ہیں چاروں طرف اس کے سبھی چاہنے والے
کیا بات ہے کیوں پھر بھی وہ تنہا سا لگے ہے
اقبال آذر
سفارت کاری کو ملک کی سیاست سے الگ رکھیں
عبیداللہ ناصر
وزیر اعظم نریندر مودی نے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان عالمی کپ کے میچ کے دوران پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کو پیغام بھیج کر اور عالمی کپ کے سارک ممالک میں سے کسی کے پاس رہنے کی دعا کرکے در اصل اسی کرکٹ ڈپلو میسی کا اعادہ کیاہے جو اس سے قبل جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف پاکستان کی جانب سے کرچکے ہیں ۔ کرکٹ در اصل ہندوستان اور پاکستان کے درمیان وستی اور عداوت دونوں میں اہم کر دار ادا کرتا رہا ہے جب بھی دونوں ملکوں میں کشیدگی ہوتی ہے اس کا سب سے پہلا اثر کرکٹ میچ پر پڑتاہے دونوں ملکوں کے درمیان کرکٹ میچ کھیل نہ رہ کر دو نوں ملکوں کا ٹکراؤ بن جاتاہے اور اس میں کچھ عناصر اپنی نام نہاد حب الوطنی کا مظاہرہ شروع کردیتے ہیں جو کھیل کی روح کے منافی ہے خوش آئند ہے کہ دونوں ملکوں میں اکثریت ان عناصر کی ہے جو کھیل کو کھیل کر طرح ہی دیکھتے اور سمجھتے ہیں۔
وزیر اعظم نریندر مودی کے اس پیغام سے قبل تاجکستان، افغانستان، پاکستان اور ہندوستان کے درمیان گیس پائپ لائن کے مسئلہ پر گفتگو کے لئے ہندوستان کے وزیر مملکت برائے پٹرولیم مسٹر دھرمیندر پر دھان اسلام آباد گئے تھے اس طرح ہندوستان اور پاکستان کے درمیان وہ رابطہ کم و بیش پھر شروع ہوگیاہے جو دونوں ملکوں کے خارجہ سکریٹریوں کی گفتگو سے قبل پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط کے حریت لیڈروں کی ملاقات کی وجہ سے منقطع ہوگئے تھے یہ مودی حکومت کا ایک بچکانہ اور جلد بازی میں لیا گیا فیصلہ تھا جس کی وجہ سے کاٹھمنڈو کی سارک کانفرنس میں اس وقت ایک عجیب و غریب صورت حال پیدا ہوگئی تھی جب دونوں وزرائے اعظم ایک اسٹیج پر بیٹھے تھے وہ تو کہئے نیپالی وزیر اعظم کی مداخلت سے آخری وقت دونوں وزرائے اعظم نے ہاتھ بھی ملایا اور گفتگو بھی کی ورنہ بڑا شرمناک منظر دیکھنے کو ملتا۔
یہی نہیں وزیر اعظم نریندر مودی نے نئے خارجہ سکریٹری ایس جے شنکر کو سارک ممالک کے دورہ پر بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے ظاہر سی بات ہے کہ وہ پاکستان بھی جائیں گے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ وہاں اپنے ہم منصب سے صرف رسمی اور سارک سے متعلق ہی گفتگو نہیں کریں گے بلکہ باہمی امور پر بھی یقینا گفتگو ہوگی اس سے تعطل کا شکار ہوچکی مذاکرات پھر سے شروع ہوسکتی ہے ۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ وزیر اعظم نے جموں وکشمیر میں مفتی سعید کی قیادت والی پی ڈی پی سے مل کر وہاں بی جے پی کی مخلوط حکومت بنانے کا جو فیصلہ کیا ہے اس میں نہ صرف پاکستان بلکہ حریت لیڈروں سے گفتگو کی شرط بھی شامل ہے اور وزیراعظم مودی کانواز شریف کو پیغام اور خارجہ سکریٹری کادورہ اسی سلسلہ کی کڑی ہے ۔ اگر چہ یہ اچھے قدم ہیں لیکن دو پڑوسیوں سے تعلقات کا انحصار ملکی سیاست پر ہو یہ کوئی اچھارویہ نہیں ہے پہلی بارگفتگو کا سلسلہ بہت ہی بچکانی دلیل پر اسمبلی اور ضمنی الیکشن کو مد نظر رکھ کر روکا گیا تھا اوراس بار گفتگو کا سلسلہ جموں و کشمیر میں حکومت سازی کی سیاسی ضرورت کے تحت شروع کیا جارہاہے۔
ہندوستان اور پاکستان کی آپسی چپقلش کی وجہ سے سارک اپنا مطلوب مقصد نہیں حاصل کر سکی ہے یہی نہیں اس کے کئی اجلاس بھی اس وجہ سے نہیں ہوسکے تھے کہ دونوں میں سے کسی ایک ملک نے اس میں شرکت سے انکار کردیا تھا جبکہ علاقائی تعاون کی دیگر تنظیمیں کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہیں ۔ بہر حال نہ صرف ہمار ے دیگر پڑوسی بلکہ امریکااور عالمی برادری کا بھی دونوں ملکوں کو گفتگو کی میز پر دیکھنا چاہتی ہے تاکہ علاقہ میں امن اور استحکام ہواور سبھی ممالک باہمی تعاون اور اشراک سے ترقی کے منازل طے کر سکیں ۔ اس کے علاوہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کے فروغ ویزا میں نرمی اور شہریوں کے باہمی رابطہ پر بھی اس تعطل سے بہت خراب اثر پڑاہے ۔ امید ہے مودی حکومت اب پہلے جیسی غلطی نہیں دوہرائے گی کیونکہ سفارت کاری اور سیاست دونوں سنجیدہ عمل ہیں اس میں جذباتیت کو جگہ نہیں ملنی چاہئے۔
(یو این این)
مضمون نگار روزنامہ قومی خبریں لکھنؤ کے ایڈیٹر ہیں
************************
|