donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Rahat Ali Siddiqui Qasmi
Title :
   Zafrani Hota Hindustan

زعفرانی ہوتا ہندوستان


راحت علی صدیقی قـاسمی

رابطہ  :  09557942062


    گنگا جمنی تہذیب کا حامل، امن و سلامتی، صلح و آتشی کا پاسبان، ہمدردی اور رواداری کا مینارہ، روایتوں کا گہوارہ، اتحاد کا بے مثل نمونہ، رنگارنگی یگانگت کی عظیم مثال، محبت اور پیار کے جذبوں سے سرشار اپنے دامن میں سینکڑوں عقائد کو سمولینے، دنیا کی عظیم جمہوریت، وسیع اور کشادہ سینہ کا مالک ہندوستان جو اچھی فکر اور عمدہ خیالات کے لوگوں اور محبت و امن کا گہوارہ ،اس کے افراد کا میل ملاپ قابل دید اور لائق ستائش ۔ لوگ اس بات پر فخر محسوس کرتے، ہر کوئی اس کی گود میں رہنے کا خواہاں و متمنی ہوتا، اس کے سایۂ عاطفت کو نعمت غیرمترقبہ گردانا جاتا اور عنایت خداوندی تصور کیا جاتا مگر حالات اور وقت نے کروٹ بدلی، گردشِ ایام نے ملک کو ایسی سنگینی سے دوچار کیا جس نے اس کی یہ روایتں اور خوبیاں، خصوصیتیں ماضی کی دلکش داستانوں میں تبدیل کردیں، وہ سب قابل فخر کیفیات قصۂ پارینہ ہوگئیں جو یادوں کی دنیا میں بہت دور ہوگئیں وہ ساری علامتیںجو ملک کی عظمت کی پہچان تھیں تقریباً مٹ گئیں، ختم ہوگئیں۔ اور ملک جن سے دوچار ہوا بدتری اور ابتری کی ناقابل بیان ہے اور ناقابل برداشت بھی اور اس کو دیکھنے کی سکت پر صاحب دل فرد میں نہیں، ہاںجن کے سینوں میں پتھر ہیں وہ اس زمرے میں نہیں آتے کیوںکہ دل بھی ہر فرد کے حصہ میں کہاں آیا۔
    بشیر بدر نے کہا :

ہر دھڑکتے پتھر کو تم دل سمجھتے ہو
صدیاں بیت جاتی ہیں دل کو دل بنانے میں

    مگر اس کے منظرکی ہولناکی اتنی زیادہ کہ نگاہ بھی اس کے لئے کافی ہے۔ اگر کوئی آنکھیں ہی بند کرلے تو بات الگ ہے، کہیں انسانیت کا قتل، کہیں معصومیت کو نذر آتش اور کبھی فرقہ وارانہ تصادم، عجیب و غریب حالات بیان سے باہر اور تکلیف کی انتہا، اس کے پیچھے ایک مخصوص ذہنیت کار فرما ہے جو پورے ہندوستان کو زعفرانی رنگ میں رنگنا چاہتی ہے، جو بھگوا تہذیب کے رنگ کو ہندوستان پر تھوپنا چاہتی ہے، جس بنیاد پر ایسے حالات تشکیل دئیے گئے۔ جو ملک کی سالمیت کے لئے خطرہ ہیں، ملک کے سینہ پر فرقہ پرستی کی ایسی لکیر کھینچی جارہی ہے جو ہزاروں انسانوں کے دھونے سے بھی ختم نہ ہو۔مگر چاہے جو ہو ان ناعاقبت اندیش درندوں کو صرف بھگوائیت مقصود ہے، اس کے لئے اقلیتوں کو طرح طرح سے ستایا گیا، ان پر مظالم کے پہاڑ توڑے گئے، ہندوستان کو تباہی کی جانب موڑنے کی کوشش کی گئی مگر تاریخ گواہ ہے، روز و شب شاہد ہیں کہ تمام اقلیتوں نے صبر کے دامن کو ہاتھ سے نہیں چھوڑا، جانیں تو گنوادیں، مگر ہندوستان کو جلنے سے بچانے کی حتی الامکان کوشش کی، سب کچھ کھویا مگر ملک کی عقیدت اس قدر کہ اس پر آنچ نہ آنے دی، متعصب ذہن کے افراد نے بھی اس منظرکو دیکھا اور طرح طرح کی تدبیروں سے اس جذبہ کو درد کرنے کی کوشش کی، مذہبی جذبات بھڑکاکر رنگ و نسل کی دہائی دے کر ذات پات کا نعرہ لگاکر تاکہ وہ ہندوستان کو زعفرانی رنگ میں تبدیل کرسکیں اور ترنگا صرف نام بھرکا ہو مگر حقیقت میں ایک رنگ ہولیکن ناکامی ہی ان کے ہاتھ آئی اور اس اتحاد کو پارہ پارہ کرنے میں ناکام رہے ۔تبھی کسی ایک حادثہ نے ان کی کمر توڑ کر رکھ دی، مظفرنگر فساد اور انتخاب کے بعد لگا کہ ہندستان کا رنگ ہی بدل گیا لیکن اخلاق کی شہادت پر ہندو ذی شعور اور حساس طبقے نے ان کے اپنے اعزازات ان کے منہ پر ماردئیے اور فضا کو خوشگوار بنانے کی عظیم سعی کی اور زعفرانی ہوتے ترنگے کو صاف کرنے کی بلند کوشش کی۔ اب یہ طبقہ متفکر ہوا اور نئی تدبیر تلاش کرنے یا تدبیر ایسی جس نے اقلیتوں کی نیندیں حرام کردیں اور ہندوستان ہندوتو کی طرف بڑھا دیا۔جو تدبیر ایک خوبصورت نام اور بھیانک انجام رکھتی ہے، یکساں سول کوڈ ہر انسان کے حقوق برابر، ہر فرد کے لئے ایک قانون، ایک طرزِ زندگی، ایک طریقہ، نہ کوئی پرسنل لائ، نہ کوئی مذہبی قانون، سب کو برابر کرنے کا نعرہ بلند کیا گیا، اس نعرہ کی بنیاد رکھی گئی، مسلم خواتین پر ہورہی زیادتی ان کے ساتھ کی جارہی بدسلوکی، ان پر ہورہے مظالم، ان کو عدلیہ ختم کرنا چاہتا ہے، پیار محبت کے پھول مسلم خواتین کے قدم رکھنا چاہتا ہے اور اس پر قدغن لگانا چاہتا ہے کہ کوئی اپنی بیوی کو طلاق دینے میں خود مختار نہ ہو، اپنی زندگی سے الگ نہ کرسکے، سب سے پہلے تو میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں ستر سالوں سے یہ لوگ سوئے تھے جب مسلم دوشیزائوں کی آبرو سے کھلواڑ کیا جارہا تھا، ان کے جسم ٹکڑوں میں تبدیل کئے جارہے تھے، ان کے شکم چاک کرکے بچوں کو نکال دیا جاتا تھا اور لاچار بے بس افراد حسرت بھری آنکھوں سے دیکھتے بھر رہ جاتے، اس وقت کیا ان کی بصارت زائل اور قوتِ احساس ختم یا وہ درد ان کو محسوس نہیں ہوتا، یا پھر اس سب سے بڑھ کر وہ ان کی تدبیر کا حصہ تھے اور یہ بھی ان کی تدبیر کا حصہ ہے ورنہ معصوم بچوں کو زندہ جلا دیا گیا اور اس سے زیادہ کیا ہوگا کہ اس پر تشبیہ یہ دی کہ کتے کو پتھر مار دیا جائے تو ہم کیا کر سکتے ہیں، تب کہاں تھے وہ افراد جن کو مسلم عورتوں کا درد اب بے چین کر رہا ہے۔ جب بی جے پی کی ساری تدابیر ریت کا محل ثابت ہوئیں ہیں ان کا یہ اعتراض تو یہ ملمع سازی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اگر مسلم نظام کے اندر خامی ہے طلاق کا یہ طریقۂ کار غلط ہے تو ان کے ہی افراد سے اپنانے کیوں راغب ہوتے ہیں، اپنی بیوی کو چھوڑنے کے لئے مذہب چھوڑ دیتے اور مذہب اسلام طلاق کو بدرجہ مجبوری استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہے اور رہی دوسری شادی یہ تو ایک نعمت ہے جو نہ جانے کتنی عورتوں کو بن بیاہی مرنے سے بچاتا اور ان کی زندگی کو شوہر کی خوشیوں سے بھر دیتا ہے کیوںکہ اعداد و شمار چلاّ چلاّ کر کہہ رہے ہیں کہ دنیا کے اندر مردوں کی تعداد عورتوں کے مقابلہ بہت کم ہے۔ اگر ہر مرد ایک شادی کرے تو کتنی لڑکیاں شادی کے بغیر ہی دنیا سے چلی جائیں گی۔ عجیب فلسفہ ہے کہ داشتہ کو بیوی کے حقوق دنیا معاشرہ کو جنسی بے راہ روی کی طرف لے جانا تشویش کا باعث نہیں ہوتا اور اسلامی احکامات فطرتِ انسانی کے عین مطابق ان پر اعتراض اسلام تو عورت کو میراث میں حصہ دیتا ہے، مہر دیتا ہے، تم کیا دیتے ہو؟ طعن و تشنیع، ودھوا ہونے کے بعد کوئی اس سے بات کرنا بھی گوارا نہیں کرتا، اس سب کے باوجود اگر یکساں سول کوڈ کی بات کی جارہی ے تو اور اس پروین توگڑیا جیسے لوگ تائید کرتے ہیں تو ہر شخص کے ذہن میں اس شوشہ اور حربہ کے معنی پوری طرح سے آجاتے ہیں کہ یہ ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے اور ایک مخصوص فکر کو فروغ دینے کی کوشش کی جارہی ہے، متشدد ذہن کے افراد اپنے اس خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں اور ہر قیمت پر ہندوستان کو ہندو تہذیب میں رنگنا چاہتے ہیں، بی جے پی کا گرتا قد بھی ان کے لئے لمحۂ فکریہ ہے، اس لئے وہ اسی دورِاقتدار میں ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانا جس کی نیو یکساں سول کوڈ ہے جو بی جے پی کے انتخابی منشور میں بھی شامل رہا ہے۔ اگر یہ تدبیر کارگر ہوجاتی ہے تو ہندوستان پوری طرح زعفرانی ہوجائے گا۔ ان خیالات پر ہی کہا جاسکتا ہے کہ ’’اللہ کرے قصر روایت نہ ٹوٹے۔‘‘

(یو این این)


٭٭٭

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 493