donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Noor Md Khan
Title :
   Aqliati Amoor Ki Wazeer Najma Heptullah Ke Naam Khula Khat

نور محمد خان ممبئی

 

اقلیتی امور کی وزیر نجمہ ہپت اللہ کے نام کھلاخط

 

کرپشن و بدعنوانی، ظلم و ناانصافی کا خاتمہ ، اور عوام کے اچھے دن آنے والے ہیں کی آواز میں آواز ملا کر عوام نے لبیک کہا جس کی وجہ سے بھاجپا کو عوام نے  کامیابی سے ہمکنار کیا ملک کے وزیر اعظم نریند مودی جی عوام سے کئے گئے وعدوں کو ارتقائی منازل کی جانب پیش قدمی اور ملک کی اقتصادی و تجارتی معاشی کی ترقی کے لئے غیر ملکی دورہ کررہے ہیں تاکہ عوام کو تمام تر در پیش مسائل سے نجات حاصل ہو سکے ۔ اس اقدام کا ہم استقبال کرتے ہیں ہندوستان کی اقلیتوں میں ایک مسلمان قوم بھی ہے جس نے ملک کی آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اس ملک کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کروایا آج جنگ آزادی کے مجاہدین کی قوم یعنی کہ آزادی کے 67 برسوں میں مسلمانوں کی حالت دلتوں اور پچھڑی ذاتوں سے بھی بدتر ہوگئ وزیر صاحبہ آپ کے ذہن میں یہ بات بازگشت کررہی ہوگی کہ "گزشتہ 67 برسوں میں (بی جے پی) کی حکومت نہیں تھی بلکہ سیکولر حکومت تھی اورسابقہ حکومت کو اقتدار کی دہلیز پر پہنچانے میں مسلمانوں کا اہم کردار تھا تو ایسی صورت میں مسلمانوں کی حالت دلتوں اور پچھڑی ذاتوں سے بھی بدتر کیوں ہو گئی؟اس سوال کے پس منظر میں گزشتہ 67 سالہ مسلمانوں کی المناک داستان پیش خدمت ہے ملاخطہ فرمایئے_

آزاد ہند کی تاریخ میں مسلمانوں کی المناک داستان کو قلمبند کرنے میں دو واقعات نے اہم کردارادا کیا ہے اول بابری مسجد میں بت رکھنے سے لیکر شہادت تک دوئم آزادی سے تادم تحریر فسادات اور بم دھما کوں تک ہر محاذ پر مسلمانوں کو مشق ستم بنایا گیا ہے ۔ ہند و پاک تقسیم کے دوران ہندی مسلمانوں نے ہندو ستان کو ترجیح دیتے ہوئے اسی ملک میں رہنا پسند کیا کیونکہ اس ملک سے بزرگوں کا اہم ترین رشتہ تھا لیکن ایسی کون سی خامیاں تھیں کہ مسلمانوں کے ساتھ ظلم و جبر اور نا انصافی کا جانبدارانہ رویہ اختیار کیا جانے لگا؟ انگریزوں کے زمانے میں بھی فسادات ہوا کرتے تھے اور انگریزوں کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کے بعد بھی ملک میں فسادات ہوتے رہے تمام فسادات کو بالائے طاق تو نہیں رکھا جا سکتا لیکن جمہوریت میں جن فسادات پر مبنی جانچ کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا تھا اس پر غور و فکر کیا جا سکتا ہےحالانکہ فسادات پر درجنوں کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا لیکن ہم صرف چنندہ کمیشن کا ذکر کرتے ہیں 15 اگست 1947 کو ملک آزاد ہوا 26 جنوری 1950 میں آئین کا نفاذ عمل میں آیا اسکے بعد رانچی میں 1967 میں منظم فسادات پر مبنی جسٹس رگھویر دیال کی قیادت میں جانچ کمیشن تشکیل دی گئی تاکہ خاطی لوگوں پر سخت سے سخت قانونی کارروائی کی جا سکے لیکن ایسا نہیں لگتا ہے کہ  خاطی افراد پر قانونی کارروائی کی گئی ہو۔ جس سے مستقبل میں فسادات نہ ہونے کے لئے ٹھوس اقدامات اور لائحہ عمل مرتب کئے گئے ہوں ۔ بہر حال مناسب اقدامات نہ کئے جانے کی وجہ سے فسادات کرانے اور کرنے والوں کو آزادی مل گئی اور فسادات کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا اسی کے ساتھ ساتھ کمیشنوں کا قیام اس قدر عمل میں لایا گیا گویا ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ مسلمانوں کی ترقی میں چار چاند لگ گئے ہیں۔ یہاں ایک بات کہنا ضروری ہے کہ سابقہ اور موجودہ حکومت کو ملک کی سالمیت اور یکجہتی کی فکر ہوتی تو فساد متاثرین کو انصاف ملتا اور فسادیوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا۔ تب نہ ہی ملک میں فسادات ہوتے اور نہ ہی کسی جانچ کمیشن کی تشکیل کی ضرورت محسوس ہوتی! رہی بات مسلمانوں کے فلاح و بہبود کی تو برسوں سے کانوں میں لوہا پگھلا کر ڈالنے کی مصداق ہر سیاسی تقریر میں سنتے چلے آرہے ہیں کہ مسلمانوں کی ترقی کے لئے پندرہ نکاتی پروگرام کا آغاز کیا جارہا ہے جو مسلمانوں کی پسماندگی دور کرنے میں موثر ثابت ہو گی اب ایسی صورت میں حکومت ہی جانے کون سا پروگرام اور کتنے مد کا تھا کہ مسلمان اس قدر ترقی یافتہ ہوگیا کہ  2005 تک مسلمانوں کی حالت بقول سچر کمیشن کے دلتوں اور پچھڑی ذاتوں سے بھی بدتر ہوگئی_

چنانچہ مذکورہ تحریر کا مقصد مسلما نوں کی حالت اور وقف بورڈ کی ملکیت سے ہے کیونکہ حکومت ہند نے محترمہ نجمہ ہپت اللہ کی قابلیت اور صلاحیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اقلیتی امور کا وزیر بنایا ہے اور حکومت آئین و قوانین کے تحت اقلیتوں کی فلا ح و بہبود کے لئے پابند ہے_

سچر کمیٹی کی سفارشات اور رپورٹ کے مطابق ہندوستان کے 27 اضلاع میں چار لاکھ سے زائد وقف کی املاک موجود ہے وقف کی ملکیت پر سرکاری و غیر سرکاری قبضہ ہے علاوہ ازیں ملکیت کی حفاظت کرنے والے حضرات بشمول مسلمانوں نے بھی کوئی کسر باقی نہیں رکھی ۔ دوسری طرف ریاستی اور مرکز کی حکومتوں نے بھی مسلمانوں کے ملی مسائل کو وقف بورڈ کی آمدنی کے ذریعے حل کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ املاک کو نقصان پہنچا کر امیروں کی فہرست میں شامل ہو گئے ۔ حکومت اور ذمہ داران کی لاپرواہی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے اگرآپ کو اس بات کا علم ہو گا کہ مغربی بنگال اسمبلی نے 1981 میں ٹھیکہ اینڈ اور ٹینینسز اینڈ لینڈز (ایکویزیشن اینڈ ریگو لیشن) ایکٹ نافذ کیا تھا جو ٹھیکہ ایکٹ کے نام سے جانا جاتا ہے اس ایکٹ میں 2001 میں ترمیم کی گئی تھی اس ایکٹ کی مہربانی سے وقف املاک کی بڑی تعداد کے کیرائے دار اس جگہ کے مالک بن گئے حالانکہ اس ایکٹ سے حکومت اور میونسپل کی جائیداد کو مستشنی کردیا گیا لیکن یہ سہولت وقف املاک کو فراہم نہیں کی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وقف بورڈ کو کافی املاک اور آمدنی سے ہاتھ دھونا پڑا_

اب نیشنل کیپیٹل ٹیریٹری کا مطالعہ کریں تو معلوم یہ ہوگا کہ دہلی شہر کی توسیع و تعمیر کے لئے 1911سے 1915 کے درمیان کافی اراضی حاصل کی گئی جس میں وقف بورڈ کی املاک بھی شامل ہیں 1940 میں 42 معاملات میں حکومت ہند نے سنی مجلس اوقاف (وقف بورڈ کا پیشرو) کے ساتھ انفرادی معاہدے کئے جسکی وجہ سے انہیں املاک کو مذہبی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی اجازت مل گئی ۔ دہلی گزٹ نے 1970 میں ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے ان املاک کی ایک بڑی تعداد بشمول ان املاک کے معاہدے میں شامل نہیں تھا، وقف کی املاک قرار دے دیا گیا لینڈ ڈیولپمنٹ آفیسر اور دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی دونوں نے وزارت برائے شہری ترقیات، حکومت ہند کے تحت اس فیصلے کو دہلی کی عدالتوں میں چیلنج کیا اور 300 سے زائد مقدمات داخل کیے گئے_1974 اور 1984 کے درمیان چار اعلیٰ اختیاراتی کمیٹیوں نے فریقین کے درمیان ان تنازعات کا معائنہ کیا اور اس معاملے کی جانچ ایک وزارتی گروپ نے کی جس میں 6 کابینی وزیر شامل تھے افسران کی ایک کمیٹی نے جس میں منسٹری آف ورکس اینڈ ہاؤسنگ، وزارت امور داخلہ، دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی، لینڈ اینڈ ڈیولپمنٹ افسر اور دہلی وقف بورڈ کے نمائندگان شامل تھے تمام لوگوں نے وقف املاک کا معائنہ کیا اور دہلی کی ترقی کے لئے درپیش ضرورتوں کے سیاق و سباق میں ہر جائیداد کا تجزیہ کیا انھوں نے اس کی تصدیق کی کہ 123 املاک کے معاملے میں یہ واضح تھا کہ انہیں وقف املاک کے زمرے میں ڈالا جاسکتا ہے اور یہ شفارش بھی کی کہ ان املاک کو وقف بورڈ کو سونپ دیا جائے_حکومت ہند نے 31 جنوری 1984 کو کمیٹی کی سفارشات کو منظوری دی اور 123 املاک کو (61 املاک ایل اینڈ ڈی او اور 62 املاک ڈی ڈی اے کے قبضے میں تھیں) منتقل کرنے کا حکم دیا ان 123 املاک کے علاوہ کمیٹی آفیسرز نے پایا کہ 40 دیگر املاک جو کہ وقف املاک تھیں سرکاری املاک کے اندر جیسے عوامی پارک وغیرہ واقع تھیں اس وقت طے کیا گیا کہ ان املاک کے تعلق سے حکومت کی ملکیت برقرار رہے گی لیکن وقف بورڈ کو انہیں وقف املاک کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت ہوگی

مندرجہ بالا مختار ناموں، معاہدوں کے باوجود ایک رٹ پٹیشن کے نتیجے میں دہلی ہائی کورٹ نے 1984 میں ان املاک سے متعلق اسٹیٹس کو برقرار رکھنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کا ان پر بدستور قبضہ برقرار رہنا چاہیے_ یونین آف انڈیا نے ہائی کورٹ کو دیے گئے جواب میں اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ نوٹیفایڈ وقف املاک کی مکمل جانچ پڑتال اور جگہ کی تصدیق کے بعد صرف اس طرح کی املاک کو دہلی وقف بورڈ کو منتقل کرنے کا حکم دیا گیا تھا جو حسب ذیل ہے_1 نوعیت میں واضع طور پر وقف ہیں 2 عوامی استعمال کے لئے ضرورت نہیں 3 متصل سرکاری عمارتوں سے واضح طور پر الگ کیا جاسکے 4 دہلی وقف بورڈ کو وقف املاک کی منتقلی موثر مینجمنٹ اور رفاہ عامہ کے لئے ہے 5 وقف جو جگہ پر موجود نہیں لیکن گزٹ میں نوٹیفایڈ کیا گیا ہے کو نظر انداز کر دیا گیا ہے_چنانچہ حکومتی ایجنسیوں اور دہلی وقف بورڈ کے درمیان تمام تنازعات ختم کر دیے گئے تھے اور تمام زیر التوا مقدمات دونوں پارٹیوں کی جانب سے واپس لینے تھے کہ 6 جون 1984 کو عارضی اسٹے کی وجہ اس ضمن میں کوئی اقدام نہیں کیا جا سکا_ اسی طرح مہاراشٹر، اترپردیش، مغربی بنگال جیسے اکثریتی علاقوں کی وقف جائیداد کا برا حال ہے اور ان ریاستوں میں وقف کی املاک کو نقصان پہنچانے میں حکومت اور اس کے نمائندوں کے علاوہ بورڈ کے ذمہ داران نے اہم کردار ادا کیا ہے بلکہ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام جائیدادوں کی تفتیش ہونی چاہئے اور نشاندہی بھی ہونی چاہئے جس سے عوام کو معلوم ہو سکے گا کہ وقف کی املاک کتنی ہے اور اس کے فوائد کس کے لئے ہیں

آخری بات یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالٰی نے جس طرح سے زکوۃ خیرات و صدقات ادا کرنے کا اور بیت المال کے قیام کا ذکر کیا ہے تا کہ غریب یتیم بے سہارا مجبور لوگوں کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے اسی طرح اسلامی نقطہ نظر سے وقف بورڈ کے اغراض و مقاصد بھی بیان کیے گئے ہیں وطن عزیز میں مسلمانوں کا ایک طبقہ ایسا ہے جو مختلف مسائل سے دوچار ہے لیکن اس ضمن میں مسلم قیادت اپنے فرائض کو انجام دینے سے قاصر ہے وقف بورڈ کی ملکیت سے ہونے والی آمدنی جس سے مسلم بچوں کو تعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے کالجوں، یونیورسٹیوں، لائبریری، ہاسٹل، کھیل کود کے میدان کا قیام، ضرورتمند مریضوں کے لئے ہسپتال، مطلقہ و بیوہ خواتین اور ان کے بچوں کے کفالت کے ذرائع مہیا کرنا، فسادات اور قدرتی آفات سے متاثر مسلمانوں کی امداد، تعلیم یافتہ بچوں کو وظیفہ، نوجوان لڑکیوں کی شادی بیاہ کا اہتمام، یہ سب ملک کے پسماندگان غریب بے سہارا مجبور مسلمانوں کے لئے تھی ۔ جس کی ذمہ داری کا فرض وقف بورڈ کے ارکین پر تھا لیکن افسوس کی بات ہے کہ وقف بورڈ کے نگہبان یتیموں اور مسکینوں سے بھی زیادہ مجبور نکلے وقف بورڈ کے وزارت اعظمی سے لیکر ادنیٰ درجے کے رکن تک تمام لوگوں نے حقوق العباد کے زمرے میں آنے والا مال خوب اڑایا ۔

ملک کی 27 ریاستوں میں جہاں وقف بورڈ کی املاک موجود ہیں وہاں کے مسلمانوں کی حالت تشویشناک ہے کیونکہ مسلمانوں کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو گداگروں کی صف میں شامل ہے نوجوان لڑکوں کی تعداد جیلوں میں سب سے زیادہ ہے مطلقہ وبیوہ خواتین اور نوجوان لڑکیوں کا ایک طبقہ قحبہ خانہ، شراب خانہ و طوائف گاہوں کی زینت بن گئی ہیں ایسی صورت میں حکومت کی رقوم سے زیادہ بہتر وقف بورڈ کی املاک اور اس سے ہونے والی آمدنی تھی جس کا استعمال اس مد میں خرچ کیا جاتا تو مسلمانوں کی حالت دلتوں اور پچھڑی ذاتوں سے بھی بدتر نہ ہوتی اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت وقف بورڈ کی ملکیت کو سرکاری وغیر سرکاری قبضے سے آزاد کرانے میں اور املاک کی تباہی و بربادی کرنے والوں پر کاروائی کرنے میں کہاں تک کامیاب ہوتی ہے ۔ اس بات کا علم صرف ارباب اقتدار کو ہے؟محترمہ وزیر صاحبہ سے یہ امید بر آئی ہے کہ اقوال زریں کا ایک قول ہے کہ ہمیشہ اپنے سے چھوٹوں کا خیال کرو بڑوں کو دیکھو گے تو سکون غارت ہو جائے گا کیونکہ وہ مجبوری مفلسی کا شکار ہیں اور ہو سکتا ہے کہ مضمون نگار بھی شکار ہو۔  لیکن کل آپ بھی ہوسکتے ہیں تو کیا آپ اپنے سے چھوٹے کا خیال رکھنے کے لئے تیار ہیں؟ 9029516236

ٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌ۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 502