سے زیادہ درندگی کا مظاہرہ کیا تھا۔وہ جنھوں نے ’’شرافت‘‘ کے ساتھ اپنی ضرورت پوری کرلی تھی قانون نے ان کو توcapital punishment یعنی سخت سزاؤں سے نوازا۔مگر اپنی ضرورت پوری کرتے ہوئے جس نے نربھیہ کو انسان ہی نہیں سمجھا اسے ہمارے مہارتھی ججوں نے صرف تین سال قید کی سزا دی۔وہ بھی کیا کرتے ۔قانون کے ہاتھوں وہ بھی مجبور تھے۔یہ ہم ہندوستانیوںکے خمیر میں ہے کہ ہم تقریباًٍٍ ہمیشہ سانپ نکل جانے کے بعد لکیر پیٹتے ہیں۔اس بار بھی جب اس ’’پیر نابالغ ‘‘کی رہائی کے دن قریب آئے توہمارے ارباب حل و عقد کو سدھ آئی۔اور انھوں نے اس کی رہائی پر اس طرح غیض و غضب کا اظہار کیا کہ دونوں ایوانوں سے ایک بل پاس کرا لیاجس میں اب سن بلوغت ۱۶ سال طے کیا گیا ہے۔اس سلسلے میں لیفٹ پارٹیوں کا موقف یہ تھا کہ بل کو پہلے سلکٹ کمیٹی کے پاس بھیجا جائے جسے نا ماننے کی صورت میں انھوں نے ایوان سے واک آؤٹ کیا ۔منیکا گاندھی بل کی غیر معمولی حمایتی رہیں۔ان کا موقف بڑا دلچسپ تھا ۔ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی کشمیری دہشت گرد ۱۸ سال سے کم عمر ہواتو اسے جیل بھیجنے کی بجائے چلڈرنس ہوم میں رکھا جائے گا اور وہ وہاں چلڈرنس ہوم کے تمام بچوں کو دہشت گرد بنا دے گا۔یہ واقعی کم عقلی ہے یا فرقہ پرستی نے عقل کو ڈھانپ لیا ہے۔یہی منافقت دنیا میں سارے فساد کی جڑ ہے۔ایک طرف کشمیر کو ہم اپنا اٹوٹ انگ کہتے ہیں۔دوسری طرف ہم نے اسے عملاًneglected انگ بنا رکھا ہے۔ہمارے لیڈروں کے کسی عمل سے کشمیری عوام کے لئے اپنائیت کا اظہار نہیں ہوتا۔۔۔۔۔اب ہماری پارلیمنٹ میں بیٹھنے والاہر شخص خود ہی اپنی کہہ لیجئے یا ایک دوسرے کی پیٹھ تھپتھپا رہا ہیکہ انھوں نے عوام کو کیسا(بل پاس کرکے)نادر روزگار تحفہ دیا ہے۔عوام شاید صدیوںلیڈروں کا یہ احسان نہ اتار سکیں۔مگر راقم الحروف ۔کچھ لوگوں کے دماغوں میں ٹیڑھ ہوتی ہے۔راقم الحروف اس فکر میں دبلا ہو رہا ہے کہ اگر اگلا زانی ساڑھے پندرہ سال کا ہوا تو!

  ایسا لگتا ہے کہ پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے ہمارے لیڈر عام ہندوستانی عوام سے الگ کوئی مخلوق ہیں۔انھیں معلوم ہی نہیں کہ مغرب کی ترقی کی برابری کرنے کے لئے انھوں نے ہندوستانی معاشرے میں جو خرافات پھیلائی ہیںاس کے کیا نتائج نکل رہے ہیں۔گلو بلائزیشن کی نیلم پری نے دادا دادی اور مانباپ کے ساتھ ساتھ بچوں پر کیا اثرات مرتب کئے ہیں۔کیا آج سے ۵۰ سال پہلے ۱۰؍۱۲ سال کے بچے خواتین کے جسمانی نشیب و فراز سے واقف تھے؟ مردوزن کے اعضاء کے اعمال سے واقف تھے مگر ترقی کی اندھی ہوڑ میں ہم نے ٹی وی کمپیوٹراور موبائل  کے انٹرنیٹ کو اتنا عام کر دیا ہے کہ اب چاہیں بھی تو اس پر لگام نہیں لگا سکتے۔ہم نے مغرب کی منفی باتوں کو تو اپنایامگر مثبت باتوں کو اپنانے سے اعراض برتا۔کیونکہ ہمارا ضمیر ،ہمارا خمیر ہندوستانی ہے۔ہم لکشمی کو پوجتے ہیں۔کرپشن پر کس طرح شکنجہ کستے؟قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کس طرح چست و درست کرتے؟ہم تو اپنے پولس والوں سے نوآبادیاتی دوروالے کام لینا چاہتے ہیں۔انھیں گلوبلائزیشن کے اثرات بد کا کنٹرول کرنے کا کام کون دے گا؟ویسے بھی یہ مسئلہ صد فی صد ان سے بھی حل ہونے والا نہیں۔

  ہم ہندوستانیوں کے ساتھ ایک دوسرا مسئلہ بھی ہے۔ہم اس وقت تک چیختے چلاتے ہیں جب تک چوٹ لگ کر درد ہوتا رہتا ہے ۔درد ختم چیخ پکار ختم۔ہم مسئلے کہ پیدا ہونے سے پہلے اس کے تدارک کی فکر کرنے والوں میں سے نہیں۔جب نربھیہ کیس ہوا تھا تب بڑے بڑے  دگجوں نے زانیوں کے خلاف اسلامی قوانین کی دہائی دی تھی۔بڑے بڑے لیڈر اور سیلیبریٹی،یہاں تک کہ فلم انڈسٹری والے بھی عصمت دری کے کیسوں میں اسلامی قوانین کے موثر ہونے کی باتیں کر رہے تھے۔مگر اب جب بچوں کے سن بلوغت کو طے کرنے کا وقت آیا تو کسی دانشور کو اس تعلق سے اسلامی شریعت کو کھنگالنے کی نہ سوجھی۔ایسا کیوں ہوتا ہے؟یہ بات انسان کی پیچیدہ نفسیات میں پوشیدہ ہے ناچیز کئی بار لکھ چکا ہے کہ انسان کے عقائد اس کی فطرت اس کی نفسیات  اس کی تہذیب غرض کہ ہر چیز طے کرتے ہیں۔یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسلام ہی پرفیکٹ ہے مگر اس وقت تک اسے نہیں اپناتے جب تک ’’بعد از خرابیء بسیار ‘‘اسے اپنانے پر مجبور نہ ہوجائیںدستور ہند میں کی گئیں متعدد ترمیما ت اس بات کی گواہ ہیں۔نکاح و طلاق کے موجودہ قوانین لے لو ۔تعدد ازدواج کی بات کرلو ۔وراثت میں لڑکی کا حصہ دیکھ لو ۔یہ سب اسلامی قوانین سے مستعار ہیں۔پھر سن بلوغت کے لئے اسلامی شریعت سے بیر کیوں ؟کیا بعد از خرابی بسیار ہی اسلامی قوانین سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے؟

  بلوغت کے لئے اسلام نے کوئی عمر طے نہیں کی ہے۔سن بلوغت زمان و مکان کے حساب سے بدلے گا۔مگر ایک بنیادcriteria اسلام بہرحال اسلام نے طے کردی ہے۔لڑکی کو جب بھی ماہواری آجائے اسے بالغ سمجھا جائے گا۔چاہے عمر دس سال ہی کیوں نہ ہو یہ عمر گرم اور سرد علاقوں کے مطابق بدلے گی۔اسی طرح لڑکے کو جب احتلام آجائے وہ بالغ مانا جائے گا۔۵۰ سال پہلے ہمارے معاشرے کی جو حالت تھی آجT.V. موبائل اور کمپیوٹر کی فراوانی نے اسے مکمل طور پر تبدیل کر دیا ہے۔آج کا بچہ نصف صدی پہلے کے مقابلے مرد وزن کے جسمانی نشیب و فراز سے اوراعضاء کے اعمال سے جلد واقف ہو جاتا ہے۔ہمارے قوانین زمان و مکان میں ہونے والی تبدیلیوں کا ساتھ نہیں دے پاتے ۔صرف خدا یا ایشور کہہ لو انسانوں کو وہ قوانین دیتا ہے جو زمان و مکان سے ماورا ہیں۔

(یو این این)

   راقم الحروف عالم دین نہیں۔اسلئے علماء کرام سے گذارش کرتا ہے کہ اس سلسلے میں اسلام کے موقف کو میڈیا کے ذریعے اس تفصیل سے بیان کریں کہ کوئی تشنگی باقی نہ رہے۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔07697376137
 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 486