donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Nehal Sagheer
Title :
   Maharashtra Me Muslim Naujawan Aik Bar Phir ATS Ke Nishane Par

مہاراشٹر کے مسلم نوجوان ایک بار پھراے ٹی ایس کے نشانے پر


نہال صغیر ممبئی


ملک عزیز میں اگر کہیں فرقہ پرستی کا زہر سب سے زیادہ پایا جاتا ہے تو وہ ریاست مہاراشٹر ہے۔ یہ صرف کہنے کی باتیں نہیں ہیں ۔ بلکہ یہ ایک دستاویزی ثبوت ہے ۔ حکومت مہاراشٹر نے 2011 میں ایک رپورٹ پیش کیا تھا جس کے مطابق ریاست میں 1998 تا 2008 کے گیارہ سالوں میں 1192 فسادات ہوئے جبکہ اسی درمیان گجرات میں 1114 فسادات ریکارڈ کئے گئے ۔ یہ کہنے کی قطعی ضرورت نہیں کہ حکومتی سطح پر بھی مسلمان تعصب کا شکار ہیں ۔ پولس کے تعصب اور تنگ نظری پر ابھی حالیہ رپورٹ میں ہی کہا گیا ہے کہ مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ پولس تعصب برتتی ہے ۔ جبکہ اس میں سمجھنے والی کوئی چیز نہیں بلکہ یہ روشن حقیقت ہے ۔ اس کے مظاہرے آئے دن پولس کرتی ہی رہتی ہے ۔ اس کے علاوہ بھی کئی رپورٹس ہیں ۔ اس میں ممبئی فسادات 92-93 پر سری کرشنا رپورٹ بھی ہے ۔ جس میں کھل کر پولس کی جانب داری اور تعصب کی طرف نشاندہی کی گئی ۔ ابھی حالیہ دنوں میں ملک میں بم دھماکوں میں کمی آگئی ہے ۔ یہ واضح ہو جائے کہ مسلمانوں کو ٹارگیٹ کرنے کیلئے پہلے فسادات کا سہارا لیا گیا ۔ وہ پرانا ہو گیا تو پچھلی ایک دہائی سے مسلم نوجوانوں کو بم دھماکوں میں فرضی طور پر ملوث کیا گیا ۔ لگتا ہے وہ بھی منصوبہ پرانا ہو گیا ہے ۔ اس لئے پچھلے کئی ہفتوں سے مسلم نوجوانوں کو ایک بار پھر داعش یا آئی ایس آئی ایس کے نام پر ہراساں کرنے کی کارروائی شروع ہو چکی ہے ۔ حالانکہ اے ٹی ایس نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ابھی کسی کو گرفتار نہٰن کیا گیا ہے ۔ لیکن ان نوجوانوں اور ان کے رشتہ داروں سے جو معلومات ملتی ہیں ان سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اے ٹی ایس سیاسی دباؤ میںآ کر اس کوشش میں ہے کہ کسی طرح کسی بھی ایک نوجوان کو عراق والے میٹر میں ملوث کرکے اپنی جان چھڑائی جائے ۔ ماضی میں بھی اے ٹی ایس نے اسی طرح کی کارروائی کی ہے ۔ بالکل سامنے اور کھلی مثال مالیگاؤں مشاورت چوک بڑا قبرستان دھماکہ میں مسلم نوجوانوں کو ملوث کیا جانا ہے ۔ مذکورہ دھماکوں میں سوامی اسیما نند کے اقبالیہ بیان کے باوجود مسلم نوجوانوں کو بری کئے جانے کی اے ٹی ایس نے عدالت میں مخالفت کی ۔ اسی سے یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ اے ٹی ایس میں کس ذہنیت کے افسران موجود ہیں ۔حالانکہ اے ٹی ایس کو ہیمنت کرکرے جیسا ایماندار افسر بھی ملا اور انہوں نے ایمنادارانہ تحقیقات کرکے اے ٹی ایس کے وقار کو بلند بھی کیا ۔ لیکن ملک عزیز میں معاملہ بالکل الگ ہے کہ ہم اپنی فورسز کا مورال بلند ہی نہیں کرنا چاہتے ۔ انہیں پولس کا مورال وہاں ڈائون ہوتا نظر آتا ہے جہاں پر مسلمانوں کو قتل کرنے والے پولس افسران پر کارروائی کی بات کی جاتی ہے۔غالباوہ اس قول پر عمل کرتے ہیں کہ بدنام اگر ہانگے تو کیا نام نہ ہوگا ۔


ایک بات اور جس کی وضاحت ضروری ہے اور وہ ہے کہ جمعیتہ علماء کی جانب سے بم دھماکوں میں فرضی طور پر پھنسائے گئے مسلم نوجوانوں کے مقدمہ کی پیروی کو فرقہ پرستوں اور فاسشٹ پارٹی کی جانب سے تنقید کا سامنا رہتا ہے ۔ لیکن یہ واضح رہے کہ مسلمانوں کی مخالفت صرف فرضی مقدمات میں تعصب کی بنیاد پر پھنسائے گئے مسلم نوجوانوں سے متعلق ہے ۔ مسلمانوں نے کبھی بھی کسی گنہگار کی حمایت نہیں کی ہے ۔ اس کا ثبوت عدالتوں سے باعزت بری ہونے والے بے شمار نوجوان ہیں ۔ جن کے خلاف پولس عدالت میں جرم ثابت کرنے میں ناکام رہی ۔ معاملہ یہ ہے کہ جھوٹ کے پاؤں ہی نہیں ہوتے ۔ کسی جھوٹ کو سچ ثابت کرنا ناممکن ہے خواہ کتنا ہی زور لگا لیا جائے ۔ ہم آئے دن اسی کا مشاہدہ کررہے ہیں کہ فرقہ پرست ساری توانائی لگانے کے باوجود مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی میں ملوث ہونا ثابت نہیں کرپائے۔ ایک نوجوان نے کیمرے کے سامنے یہ کہا تھا کہ اس نے جب تفتیشی ایجنسی کے افسروں کے سامنے یہ کہا کہ ہم لوگ بے گناہ ہیں تو اس افسر نے کہا کہ ’’ہم بھی جانتے ہیں کہ تم بے گناہ ہو لیکن ہم پر دباؤ ہے اس لئے ہم نے ایساکیا ہے عدالت سے تو تم چھوٹ ہی جاؤگے‘‘۔

ہٰذا داعش اور پھر بعد میں القاعدہ کے اعلان کے تناظر میں مسلم تنظیموں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بیدار رہیں اور اے ٹی ایس یا تفتیشی ایجنسی کی جبراً مسلم نوجوانوں کو پھنسانے کی کوشش کامیاب نہیں ہونے پائے اس سلسلے میں ابو عاصم اعظمی نے اے ٹی ایس سربراہ ہمانشو رائے کو مکتوب روانہ کرکے مسلم نوجوانوں کو ہراساں نہ کئے جانے کا مطالبہ کیاہے۔اسی طرح دیگر مسلم قائدین اور تنظیموں کو بھی آگے آنا چاہئے تاکہ مزید نواجوان اے ٹی ایس کی فرقہ واریت اور تعصب کا شکار ہونے سے محفوظ رہیں۔ ہمانشو رائے خواہ دعویٰ کریں کہ وہ صرف تفتیش کررہے ہیں لیکن ان کے افسران نے تبلیغ دین کا کام کرنے والے دین دار نوجوانوں کو اتنا ہراساں کیا ہے کہ انہوں نے پرامن طور پر اسلام کی تبلیغ کی کارروائی کو روک دیاہے۔ جس کے بارے میں ہمارے مقررین دستور کا حوالہ دیکر گلہ پھلا پھلا کر کہتے ہیں کہ ہمیں دستوری آزادی ہے کہ ہم اپنے عقیدے کی تبلیغ کریں ۔لیکن ہم کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح تفتیشی ایجنسیاں دیندار نوجوانوں کو نشانہ بناتی ہیں ۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ انہیں رات کے دو دو بجے تک اے ٹی ایس آفس میں بٹھا کر ذہنی طور پر ٹارچر کیا جاتا ہے ۔ ان کا یہ بھی الزام ہے کہ وہ نوجوانوں پر دوران تفتیش یہ دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ کہیں کہ دعوتی کام کرنے والے کلیان کے ایک شخص نے انہیں داعش جوائن کرنے کیلئے دباؤ ڈالا یا متاثر کیا ۔ لیکن جیسا کہ یہ صحیح نہیں ہے اس لئے نوجوان اس بات سے مسلسل انکار کررہے ہیں ۔ اے ٹی ایس یا دیگر تفتیشی ایجنسی کی مجبوری یہ ہے کہ وہ موجودہ ترقی یافتہ دنیا میں رائج سائنسی تفتیشی طریقہ کار سے نابلد ہیں ۔ ان کے پاس سوائے تھرڈ ڈگری کے اور کوئی چارہ کار نہیں ہے ۔ دنیا ترقی کے کتنے مدارج طئے کرچکی ہے لیکن ہمارا پولس محکمہ ابھی تک صدیوں پرانی ظالمانہ روایت کو اپنائے ہوئے ہے اور اس کی وجہ سے ہماری تفتیشی ایجنسی کو دنیا میں قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا اور نہ ہی ان پر کوئی بھروسہ کرتا ہے ۔ ہمارے سامنے پرتگال سے لائے گئے ابو سالم کی مثال سامنے ہے کہ کتنے شرائط کے بعد پرتگال کی حکومت نے اسے حکومت ہند کو سونپا ۔ آخر ہمارا ملک کب تک تفتیش کی دنیا میں اپنا بہتر مقام بنا پائے گا ؟ یہ کوئی مشکل نہیں لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب  ہمارے افسران تعصب اور تنگ نظری سے دور ہو کر خالص پیشہ ورانہ طریقہ کار اپنائیں ۔ حکومت کو بھی اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ آخر ہم کب تک انگریزوں کے بنائے گئے خطوط پر تفتیشی کارروائیوں کو آگے بڑھاتے رہیں گے ۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اصل مجرم کبھی پکڑ میں نہیں آتا اور غلط لوگوں کو پھنسانے کی وجہ سے ملک کی سب سے بڑی اقلیت کا اعتبارقانون اور دستور کے تئیں مجروح ہوتا ہے۔ جو کسی بھی ملک کے لئے سود مند نہیں کہا جاسکتا ۔ اسے جتنی جلد سمجھ لیا جائے ملک و قوم کے حق میں اتنا ہی  بہتر ہوگا۔


۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 681