donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Reyaz Azimabadi
Title :
   Bihar Me Daliton Ka Sar Aala Zat Ke Dabango Ke Samne Jhuka Diya Gaya


بہار میں دلتوں کا سراعلیٰ ذات کے دبنگوں کے سامنے جھکادیا گیا


  ریاض عظیم آبادی

 

نسلی نفرت اور حقارت کی سیاست نے بہار میں پانچ مرتبہ ایسے قتل عام کو انجام دیا جس سے انسانیت شرمسار ہو گئی۔ انسانی قدروں کی پامالی نے غریبوں کیلئے تمام راستے مسدود کردیئے۔ بہار میں رنبیر سینا نامی ایک گروہ سر اٹھاکر آگے بڑھا اوراسے جب بھی موقع ملا قتل و غارتگری کو انجام دیتا رہا۔ہر قتل عام کے بعد فرضی انسانی ہمدردیوں کی شروعات ہوئی، معاوضہ دینے کا اعلان ہوا اور قاتلوں کو گرفتار کر انہیں سزا دلانے کے عزائم کا اظہار کیا گیا لیکن عدالتوں نے وہی کیا جو ہاشم پورہ کے قاتلوں کے ساتھ کیا گیا یعنی سبھی باعزت بری ہوگئے۔

یہ سوال آج بھی اپنی جگہ پر قائم ہے کہ افضل گرو کے خلاف کون سے شواہد پیش کئے گئے کہ عدم ثبوت کے باوجود اسے پھانسی کے تختے پر لٹکا دیا گیا اور پولیس نے دبنگوں اور اعلیٰ ذات کے مجرمین کی کس طرح مدد کی کہ سبھی قاتل آزاد کردیئے گئے۔ہاشم پورہ میں تو 42مسلم نوجوانوں کو پی اے سی کے جوانوں نے گولی مارکر ندی کے دھاروں کے حوالے کردیا تھا اور عدالت نے یہ سوچے بغیر کہ انہیں کسی نے تو قتل کیا ہوگا…آزاد کردیا گیا۔ بہار میں آج بھی ذات پرستی کی سیاست حاوی ہے۔ آج بھی دلتوں کو مندر میںجانے کی اجازت نہیں۔اعلیٰ ذات کی برادریاں دلتوں کے ساتھ بیٹھنا اپنی توہین سمجھتی ہیں۔کبھی کانشی رام نے یوم جمہوریہ کی 50ویں سالگرہ پر بابا صاحب امبیڈکر کی فکر کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا تھا…

 ’ہندوستان نے بیرونی سامراجی طاقتوں کو اکھاڑ پھینکا تھا لیکن ملک کے اندر کچھ طبقات ابھی بھی زنجیروں سے جکڑے ہوئے ہیں۔ یہ زنجیریں تھیں خون پینے والے ساہوکار، سماجی اعلیٰ ذات برادری اور ذات پرستانہ نظام کی۔‘

بہار میں دلتوں کے قتل عام کی شروعات تو آزادی کے بعد سے ہی ہوگئی تھی لیکن 1990میں اعلیٰ ذات کے دبنگوں بھومیہاروںنے رنبیر سینا کے نام سے ایک جماعت کھڑی کردی۔ اس سینا کی شکایت تھی کہ دلت کھیتوں پر کام نہیں کرتے، بھومیہار راجپوتوں سے نفرت کرتے ہیں اور مائو نوازوں کے کے ساز باز کرانہیں تنگ کرنے کا کوئی سلسلہ نہیں چھوڑتے۔ چنانچہ 1990کے بعد پانچ بڑے قتل عام ہوئے اور ان قتل عام کے سبھی مجرمین ٹرائل کورٹ کے ذریعہ یا پھر پٹنہ ہائی کورٹ کے ذریعہ باعزت بری کردیئے گئے۔آخر عدلیہ نے انصاف کا کون سا ترازو اپنایا کہ ملزمین کی آہیں دبی کی دبی رہ گئیں اور قاتل آزاد کردیئے گئے۔ پانچ قتل عام کی تفصیلات اس طرح ہیں…


قتل عام    مرنے والوں کی تعداد    عدالتی فیصلہ    فیصلے کی تاریخ
بتھانی ٹولہ    20    پٹنہ ہائی کورٹ سے مجرم رہا    اپریل2012
میاں پور    32    ’’    جنوری2013
نگری بازار    10    ’’    مارچ2013
لکشمن پور باتھے    58    ’’    اکتوبر2013
شنکر بگہا    23    ٹرائل کورٹ سے بری    جنوری2015

143دلت جن میں عورتیں بچے شامل ہیںبے رحمی کے ساتھ قتل کر دیے گئے اور انتظامیہ اور عدالتیں ان قاتلوں کی نشان دہی کرنے میں ناکام رہیں!بلچھی سے لیکرشنکر بگہہ قتل عام کے سبھی فیصلے ایک دوسرے سے ملتے جلتے دکھائی دیتے ہیں۔ہاشم پوراقتل عام کے فیصلے نے سچر کمیٹی کے فیصلے پر مہر ثبت کردی ہے کہ مسلمان آج یقینی طور دلتوں سے بد تر ہیں۔ایسے شرم ناک فیصلوں کی ایک لمبی فہرست ہے۔میرا ایک دوست دنیش رجک ہے جسکے نام میں ’رجک‘شامل ہے۔پٹنہ ہائی کورٹ نے اسکے وکیل کو سنے بغیر ہی اسکے خلاف فیصلہ دے دیا۔سپرم کورٹ بغیر شنوائی کہ اسکی درخواست رد کردی کیونکہ جج صاحبان کو شاید دلتوں سے ہی الرجی تھی۔نٹ پر 1761سے 2013کیے گئے قتل عام کی فہرت دستیاب ہے،جس میں بہار میں ہوئے قتل عام کو تقریباََ نظر انداز کردیا گیا ہے۔بہار کا المیہ ہے کہ آج بھی جاگیر داروں اور نوکرشاہوںکی خاموش دوستی بہار میں انصاف کے درمیان دیوار بنی ہوئی ہے۔دلت اور مسلمان آج بھی بے بس اور لاچار ہیں کیونکہ ا نکے لیڈران اقتدار اوربدعنوانیوںکے مایا جال میںالجھ کر رہ گئے ہیں۔

25جنوری 1999کو شنکربگہہ جہاں زیادہ تر دلت اور انتہائی پسماندہ برادری کی آبادی تھی میں رنویر سینا کے دبنگوں23افراد جن میں5عورتوں اور 7بچے شامل تھے کو بے رحمی کے ساتھ قتل کر دیا۔24 افراد کو مجرم بنایا گیا اور 16برسوں کے بعدجہان آباد کے سیشن کورٹ نے سبھی مجرمین کو ثبوتوں کے فقدان میںبا عزت بری کر دیا۔مجھے آج بھی یاد ہے،جب اس وقت کی وزیر اعلیٰ شریمتی رابڑی دیوی کے ساتھ لالو پرشاد جائے واردات پر پہنچے تو پانچ لاشوں کے ارد گرد بیٹھے لوگ نعرہ لگانے لگے…’رنبیر سینا مردہ باد،معاوضہ نہیں ہتھیار دو‘۔

یکم دسمبر1997کوارول ضلع کے میں لکشمن پور باتھے میں رنبیر سینا نے رات کے اندھیرے میںحملہ بول دیا۔رنبیر سینا بھومیہاروںکی نجی آرمی تھی۔گائوں والوں پر مائو نوازوں سے رشتہ رکھنے کا جھوٹا الزام تھا۔ رنبیر سینا کے جوانوں نے بے رحمی کی تمام حدوں کو توڑ کر16بچے 27خواتین کے ساتھ 58افراد کو بے رحمی کے ساتھ قتل کر دیا۔عورتوں میں 8حاملہ بھی تھیں۔پٹنہ ہائی کورٹ نے اکتوبر 2013میںسبھی مجرمین کو رہا کر دیا۔اسی طرح جون 2000میاں پور گائوں میں 34دلتوں کو قتل کر دیا گیا۔ٹرائل کورٹ نے دس افراد کو سزا سنا دی لیکن پٹنہ ہائی کورٹ نے دس میں سے 9افراد کوجنوری2013میں باعزت بری کر دیا۔1998میں بھوجپور ضلع کہ نگری بازار میں 10دلتوں کو قتل کردیا گیا تھا،مگر جن دس مجرمین کو ٹرائل کورٹ نے سزا سنائی تھی مگر پٹنہ ہائی کور ٹ نے ما رچ 2013میں سبھی کو بری کر دیا۔

جولائی 1996میں بھوجپور کے سہار بلاک کے بتھانی ٹولہ میں 20دلتوں کو بے رحمی سے قتل کردیا تھا۔ٹرائل کورٹ نے تین کو پھانسی اور20کوعمر قید کی سزا سنائی تھی لیکن پٹنہ ہائی کورٹ نے اپریل 2012میں سبھی مجرین کو باعزت بری کر دیا۔

آخرکیوں بری ہو جاتے ہیں دبنگ قاتل! پہلی اور سب سے اہم وجہہ ہے پولسیا کردار۔پولس دبنگو ںکے ساتھ ملکر گواہوںکو ڈراتی اور دھمکاتی اور سمجھوتہ کے لئے دبائو ڈالتی ہے۔برسوں تک مقدمہ چلتے رہنے کی وجہہ سے فاسٹ ٹریک کورٹ سلو کورٹ بن جاتی ہے اور انصاف کا خون ہونا شروع ہو جاتا ہے۔

میں نے کرائم رپورٹر میں 2003میں ایک مضمون لکھا تھا۔89سال قبل پٹنہ ہائی کورٹ کی تشکیل ہوئی تھی تب سے لیکر آج تک ایک بھی جج دلت سماج سے نہیں بنائے گئے۔ہائی کورٹ دلت وکلا کی کمی نہیں مگر ذات پات کی لعنتی سوچ نے کبھی انہیں اس لائق تصور ہی نہیں کیا گیا۔پٹنہ ہائی اس بات پر شرمندہ ضرور ہوگا کہ اس نے ایک بھی دلت جج نہیں بنائے۔اسے المیہ کہیںگے یا ذہنی دیوالیہ پن!

عدالتوں میں مقدمات کی بھرمار،تاریخ پر تاریخ کا نہ رکنے والا سلسلہ اور فاسٹ ٹریک کا ڈلے ٹریک بن جانا ایک المناک حقیقت ہے جسکے ازالہ کے بغیر انصاف کا تقا ضہ پورا نہیں ہو سکتا ہے۔ اورعدالتیں ثبوتوںاور گواہوں کی بنیاد پر فیصلہ سناتی ہیں اور یہ دونوں انتظامیہ اور پولس کے قبضے میں ہوتی ہیں جو حکومتوں کی مرضی کے مطابق رقص کرتی ہیں،اسلیے انصافکی توقع کرنی حماقت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔

جہاں تک ا قلیتوں کا تعلق ہے انکے ساتھ ویسا ہی سلوک کیا جا رہا ہے۔رانچی اورجمشید پورمیںہولناک فسادات ہوئے،تحقیقاتی کمیشن نے اپنی رپورٹ بھی دی،کمیشنوں نے قاتلوں کی نشاندہی بھی کردی لیکن حکومت رپورٹوں پر کوئی کاوائی نہیں کی۔کانگریس صرف انتخاب چھہ ماہ قبل سرگرم ہوتی،مسلمانوں کے لیے مگرمچھ کا آنسو بہاتی،مسلمانوں کا ووٹ لیتی اور تازہ دم ہوکر مسلمانوں کو جوتے مارنا شروع کر دیتی۔انتظامیہ ہو یا پولس دونوں ملکر دلتوں یا اقلیتوں کے لیے انصاف کا دروازہ بند کر دیتی ہیں۔1990کے بہار دلتوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے اسی طرح اتر پردیش اور ملک کے دوسرے حصوں میں مسلمانوں پرقہر برپا کیا گیا اور انتظامیہ و پولس نے ساز باز کر ظالموں کو بچانے کا کام کیا۔جب مسلمان آمادئہ تحریک نہیں ہونگے اور جمہوری مزاج کے مطابق اپنی نفری طاقت کا احساس نہیں جتائیںگے ہاشم پورہ جیسے فیصلے سامنے آتے ہی رہینگے۔بہار میں ایک طرف مائو نوازوں کی شدت پسندی میں تیزی آئی ہے تو دوسری طرف دلتوں پر اعلیٰ ذات کے مظالم میں بھی اضافہ ہوا ہے۔صرف2014میں دلتوں پر ظلم ڈھانے کے11ہزار واقعات رونما ہو چکے ہیں اور یہ سلسلہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔

                        رابطہ:
Cell: 9431 421821
Email: r.azimabadi@gmail.com


************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 593