donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Obaidullah Nasir
Title :
   Gujrat Ka Insdad Dahshat Gardi Qanoon

دستاب بچانے کی بہت فکر تھی اس کو

سرکو  بھی بچانا ہے مگر یہ نہیں سوچا

-       نواز دیوبندی    

 

گجرات کا انسداد دہشت گردی قانون


عبیداللہ ناصر


پہلی بار صدر  جمہوریہ  ڈاکٹر اے پی  جے عبدالکلام اور دوسری بار  محترمہ  پرتبھا پاٹل نے حکومت گجرات  کا انسداد دہشت گردی بل منظور کرنے  سے انکار کردیا تھا لیکن حکومت گجرات نے بھی جیسے ضد پکڑ لی ہے کہ وہ یہ قانون نافذ کرکے ہی دم لے گی اور اسی جذبہ کے تحت گذشتہ دنوں گجرات اسمبلی نے پھر اس بل کو منظوری دی چونکہ مرکز میں  بی جے پی کو مکمل  اکثریت حاصل ہے اور یہ بل وزیر اعظم نریندر مودی کا ہی تیار کیا ہواہے اس لئے حکومت گجرات کو امید ہے کہ اس بار صدر  جمہوریہ اسے پہلی بار ہی میں منظوری  دے دیں گے اور اگر انہوں نے پہلی بار  میں اسے مرکز ی کابینہ کو واپس کردیا تو وہ دوبارہ  اسے صدر جمہوریہ کو بھیج سکتی ہے اور پھر صدر جمہوریہ کے پاس اور کوئی راستہ نہیں بچے گا کہ وہ اسے منظوری نہ دیں ہاں اگر وہ تھوڑی ہمت دکھائیںتو  بل کو قانونی صلاح و مشورہ کے لئے سپریم کورٹ بھیج سکتے ہیں  ۔ گجرات  حکومت کی یہ ضد کچھ کچھ ویسی ہی ہے جیسی سابقہ باجپئی حکومت کی پوٹا(Pota) کے سلسلہ میں تھی اور  راجیہ سبھا میں اکثریت  نہ ہونے کی صورت میں دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس  بلاکر اسے منظور کرایا   گیا تھا اس قانون کا کتنا بے جا اور بے ہودہ استعمال ہوا تھا  اس کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتاہے کہ گجرات کے اکشر  دھام  مندر پر ہوئے  حملے کے ملزموں پر اس قانون کے تحت  بھی فرد جرم عائد کی گئی تھی اور   ذیلی عدالت سے ہی نہیں گجرات  ہائی کورٹ تک سے انہیں پھانسی  کی سزا ہوگئی تھی لیکن سپریم کورٹ نے نہ صرف ان سب کو بری کردیا بلکہ یہ تلخ تبصرہ بھی کیا تھا کہ اس وقت  کے گجرات کے  وزیر داخلہ(نریندر مودی) نے ملزمان پر پوٹا   لگاتے وقت  اپنے دماغ کا استعمال  ہی نہیں کیا تھا ۔ لیبریشن ٹائیگرس کی حمایت کرنے پر جے للیتا نے وائیکو کو بھی اس قانون کے تحت جیل بھیج دیا تھا۔2004 میں منموہن سنگھ کی   قیادت میں بننے والی حکومت نے اس   اندھے قانون کو ختم کیا تھا۔

 بی جے پی اور حکومت گجرات کا کہنا ہے کہ کانگریس کی حکمرانی والی  مہاراشٹر اور دیگر ریاستوں نے بھی اسے ہی قانون بنائے ہیں اور کانگریس کی مرکزی حکومتوں کے کہنے پر صدر جمہوریہ نے ان سب کو منظوری  دے دی جبکہ  گجرات حکومت کے ایسے ہی قانون کو دو دوبار مسترد کیا جاچکاہے بی جے پی اس شکایت کے جواب میں کہا  جاتاہے کہ ان ریاستوں نے اپنے اپنے یہاں منظم جرائم کی روک تھام کے لئے یہ قانون بنائے ہیں جبکہ گجرات کے قانون  میں دہشت گردی کو بھی شامل کیا گیا ہے  جو کسی  ریاست میں امن عامہ کا نہیں بلکہ ایک ملک گیر مسئلہ ہے اس لئے کوئی ریاست اس کے لئے الگ  قانون نہیں بنا سکتی  ۔ واضح ہو کہ  منموہن حکومت نے دہشت گردی سے نپٹنے کے لئے ایک ایسے  ادارے(NCT) کی تشکیل کا منصوبہ بنایا تھا جس کے ذریعے دہشت گردی کے معاملات  میں اطلاعات کی ادلا بدلی اور کارروائی کا مرکزی نظام تیار ہوتالیکن بی جے پی اور دیگر پارٹیوں  نے اسے ریاستوں کے دائرہ اختیار  میں مرکز  کی مداخلت  قرار دے کر  سخت مخالفت کی تھی اس مخالفت میں نریندر مودی جی بحیثیت  وزیر اعلا گجرات  پیش پیش تھے مرکزی  حکومت   چاہے تو وہ اس ادارے کو ٹھنڈے   بستے سے نکال کر ضروری ترمیم  اور جوازوں کے ساتھ دوبارہ   تشکیل کر سکتی ہے  ۔

 حکومت گجرات کا کہناہے کہ اس کی لمبی  سرحد پاکستان سے ملتی ہے جہاں سے ہندوستان کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیوں کو کنٹرول  کیا جاتاہے اس کے علاوہ  یہ بھی اطلاعات ہیں کہ منظم جرائم  کرنے والے گروہ دہشت گردوں سے بھی سانٹھ گانٹھ  کر لیتے ہیں اور دہشت گردی کی چھوٹی موٹی  وار داتیں بھی  کر دیتے ہیں چونکہ  منظم جرائم   والے گروپ  گجرات میں سر گرم ہیں اس لئے اس  قانون  کی  سخت  ضرورت ہے تاکہ ان کی حرکتوں کو روکا جاسکے اور کوئی واردات نہ ہوسکے۔

 اس خوفناک   بل میں کئی  خوفناک جوازوں  کو رکھا گیاہے مثلاً اگر کوئی ملزم کسی پولیس  افسر کے سامنے کوئی جرم قبول کرلے تو اسے عدالت میں بطور ثبوت پیش کیا جاسکتاہے اب پولیس کیسے جرم قبول کراتی ہے یہ اظہر  من الشمس ہے اسی لئے  صرف  مجسٹریٹ کے سامنے دیا گیا بیان ہی عدالت میں بطور   ثبوت قبول کیا جاتاہے  دوسرا اہم جواز   ٹیلی فون  ٹیپ کرنے کا ہے اور فرد جرم  دائر کرنے کی مدت  90 دنوں سے  بڑھا کر180 دن  کردینا ہے۔ ان جوازوں کے مد نظر یہ بات   یقین سے  کہی جاسکتی ہے کہ اگر  صدر جمہوریہ کابینہ کے دباؤ میں اسے منظوری  دے بھی دیں گے تو اگر اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے  تو وہ اسے قبول نہیں کرے گا  کیونکہ یہ ہندوستانیوں کے بنیادی حقوق پر ڈاکہ   ہے جس کی اجازت کسی  کو بھی  نہیں دی گئی ہے ۔ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اور یہاں آئین اور قانون  کی حکمرانی ہی  چل سکتی ہے کسی  پارٹی  یا فرد واحد  کی  من مانی نہیں ۔ بیشک دہشت گردی   ایک قومی بلکہ عالمی  مسئلہ ہے اور اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کے ساتھ کوئی رورعایت نہیں کی جانی  چاہئے لیکن دہشت گردی سے لڑنے کے لئے کسی حکومت کو بھی دہشت گرد بن جانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی  اسی  لئے اس قانون  کو صدر جمہوریہ اور پھر سپریم کورٹ کی منظوری ملنا مشکل ہی نہیں مشکل ترہے۔

(یو این این)

مضمون نگار روزنامہ قومی خبریں لکھنؤ کے ایڈیٹر ہیں


***************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 441