donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Nehal Sagheer
Title :
   Shinde Ka Bayan Haq Ki Aawaz Hai Lekin.....

 

شندے کا بیان حق کی آواز ہے لیکن۔۔۔۔
 
نہال صغیر 
 
راجستھان میں کانگریس کے حالیہ چنتن بیٹھک میں سشیل کمار شندے کے بیان کہ آر ایس ایس اور بے جے پی دہشت گردی کے اڈے ہیں اور وہاں دہشت گردی کی ٹریننگ دی جاتی ہے ۔ بظاہر نہ تو یہ بیان نیا ہے اور نہ ہی یہ کوئی ڈھکی چھپی بات ہے ۔ملک عزیز میں انگریزوں کے جانے کے بعد جن کالے آقاؤں نے اقتدار سنبھالا انہوں نے انگریزوں کی بہت ساری خصلت اور عادت کو من و عن اپنے اندر جذب کرلیا یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ان میں بھی یہ سب کچھ موجود تھا ۔مثال کے طور پر جس قومی تفاخر میں انگریز مبتلا تھے وہ کالے انگریزوں یا کالے آقاؤں میں بھی پہلے سے ہی موجود تھیں۔میری مراد اس برہمنی ذہنیت سے ہے جس کو انگریز دم واپسی زمام کار دیکر گئے ۔مولانا آزاد سمیت کچھ ایک مسلم نام والے لوگ تو محض نمائشی کردار تھے جس کی مدد سے کالے آقا ملک کی عوام سمیت عالمی قیادت کو بھی دھوکہ دیتے رہے ۔اس کی ایک وجہ یہ بھی رہی کہ عالمی قیادت خود ایسے لوگوں کے زیر نگیں تھا یا ہے جو خود ہی قومی تفاخر میں مبتلا ہیں ۔ان قومی تفاخر میں مبتلا گروہوں نے اپنے ناپاک عزائم کے لئے جسے سد راہ جانا یا حقیقتاً جو قوت ان کے تفاخر اور انسانیت کے خلاف جرائم کی جڑ کاٹ سکتا تھا یا ہے وہ ہے اسلام اور اہل اسلام ۔لہٰذا انہوں نے آ زادی کے بعد سے ہی مسلمانوں کو چین و سکون نہیں لینے دیا۔ فسادات کا ایک لامتناہی سلسلہ چلتا رہا اس کی مدد سے وہ اسلام اور اہل اسلام کی آگے بڑھنے کی قوت کو متاثر کرتے رہے ۔لیکن نہ تو اسلام کو مٹاپائے اور نہ ہی مسلمانوں کی آبادی تمام تر منصوبہ بندی اور سرکاری سرپرستی کے باوجود کم ہو پائی ۔ہاں انہیں اتنا فائدہ تو ضرور ہوا کہ انہوں نے مسلمانوں کو تعلیمی ،معاشی اور سماجی طور پر پچھڑے پن کے اعصابی تناؤ میں مبتلا کردیا ۔
ملک کی تقسیم اور غیر ملکی انگریزوں کے بعد اسی طبقہ میں سے ایک نے کرتا ٹوپی اور داڑھی لگا کر موہن داس کرم چند گاندھی کا قتل کردیا لیکن اس خبر کو دوپہر کے بعد تک چھپایا جاتا رہا لوگ پورے ملک میں افراتفری میں رہے مسلمانوں میں خوف ہراس پھیلتا رہا لیکن دیسی انگریزوں کو عوام کو یہ بتانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی کہ مذکورہ قتل کس نے کیا ہے ۔دوپہر بعد جب کسی غیر ملکی ریڈیو نے اس راز پر سے پردہ اٹھایا کہ موہن داس کرم چند گاندھی کا قاتل کون ہے اور اس کا کیا نام ہے تب کہیں جاکر آل انڈیا ریڈیو سے بھی قاتل کے نام کا براڈ کاسٹ کیا گیا۔مقصدصاف ظاہر ہے کہ برہمنی ذہنیت کیا گل کھلانا چاہتی تھی ۔
 
جب فسادات کا سلسلہ پرانا ہو گیا اور مسلمانوں کے ساتھ ہی کچھ حق پسند ہندوؤں نے بھی اس پر آواز اٹھانا شروع کیا تو اسی برہمنی ذہنیت جس کی قیادت آر ایس ایس حکومت کی سرپرستی میں کرتی آئی ہے نے دوسرا منصوبہ تخلیق کیا ۔یہ منصوبہ تھا بم دھماکوں کا ۔یہ منصوبہ بھی مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے اور ان کو معاشی اور تعلیمی استحکام سے روکنے کیلئے کارگر ثابت ہوا ۔یہ دوہرانے کی ضرورت نہیں کہ کیا ہوا کرتا تھا اور رد عمل میں کیا ہوا ۔ٹھیک فساد والی پالیسی کی طرح فساد میں نقصان بھی مسلمانوں کا جانی اور مالی دونوں اور اس کے جرم میں گرفتاری بھی 
ان کی ہی ۔یہی سب کچھ بم دھماکوں کے ذریعے بھی ہوتا رہا یا ابھی تک ہو رہا ہے ۔لیکن انگریزوں کو گئے ہوئے 65 سالوں سے زیادہ ہو گیا ہے ۔دنیا میں اس دوران کئی انقلابات آئے ان میں سب سے بڑا انقلابات ہے انفارمیشن ٹکنالوجی کا جس نے ذہنوں کو زیادہ غور فکر کی طرف راغب کیا سو چنے سمجھنے کی صلاحیت لوگوں میں بڑھی ہے ،انہوں نے کسی کی باتوں کو من وعن قبول کرنے سے انکار کردیا نتیجہ یہ ہوا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہو یا بھارت میں نام نہاد مسلم نوجوانوں کے گمراہ ہوکر’’ آتنک وادی گتی ودھیو ں ‘‘میں شمولیت کی بات لوگوں کے گلے پوری طرح نہیں اتری۔یوں تو بھارت میں ذہنی غلامی عروج پر ہے لیکن اس میں بھی برہمنی ذہنیت کی غلامی زیادہ پائیدار ہے خاص طور پر سرکاری عہدوں پر براجمان لوگوں میں جس میں اکثریت اسی سورن ہندوؤں کی ہے جس کی غلامی کی بات کہی گئی ہے ۔لیکن چندایماندار افسروں میں سے انجام کی پرواہ کئے بغیر ایسا جی دار (آنجہانی ہیمنت کرکرے ) سامنے آیا اور سارے مفروضے’’سبھی مسلمان دہشت گرد نہیں لیکن سبھی دہشت گرد مسلمان ہیں ‘‘ کا بخیہ ہی ادھیڑ دیا ۔اس شیر نے انجام کو خاطر میں نہیں لاتے ہوئے وہ کام کیا جو کہ سنگھی خیمہ کیلئے موت کا پیغام ثابت ہوسکتا تھا چنانچہ اسے اس انجام سے دو چار کر دیا گیا جس کا خطرہ اس نے بھی محسوس کر لیا تھا۔لیکن ایماندار آدمی شیروں کی چند روزہ زندگی شان سے جیتا ہے اسے گیدڑ کی سو سالہ زندگی راس ہی نہیں آتی۔یہاں میں ایس ایم مشرف کی کتاب کا ایک حوالہ دینا ضروری محسوس کرتا ہوں جو کہ مشرف صاحب کو روز روز کی کرکرے کی تحقیقات کی خبر کو پڑھکر انکی زندگی کے متعلق خطرے کا احساس ہوا کرتا تھا۔مشرف صاحب ’کرکرے کا قاتل کون؟‘ میں صفحہ نمبر 201 پر لکھتے ہیں’’مندرجہ بالا خبروں کو پڑھتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ ہیمنت کرکرے ایماندارانہ اور حقیقت پسندانہ تفتیش کرنے کے جوش میں نادانستہ طور پر ایک خطرناک منطقے میں داخل ہو رہے ہیں ،جہاں بہادر ترین افسران اور طاقتورترین سیاست داں بھی داخل ہونے سے ڈرتے ہیں ۔میں یہ سوچ کر ہی کانپ جاتا تھا کہ آئندہ کیا واقعہ پیش آسکتا ہے اور پھر دوسرے دن کے اخبارات کا انتظار کرنے لگتا تھا ۔پھر ممبئی پر دہشت گردانہ حملہ ہوا اور پوری تفتیش میں خلل پرگیا ‘‘۔بہر حال بات شندے کے بیان اور ان کے بیان پر ’’چائے کی پیالی میں اٹھنے والے طوفان‘‘ پر ہورہی تھی ۔شندے وزیر داخلہ ہیں ۔وزارت داخلہ حکومت ہندکا وزیر اعظم کے بعد سب اہم عہدہ کہا جائے تو بیجا نہیں ہے کیوں کہ ملک کی داخلی سلامتی کی ذمہ داری اسی پر ہے ۔انہیں جب معلوم ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی دہشت گردی فروغ دینے والے ادارے ہیں ۔بقول شندے اس کے خلاف کافی و شافی شہادت موجود بھی ہے ۔اس ثبوت کیلئے انہوں نے ان دس لوگوں کی فہرست جاری بھی کردی ہے ۔جن کا نام میڈیا کے ذریعہ عوام کی کوفت کا سامان بن چکا ہے عوام کی کوفت اس لئے کہ عوام ان ناموں کوسن کر بور ہو چکے ہیں ۔کوئی قابل ذکر کارروائی نہیں ہو رہی ہے۔یعنی شندے نے جو کچھ کہا وہ عوامی معلومات میں اضافہ کا سبب نہیں بن سکا ۔ان دس ناموں میں بھی کئی اب تک فرار ہیں ۔یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ جو لوگ فرار ہیں وہ کن کی شہہ یا اشاروں پراور کس کی مدد سے فرار ہیں۔بیدار ذہن لوگ سب جانتے ہیں۔
 
قارئین کی یادداشت کو میں اتنی کمزور بھی نہیں مانتا کہ وہ دو چار ماہ قبل کی باتیں بھی بھول جائیں ۔ابھی چند ماہ قبل آر ایس ایس کے چیف موہن بھاگوت نے کہا تھا کہ سنگھی ہر پارٹی میں اورہر جگہ ہیں ،انہوں نے کانگریس کا بھی نام لیا تھا اور کہا تھا کہ کانگریس میں بھی سنگھی ہیں 
 
۔لیکن کسی کانگریسی نے اس بات کی تردید نہیں کی ،کریں بھی کیوں ؟یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ کانگریس اور بی جے پی میں کچھ فرق ہے تو صرف اتنا کہ بی جے پی مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتی ہے اور کانگریس کی حکومت اس پر عمل کرتی ہے ۔یہ سلسلہ 65 سالوں سے بھی زیادہ عرصہ سے جاری ہے ۔اتنی لمبی بات کرنے کا مطلب یہ ہے کہ شندے بھی کانگریس کی طرف سے اسی خیمہ میں شامل ہوگئے ہیں جس میں پہلے ہی سے دگ وجئے سنگھ جیسے لوگ شامل ہیں ۔یہ بات پہلے ہی کہی جاچکی ہے کہ جب کوئی طریقہ پرانا ہوجاتا ہے تو نیا طریقہ ڈھونڈا جاتا ہے ۔ٹھیک اسی طرح چہرے بھی جب پرانے ہو جاتے ہیں وہ اپنی جاذبیت یا تاثیر کھو دیتے ہیں تو نئے چہرے متعارف کرائے جاتے ہیں ۔دگ وجئے سنگھ پرانے ہوگئے تھے اور انکی جاذبیت ہی نہیں الفاظوں کے اثرات بھی ختم ہو تے جارہے تھے اس لئے شندے کو میدان میں اتارا گیا کہ شایدوہ کانگریس کی ڈوبتی کشتی کیلئے کچھ کر پائیں ۔اس لئے جو لوگ شندے کے بیان کو بیان کرکے بغلیں بجا رہے ہیں اور کانگریس کی سیکولرزم اور جمہوریت کے قصیدے گا رہے ہیں ۔ان میں ہو سکتا ہے کچھ لوگ سادہ لوح ہوں ورنہ اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو محض کانگریس کی چاکری کے تحت اپنے فرائض کی تکمیل کررہے ہیں۔
 
خوشگوار پہلو یہ ہے کہ اردو اخبارات میں اکثر نے ان کے بیان پر تنقید کرتے ہوئے یہ رخ اپنایا کہ ’’یہ باتیں پرانی ہو گئی ہیں کارروائی کیجئے تو کچھ بات بنے‘‘جو کہ اردو اخبارات کی مشن سے وابستگی کا ثبوت ہے ۔اس میں بھی استثنائی صورت حال ہے ۔ چند اخبارات تو ایسے بھی ہیں کہ وہ اب بھی کانگریس کے گن گان میں ہی اپنی عاقبت کو سدھرتا ہوا پاتے ہیں۔ کیا کریں بیچارے ان کا اخبار جاری ہے ہی اس وجہ سے کہ کانگریس کی ان پر نظر کرم ہے ۔اسی لئے انہیں اکبر الدین اور اسد الدین جیسے بیباک لوگ جس علاقے سے چنے جاتے ہیں وہاں کی عوام ان کو جاہل انپڑھ اور گنوار نظر آتی ہے ۔ایک کالم نگار نے صحیح لکھا ہے کہ وہ صاحب بھی اسی ان پڑھ جاہل گنوار علاقے میں رہتے ہیں ۔کیا کریں بھائی انکی مجبوری ہے ۔2002 کے گجرات فساد میں پاش علاقے میں احسان جعفری کا حشر دیکھ چکے ہیں اس لئے ایسے لوگ نہ کانگریس کو چھوڑ سکتے ہیں اور نہ مسلمانوں کے جاہلوں اور گنواروں کی بستی کو، کیوں کہ اس بات سے تو وہ بھی واقف ہیں کہ چاہے وہ کچھ بھی کرلیں لیکن جب فسادات کا دور آئے گا تو ان کی مسلم دشمنی بنام سیکولرزم بھی انہیں نہیں بچاپائے گی۔ابھی دو روز قبل ہی تو شیو سینا کی حکومت میں مسلم نام والے ایک سابق وزیر کی عبرتناک حالت اردو میڈیا میں آئی تھی ۔اس بے چارے نے شیو سینا کی حکومت میں وزارت پانے کیلئے کیا کچھ نہیں کیا ہوگا ،لیکن آخری وقت میں بے گھر بھی ہوئے اور کسی نے انسانی ہمدردی کے تحت اپنی ذمہ داری یوں نبھائی کہ انہیں اولڈ ایج ہوم میں چھوڑ آیا ۔ایسا ہی ایک واقعہ میرے ایک دیرینہ صحافی دوست نے بتایا کہ شیوڑی میں ممبئی فسادات92-93 میں ایک مسلمان نام والے شخص کو شیو سینا کے غنڈے قتل کرنے کی نیت سے جب مار رہے تھے تو اس نے کہا کہ میں ’’شیو سینک ہوں ‘‘ شیو سینک غنڈوں نے جواب دیا کہ’’ تو کیا ہوا تو مسلمان تو ہے نا‘‘ ۔یہ لوگ تو کفار مکہ سے بھی زیادہ سخت ہیں وہ تو بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ وہ الہٰ واحد کا کلمہ پڑھنے سے باز آجائیں ،یعنی اس کے بعد انہیں ستایا نہیں جائے گا ۔پر یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ اس کلمہ کا کیا پتہ نہیں ان لوگوں نے کیا کیا نہیں چھوڑا ہوگا پر جان بخشی پھر بھی نہیں ہوئی۔
 
مختصر یہ کہ شندے بھی کانگریس کے مہرے ہیں ۔اس بات پر مجھے ایک دلت رہنما وامن میشرام کی ایک بات یاد آگئی ،انہوں نے ایک بار کہا 
تھا کہ دلت ہوں یا مسلمان یہ لوگ آپ کے نمائندے نہیں ہیں بلکہ یہ آپکے درمیان پارٹی کے نمائندے ہیں ۔وہ آپکی بھلائی کیلئے کچھ نہیں کریں گے یہ بس آپ سے پارٹی کے حق میں ووٹ لیکر پانچ سالوں تک نظر نہیں آئیں گے ،یہی کچھ پچھلے 65 سالوں سے ہورہا ہے ۔وامن میشرام نے ہی ایک بار کسی اور جلسہ میں یہ کہا تھا کہ مسلمان اس وقت تک کیلئے ووٹ دینا بند کر دیں جب تک وہ پوری قوت (سیاسی ،تعلیمی اور معاشی)سے لیث نہ ہو جائیں ۔اس کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ابھی تک مسلمان دباؤ میں ہیں اور دباؤ میں لیا گیا فیصلہ نقصاندہ ہی ہوتا ہے ۔انہیں باتوں کے مدنظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر شندے کا بیان کانگریس کی کوئی ووٹ بینک کی چال نہیں ہے تو یو پی اے کی حکومت جس کی سربراہی کانگریس کر رہی ہے اسے چاہئے کہ وہ آر ایس ایس اور بی جے پی سمیت پورے سنگھی نیٹ ورک پر کامبنگ آپریشن کرے اور اس کے دہشت گردانہ کیمپ کو پورے بیخ و بن سے اکھاڑ دے یہی ایک صورت ہو سکتی ہے ہندوستان کی سالمیت اور استحکام کو برقرار رکھنے کی ورنہ باتیں تو خوب ہوتی رہتی ہیں اور کارروائی کے نام پر صرف مسلم نوجوانوں کے خلاف غیر منصفانہ اور ظالمانہ کارروائی کرکے مسلم امہ کی حوصلہ شکنی تو کی ہی جارہی ہے ۔اور ایسا آزادی کے بعد سے ہی ایک غیر اعلان شدہ ایجنڈے کے تحت سرکاری سرپرستی میں ہو رہا ہے ۔
 
نہال صغیر۔ موبائل:9987309013
کیراف :رحمانی میڈیکل 
سلفی گلی نمبر 3 ،گاندھی نگر ،چارکوپ
کاندیولی(مغرب) ممبئی 400067  
++++
Comments


Login

You are Visitor Number : 751