donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Nayab Hasan
Title :
   To Kya Bharat Ko Hindu Rashtra Banana Hai

۔۔۔ توکیا بھارت کوہندوراشٹربناناہے؟


نایاب حسن


    گزشتہ۲۱؍سے لے کر۲۳؍نومبرتک عالمی ہندوکانفرنس کا انعقاد ہوا،جس میں ۴۰؍ملکوں سے ۲۰۰؍سے زائد مذہبی رہنماؤں اورمذہبی نمایندگان نے شرکت کی،اس اجلاس کا انعقادوشو ہندو پریشد(وی ایچ پی) اورہندووں کی عالمی تنظیم ورلڈہندوفاؤنڈیشن کے اشتراک سے ہوا تھا،اس میں مرکزی حکومت کے کئی وزرامثلاً پیوش گوئل اور نرملا سیتارمن وغیرہ بھی شریک ہوئے اور انھوں نے آرایس ایس چیف موہن بھاگوت سے باقاعدہ آشیروادبھی لی،اس سہ روزہ اجلاس کے افتتاحی پروگرام میں وشوہندوپریشد کے سربراہ اشوک سنگھل کا متنازع خطاب ہوا،جو اپنے بڑبولے پن کے حوالے سے ایک عرصے سے مشہور ہیں اور وہ یہ کوشش کرتے رہتے ہیں کہ ان کی شبیہ ایک کٹرہندواوراپنے دھرم کے ’پرچارپرسار‘کے حوالے سے بے لوث کارکن کے طورپربنی رہے،وقفے وقفے سے اُنھیں ہندوتوکا دورہ بھی پڑتا رہتاہے اوروہ کوئی نہ کوئی ایسا بیان دیتے رہتے ہیں،جن سے ان کا اشارہ اس بات کی جانب ہوتا ہے کہ ہندوستان اصل میں ہندووں کا ملک ہے اور یہاں بسنے والے دوسرے مذاہب کے لوگوں کوبھی یاتو اسی مذہب اوراس کی اُسطوری و دیومالائی تہذیب میں ضم ہوجانا چاہیے یاپھرانھیںہمارے رحم و کرم پر رہنا چاہیے،اُنھیں اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے ،سیاست و معاش میں برابری چاہنے اور ہندوستان میں برابرکی شہریت کی دعویداری کاکوئی حق نہیں ہے۔ابھی چند ماہ پہلے جب مرکز میں مودی کی حکومت آئی تھی،توموصوف نے بی جے پی کو انتخابی منشور کی یاد دلائی تھی اورمودی حکومت سے مطالبہ کیاتھا کہ اب جتنی جلدی ہوسکے بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کردینا چاہیے۔واضح رہے کہ ۶؍دسمبر۱۹۹۲ء کوبابری مسجد کی شہادت جن جنونی اورہندوازم کے علمبردارسیاسی و مذہبی رہنماؤںکی سرکردگی میں ہوا تھا،ان میںاشوک سنگھل بھی نمایاں طورپرشامل تھے۔حالیہ اجلاس کے افتتاحی پروگرام میں خطاب کرتے ہوئے انھوں نے مودی حکومت کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے پھرایک راگ چھیڑی ہے اور وہ راگ یہ ہے کہ دہلی میں گزشتہ ۸۰۰؍ سال کے بعد غیوراورقابلِ فخرہندووں کی حکومت آئی ہے؛حالاںکہ اگر وہ کانگریسی حکومت کو چھانٹ بھی دیں(جوکم ازکم ساڑھے ننانوے فیصد ہندووںپرہی مشتمل ہوتی ہے) توخودان ہی کے ہم فکرواجپئی جی بھی دہلی پر حکومت کر چکے ہیں،ایچ ڈی دیوگوڑا بھی تومسلمان نہیں تھے۔اس کے علاوہ ان کی اس بات کے بین السطورپراگرغورکیاجائے،توصاف پتا چلتا ہے کہ وہ ،ان کا پورابھگوا ٹولہ اور ان کے جیسے فاتر العقل لوگ مودی کے مرکز میں اقتدار میں آجانے سے اس خام خیالی میں مبتلا ہوچکے ہیں کہ اب ہندوستان جلد ہی ہندوراشٹرمیں تبدیل ہوجائے گا،یہی وجہ ہے کہ ان کے دماغ میں کلبلانے والے نفرت و انتہا پسندی و تعصب کے بدبودارکیڑے کی سڑانڈان کی زبانوں کے راستے باہر بھی آجاتی ہے،وی ایچ پی ہی کے ’انٹرنیشنل‘ترجمان پروین توگڑیابھی ہیں،جوبزعمِ خویش اپنی ’شعلہ بیانی‘میں مشہور ہیںاوروہ بھی کچھ نہ کچھ بکتے ہی رہتے ہیں۔اشوک سنگھل نے اس اجلاس میں اپنی تنظیم کا نصب العین بیان کرتے ہوئے صاف طورپر کہاکہ اس کا مقصد’اجے ہندو‘بناناہے،یعنی ناقابلِ شکست ہندو،حالاں کہ سنگھل جی نے اس اجے ہندوکی تشریح نہیں کی،ایسا تونہیں کہ اس سے ان کی مرادایسے جنونی ہندوتھے،جوبابری مسجدکی شہادت،حیدرآباد کی مکہ مسجدسے لے کرمالیگاؤںتک کے بم دھماکوں میں ملوث پائے گئے اورجولوگ ملک کی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے تعلق سے یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ ان ہی کی وجہ سے ہندو ستان ترقی نہیں کر رہاہے،اُنھیں پاکستان بھیجاجانا چاہیے اور انھیںہندو تہذیب و ثقافت میں مدغم ہوجانا چاہیے؟سنگھل کی اس تقریر کے دوران آرایس ایس چیف(جن کی قسمت کا ستارہ اِن دنوںبامِ عروج پر ہے اور جن کے ہاتھوں میںاین ڈی اے حکومت کا ریموٹ کنٹرول ہے)موہن بھاگوت بھی موجودتھے۔خود بھاگوت جی نے بھی اس عالمی اجلاس میں جوتقریر کی،وہ بھی کم مضحکہ خیز نہیں ہے،انھوں نے عالمی مشکلات اور مسائل کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ کہا کہ  ہندوسماج کی تاریخ بہت پرانی ہے اورماضی میں بھی ہندووںنے ہی دنیامیں امن و توازن کے قیام میں اہم رول اداکیاہے اوراب(اپنی حکومت آجانے کے بعد)ہندووں کی یہ ذمے داری اور بڑھ گئی ہے،اُنھوں نے کہاکہ دنیا اس وقت بے شمار مشکلات اور مسائل سے دوچارہے اور اُسے ہندوسماج کے اصولِ اخلاق و معاشرت کی ضرورت ہے۔پتا نہیں وہ کون سے ایسے زمانے کویاد کررہے تھے،جب ہندووں کے ذریعے سے عالمی قیادت کاکام ہواتھا؟اوروہ کن اصولوں اور ضابطہ ہاے اخلاق کی بات کررہے تھے؟کیوںکہ برادرانِ وطن کی ماضی کی جوتاریخ ہے،وہ توآپسی کشاکش کی تاریخ ہے،دیومالائی اور اساطیری کہانیوں کی تاریخ ہے،انسانی نسل کی مختلف ذاتوں اور برادریوں کے درمیان انتہائی افسوس ناک حدتک تفریق و امتیاز کی تاریخ ہے اور جواصول و ضوابط ہیں،اولاً تواُن میں سے بیشترانسانی ذہنوں کی نارسائیوںکے نمونے ہیں ،پھران میں سے بھی جو انسانی مفادات سے کچھ وابستگی رکھتے ہیں،ان پر کسی بھی دور میں عمل کیاہی نہیں گیاہے۔یہ وہ حقیقت ہے، جس کا اعتراف غیرجانب دار اور حقیقت پسندہندوبھی کریںگے،وہ ہندو،جواِس دھرم کے اَطراف و جوانب پر بصیرت مندانہ نگاہ رکھتے ہیں۔اب ہم بھاگوت جی کے اس بیان کو کہ موجودہ وقت میں ہندوسماج دنیا بھرکی قیادت کرسکتاہے،خوش فہمی کے علاوہ اور کیا نام دیں گے؟

     حالاں کہ دوسری جانب ایک اور حقیقت سامنے موجودہے،جس سے سنگھل و بھاگوت کی خام خیالی عیاں ہوجاتی ہے اوروہ یہ کہ گزشتہ لوک سبھا الیکشن میں ان کی ٹیم کوپورے ملک سے جوووٹ ملے،وہ ملک بھر کے کل ووٹوں کا محض۲۹؍فیصدتھے،وہ تو جمہوریت کی دعویدارسیاسی پارٹیوںکی منافقت و ناکارگی اور جمہوریت پسند عوام کی بے عقلی و عاقبت نااندیشی تھی کہ اتنے ہی ووٹ لے کربی جے پی۲۸۳؍اوراین ڈی اے کی پوری ٹیم کولوک سبھا کی۳۳۳؍سیٹیںمل گئیںاورمودی مرکزی اقتدارپرقابض ہوگئے۔تواب سنگھل اور بھاگوت بتائیں کہ کیا ہندوستان کا کل ہندوسماج ان کے تصورات و نظریات کی تائید کرتا ہے اور کیاوہ اس شرانگیز مہم کا حصہ بننے کے لیے تیار ہے،جسے چھیڑنے کے لیے وہ پرتول رہے ہیں،بیک سائڈ سے حکومت کی کارروائیوں میں خلل اندازی کرنا، سرکاری اسکیموں میں تبدیلی کروانا،سرکاری منصوبوں کے نام متفقہ سیاسی رہنماؤںکی بجائے انتہا پسند اورہندوتوانظریات کے حامل لیڈران کے نام پر رکھنے کی تجویز،دیناناتھ بتراجیسے مذہبی نرگسیت کے مارے مصنف کی کتابوں کوملک کے نصابِ تعلیم میں داخل کرنے پر زور دینا اور تاریخ کو درست کرنے کے نام پر اسے مسخ کرنے کی کوشش کرنا،کل چھ مہینے کی مدتِ کارمیںوزیرفروغِ وسائلِ انسانی کے ساتھ آرایس ایس ’تھنکروں‘کی چھ چھ میٹنگیں اوراسمرتی ایرانی کو ’ہائی جیک‘کرنے کی کوشش؛یہ سب ملک کوبتدریج ہندوراشٹرکی دلدل میں دھکیلنے ہی کاحصہ تو ہے،جسے آرایس ایس،اس کی اتحادی جماعتیں اور مودی سرکار میں موجودہندوتواذہنیت کے وزرااورکارندے پوری ملی بھگت سے انجام دے رہے ہیں۔یہ لوگ ہندوسماج کی برتری کے نام پربرادرانِ وطن کے دلوں میں ملک کی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے حوالے سے بغض و عداوت کے لاوے پکانا اورانھیں اس بات کے لیے تیار کرنا چاہتے ہیںکہ وہ جب اور جہاں چاہیں،مسلمانوںپرپل پڑیں،اس کام کے لیے انھوں نے ملک بھر کے مختلف خطوں میں اپنے گرگے چھوڑ رکھے ہیں،جویہ کام پوری تندہی سے انجام دے رہے ہیں،ساکشی مہاراج اور یوگی آدتیہ ناتھ جیسے کچھ بی جے پی کے بددماغ ممبرانِ پارلیمنٹ بھی ہیں،جوہمیشہ مسلمانوں کے خلاف کچھ نہ کچھ شوشہ چھوڑتے رہتے اور ہندووں کوبھڑکاتے رہتے ہیں۔

    ایک اور پہلواس عالمی ہندوکانفرنس کا قابلِ توجہ ہے او اس پرخود سنگھل اوربھاگوت اور ان کے گرگوں کوزیادہ توجہ دینی چاہیے،اس کانفرنس میں بہت سارے دھرم گرووں کے ساتھ تبتی بودھ رہنما دلائی لاما کوبھی مدعو کیاگیاتھا،انھوںنے اس اجلاس میں خطاب کے دوران واضح طورپر مذہب کی اس تشریح کی تغلیط کی،جس کے علمبرداربھاگوت،سنگھل اور ان کی جماعتیں ہیں،انھوں نے موجودہ ہندوسماج اور مذہبی رہنماؤں پر تنقید کرتے ہوئے کہاکہ صرف مخصوص اوقات اور مواقع پرپوجا کرلینے کویا پیشانی پرٹیکہ لگالینے کومذہب سمجھ لینا اورمذہب کے اصل معانی و مفاہیم اور اس کی گہرائی و گیرائی میں جانے کی کوشش نہیں کرنا قطعاً ناکافی ہے اورایسے روایتی اور رسمی طریقے سے کسی بھی مذہب کے اثرات عالمی سطح پر تودور،خود اس مذہب کے ماننے والوں میں نہیں محسوس کیے جاسکتے۔انھوں نے اپنی تقریر میں اس بات پر زور دیا کہ موجودہ صدی میںمذاہب کے درمیان سنجیدہ مکالمات کے ذریعے ایک دوسرے کو قریب لانے کا نظریہ تیزی سے اُبھر رہاہے اورعالمی سطح پر قیامِ امن میں یہی نظریہ قابلِ عمل بھی ہے اور مفید بھی۔دلائی لاماکا یہ بیان ہندوسماج کے اُن تمام افراد و اشخاص کے لیے لمحۂ فکریہ ہے،جومذہب کی اصلیت اوراس کے مافیہ سے عوام کو دور رکھنا چاہتے،مذہب کے تحفظ کے نام پرمختلف فرقوںاورمذاہب کے متبعین میںٹینشن پیدا کرتے،فسادات اور خوںریزی کا ماحول بناتے، باباگیری کے پردے میںداداگیری اور بھائی گیری کرتے ہیں۔سنگھل اور بھاگوت جی کو’اجے ہندو‘تیار کرنے اوردنیا ’بھر کی قیادت‘کی بانگ بلند کرنے سے پہلے دلائی لاما کے بیان پررک کرغورکرنا چاہیے،جنھوں نے خودان ہی کے جلسے میں ان ہی کے نظریات کونہ صرف کنڈم کیا؛بلکہ ان کے واہیانہ پن کی بھی صراحت کردی۔

    اشوک سنگھل اور موہن بھاگوت کواُلٹی سیدھی ہانکنے اور ملک کے سادہ لوح برادرانِ وطن کو اُلو بنانے سے بازآنا چاہیے،اب وہ دور نہیں ہے،جب برہمن وادکازورتھا،مذہب اور مذہبیات چند ایک طبقوں میں محدود تھیں،عبادت گاہیں تک منقسم تھیں اورنچلے طبقے کے ہندووںکواعلیٰ ذات والوں کے مندروں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی۔یہ لوگ جس ہندوتہذیب اور سنسکرتی کی بات کررہے ہیں،وہ دراصل وہی صدیوں پیشتر کی مذہبی اجارہ داری کا احیاہے ، اس کے علاوہ اورکچھ نہیں ہے،ان کے جوارادے ہیں،اگروہ روبعمل آجائیں،توان سے نہ صرف اس ملک کے دیگر مذاہب کے ماننے والوں پرعرصۂ حیات تنگ ہوگا؛بلکہ خود ہندووں کے ایک بڑے طبقے کے لیے بھی وہی دور واپس آجائے گا،جوگزشتہ چارپانچ سوسال پہلے تھا۔ملک کے عوام بیدارمغزہیں،وہ چندمفادپرست دھرم گرووں کے کہنے پر اپنی زندگیوںکوداؤپرلگانے کے لیے قطعی تیار نہیںہوسکتے۔پھران کے سامنے توباباؤںکے کرتوت بھی اب روز بروز الم نشرح ہورہے ہیں،سوان حقائق کے ہوتے ہوئے اشوک سنگھل یا بھاگوت یا کوئی بھی ہندوتوکا علمبردار سیاسی یا مذہبی لیڈراگریہ سوچتاہے کہ ہندوستان کو ہندوراشٹرمیں تبدیل کردیں گے اوروہ ہندوازم کے فروغ کے نعرے لگاتاہے،تواسے باشعورہندوستانی بکواس و ہذیان سے زیادہ کچھ بھی نہیں سمجھے گا۔ 

***************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 516