سلطنت دس بدست آئی ہے
جام مے خاتم جمشید نہیں
- غالب
مفتی کی سوچی سمجھی حکمت عملی
عبیداللہ ناصر
وہ جو کہتے ہیں ناں کہ سر منڈاتے ہی اولے پڑے ویسا ہی کچھ جموں و کشمیر میں مفتی سعید کی قیادت میں پی ڈی پی بی جے پی مخلوط حکومت بننے کے بعد بی جے پی کے ساتھ ہورہاہے صورت حال یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے اندر وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ یا دیگر ممبران اور ٹی وی اسٹوڈیو میں بی جے پی کے چرب زبان اور جارحیت پر ہمہ وقت آمادہ رہنے والے ترجمان چاہے جتنی لفاظی کریں لیکن مفتی سعید کے حلف بر داری کے ساتھ ہی اسے جو کچوکے دینا شروع کئے ہیں اس سے وہ ہلکان دکھائی دے رہی ہے وہ مفتی سعید کے متنازعہ بیانات سے چاہے جتنا خود کو الگ کرے لیکن اپنے بڑے سے بڑے حامی کو بھی مفتی صاحب کے بیانوں پر مطمئن نہیں کراسکتی ۔ بی جے پی کی حالت اس وقت کم و بیش وہی ہے جیسی یوپی میں بی ایس پی کے ساتھ مخلوط حکومت بنانے کے بعد ہوئی تھی وہاں اسے اتنے سمجھوتے کرنے پڑے تھے کہ اس کے وجود پر ہی سوالیہ نشان لگ گیا تھا اگر اس پارلیمانی الیکشن میں مودی جی کی قیادت میں انتخابی مہم نہ ہوئی تو شاید یوپی سے اسے پھر 10-12سیٹوں سے زیادہ نہ ملتی حالانکہ سنگھ پریوار کی نظر یں ہمیشہ طویل مدتی مفاد پر رہتی ہیں اور اس لئے حکومت میں شرکت کا اسے جو بھی موقع ملتاہے وہ اسے ترک نہیں کرتا کیونکہ اس طرح وہ اپنے خاموش گرگوں(Sleeping Modules) کو حکومت اور انتظامیہ کے اہم مقامات پر تعینات کرانے میں کامیابی حاصل کرلینا ہے جو اسے وقتاً فوقتاً اور دھیرے دھیرے فائدہ پہنچا کر اسے طویل مدت میں بڑی کامیابی دلاتے ہیں یہ عمل1967 میںسنکیت ودھایک دل(SVD) کی حکومتوں کے بننے سے شروع ہوا تھا اور اب یہ سلسلہ جموں و کشمیر میں پہلی بار پہنچ رہاہے اپنے اس طویل مدتی فائدہ کے لئے وہ مفتی صاحب کی متنازعہ باتوں پر خود کو چاہئے جتنا الگ کرے وہ حکومت سے علاحد گی اختیار نہیں کرے گی کیونکہ جموں و کشمیر کی انتظامیہ اور نصاب تعلیم کابھگوا کرن اس کا مقصد اولین ہے جسے حاصل کرنے کے لئے وہ بے عزتی کا گھونٹ بھی پیتی رہے گی ۔
مفتی سعید نے جموں و کشمیرمیں پر امن اسمبلی الیکشن کے لئے پاکستان اور حریت کانفرنس کے تعاون کا ذکر کر کے در اصل بی جے پی کی دکھتی رگ ہی نہیں پکڑی ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ہندوستانی فوج سلامتی دستوں سرکاری عملہ الیکشن کمیشن اور ان بہادر کشمیری عوام کی بھی توہین کی ہے جنہوں نے تمام خطرات اور دھمکیوں کو نظر انداز کرکے جوق درجوق ووٹ ڈالا سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اگر بی جے پی جموں کشمیرکی انتظامیہ اور نصاب تعلیم کے بھگوا کرن کے طویل مدتی مقصدکے تحت حکومت میں شامل ہوئی ہے تو مفتی صاحب قدم قدم پر اس کے لئے ایسی ہی مشکلات پیدا کرکے اس کو اس حد تک تنگ کردیں گے کہ وہ ان کی حکومت کی حمایت واپس لینے پر مجبور ہوجائے اور تب وہ سیاسی شہید کے طور پر دوبارہ الیکشن کے میدان میں اترکر مکمل اکثریت حاصل کرنے کی کوشش کریں گے یعنی اوپر سے چاہے جتنی اور جیسی باتیں کہی جائیں سچائی یہی ہے کہ دونوں پارٹیاں اپنے وسیع تر سیاسی مفاد کو ہی آگے بڑھا رہی ہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ پی ڈی پی اور بی جے پی نظریاتی طور سے دو مختلف سیاسی دھڑوں میں منقسم ہے ایک جانب بی جے پی دفعہ 370 کے خاتمہ سمیت جموں کشمیر کو ہندوستان کی دیگرتمام ریاستوں کے خانے میں رکھناچاہتی ہے جبکہ پی ڈی پی کشمیر کو ہند یو نین میں ایک مخصوص خود مختاری دلانا چاہتی ہے وہ ہند پاکستان کے درمیان ہی نہیں بلکہ علاحدگی پسندوں اور حریت کے لیڈروں سے بھی گفتگو کی حامی ہے ان تضادات پر پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں مفتی صاحب نے کہا تھا کہ سیاست ممکنات کو تلاش کرنے اور تضادات سے نپٹنے کے فن کاہی نام ہے۔ دیکھناہے کہ مفتی صاحب اس فن میں اپنی مہارت کا کتنا اور کس حد تک مظاہرہ کرسکیں گے لیکن فی احال تو انہوں نے اپنی جونیئر پارٹنر بی جے پی کو منھ دکھانے لائق نہیں رکھا اور شاید یہ ان کی پہلی کامیابی بھی ہے۔
(یو این این)
مضمون نگار روزنامہ قومی خبریں لکھنؤ کے ایڈیٹر ہیں
**************************
|