donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Sabir Raza Rahbar
Title :
   Kare Koyi Aur Bhare Koyi Ki Seyasat


کرے کوئی اوربھرے کوئی کی سیاست


صابررضارہبر

9470738111


گزشتہ چنددنوںمیںدو واقعات رونماہوئے ہیں جن کاسنجیدہ تجزیہ کیاجانااس لئےضروری ہے تاکہ سچ ،جھوٹ اوران کے مضمرات کے مابین خط امتیاز کھینچنا سہل ہوسکے۔سیاست میںیہ عجب رہا نہیں کہ ایک افواہ کے سہارے حقیقت کے پرخچے اڑادئے جائیں ۔کرے کوئی اوربھرے کوئی کی سیاست نے ایک بارپھرملک کے سنجیدہ طبقہ کو بے مضطرب کردیاہے۔ مہاراشٹرکے پونے میں فیس بک پرشیواجی مہاراج اوربال ٹھاکرے کی تصویرکے ساتھ مبینہ چھاڑکے سبب ہندوراشٹرسیناکےاغنڈوںنے سرعام نہ صرف مساجدکی بے حرمتی کی بلکہ مسلمانوںکے دکان ومکان کوزبردست نقصان پہنچایا اورہنوز حالات کشیدہ ہیں ۔مسجدسے نماز پڑھ کرگھرآرہے سافٹ ویئر انجینئرمحسن صادق کوہندوراشٹرسینا کے غنڈوںنے پیٹ پیٹ جان لےلی جبکہ ایک مسلم لڑکا محمد صادق کونیم جان کردیا جواسپتال میں زندگی جنگ لڑرہاہے۔۲۴؍ سالہ محسن صادق شیخ پر پیر کو نماز کے بعد گھر لوٹتے وقت حملہ ہوا، اس وقت ریاض نام کا دوست بھی صادق کے ساتھ تھا۔ ریاض کےمطابق صادق پر حملہ اس لئے ہواکیوںکہ اس نے ٹوپی پہنی تھی اور اس کی داڑھی تھی۔ممبئی پولیس کی سائبر کرائم سیل کے مطابق یہ فیس بک پوسٹ ایک ایسے پیج نے جاری کی تھی، جسے جعلی شناخت سے سال بھر پہلے کرئیٹ کیا گیا تھا۔ گزشتہ ہفتہ کے آخر میں یہ پوسٹ آئی تھی، جس میں شیواجی اور بال ٹھاکرے کی تصاویر کے ساتھ مبینہ طور پر چھیڑ چھاڑ کی گئی تھی اور اب یہ پیج ڈليٹ کیا جا چکا ہے۔لیکن سوال یہ ہےجبکہ سال بھرے ا س فرضی فیس بک اکائونٹ کی شناخت کرلی گئی توپھراسے بندکیوںنہیں کرایاگیا؟


مہاراشٹراکاپونے جب نفرت کی آگ میں جل رہا تھا اسی درمیان میوات سے ایک خبرشائع ہوئی جس میں مقامی لوگوںنے مدرسہ کے نام چندہ کررہے فرضی نوجوانوںکوپکڑالیکن لوگوںکے ہوش اس وقت جاتے رہے جب پتہ چلاکہ اسلامی وضع قطع ،سرپرٹوپی اورکاندھے پرعربی رومال رکھےان لڑکوںکا تعلق کسی مدرسہ سے تو دوراسلام سے بھی نہیں ہے یعنی یہ ہندونوجوانوںطالبان علوم نبویہ کا روپ دھاکر مدرسہ کے نام پرچندہ کرکے مسلمانوںکولوٹنے کا کام کررہے ہیں ۔


پکڑے گئے نوجوانوںمیں ایک بچہ بھی تھاجس کی عمر تقریباً ۸؍ سال رہی ہوگی ۔یہ لوگ مدرسہ اسلامیہ میرٹھ کے نام پرمسلم بستیوںسے گندم ونقدی کی وصولی کررہے ہیں ۔سفیدکرتا پائجامہ ،پرٹوپی اورگلے میں عربی رومال دیکھ کرکہیں شائبہ تک نہیں گزرتاتھاکہ یہ لڑکے ہندومذہب سے تعلق رکھتے ہیں ۔پکڑے گئے نوجوانوںنے بتایاکہ میوات میں ۱۸؍لوگ ہیں جودن میں طالبعلم کا حیلہ بدل کرمسلمانوںکوچونالگاتےہیں اوررات  میں شہرکے شکراوہ مندرمیں قیام کرتے ہیں ۔ان کے نام کرمن ولدراجناتھ ،ویدرام ولدبیرسنگھ ،ناگل جاٹھ ،منیش ولدبیرسنگھ، بیرپال ولد رجیندر ،محبوب ولدکرتارناتھ اورسلیم کرتارناتھ ہیں۔


گائوں والےجب ان دھوکہ بازوںکونگینہ پولیس اسٹیشن لے گئےتو پولیس اس حساس معاملہ پرسنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے نہایت ہی مایوس کن رویہ اختیار کیا ۔تھانہ انچارج نے ان سے تفتیش کرنے کے بعدان کوگرفتارکرنے سے منع کردیا اورریٹھٹ گائوں واولوںکے ذمہ داران کے ہی سپردکردیا حالاںکہ مقامی مسلمان اسے بڑی سازش کا حصہ مان رہے ہیں لیکن کافی کہاسنی کے بعدہی پولیس اپنی بات پراڑی ہی اورسرعام جرم کرنے والے ان جوانوںکوچھوڑدیاگیا جبکہ ان کایہ فعل سراسرجرم میں زمرے میں آتا ہے۔کم ازکم دھوکہ دھری اورٹھگی کا مقدمہ تو ان کے خلاف درج کیاجاسکتا تھااورپھران سے یہ تفتیش ضرورکی جانی چاہئے تھی کہ اس گروہ سے تعلق رکھنے والے اورکتنے افرادہیں اورکہاں کہاں مسلمانوںکوچونالگا رہے ہیں کیوںکہ پکڑے نوجوانوںکے مطابق میوات میںان کے ۱۸؍ساتھی ہیں جو اسی طرح مسلم طلبہ کی شکل اختیارکرکے چندہ وصول کررہےہیں لیکن پولیس نے اتنے حساس معاملہ کوصرف اس بنیاد پردرکنارکردیاکہ ملزمین کا تعلق اکثریتی طبقہ سے تھا لیکن سوال یہ ہے کہ اگرمعاملہ اس کے برعکس ہوتا توکیا نگینہ پولیس کا رویہ ایساہی ہوتا یعنی اگر مسلم لڑکے ہندوکا روپ دھاکرمندرکی تعمیرکے نام پرچندہ کرنے نکلے ہوتےاوراسی طرح رنگے ہاتھوںپکڑے جاتے تو اب تک نہ جانے ان کے خلاف کتنی سنگین دفعات کے تحت مقدمے درج ہوچکے تھے اوران کے جسم کی پسلیاں اپنی سلامتی کی دعاکررہی ہوتیں۔فرقہ پرست میڈیا انہیں انڈین مجاہدین ،آئی ایس آئی اورنہ جانے کون کون سی گمنام دہشت گردتنظیموں سے ان کا رشتہ جوڑکرواہ واہی لوٹ رہی تھی۔پولیس اسے ایک بڑی سازش کا حصہ مان کرقبل ازوقت بڑی واردات کوناکام بنادینے پر اپنی پیٹھ تھپتھپارہی ہوتی لیکن معاملے کا تعلق ہندتووطبقہ سےہے؛ اس لئے یہ پولیس کی نظرمیں جرم میںکے زمرے نہیں آتا ہے۔


اکثریتی طبقہ کے نوجوانوںکی طرف سے مسلمان بن کرچندہ وصولی کا یہ معاملہ بھلے ہی اپنی نوعیت میں انوکھا ہولیکن ہندومراٹھی خواتین کا نقاب پہن کرمساجدواسٹیشنوںپربھیک مانگنے کاسلسلہ قدیم ہے اورآج بھی جاری ہے۔ممبئی میںجمعہ کے دن بھیڑجمع ہونے والی مساجدکے سامنے قطاردرقطارکھڑی نقاب پوش خواتین کے چہرے کا نقاب اٹھاکردیکھیں توآپ کوان میںکئی ماتھے پربندی سجائے مراٹھی خواتین مل جائیںگی،ہم نے خود اس کافرگداگری کا اصل چہرہ دیکھاہے۔یہ قوم مسلم کوبدنام کرنے کی ایک سوچھی سمجھی سازش ہے۔ہرقوم میں حاجت مندہوتے ہیں لیکن کسی دوسری کا قوم روپ دھارکربھیک مانگنابہرحال دھوکہ دھری کے زمرے میں آتا ہے۔
اسی طرح ہم اگرپونے کامعاملہ کا تجزیہ کریں تویہاں بھی پولیس اورانتظامیہ کی دوہری پالیسی ہندوستانی جمہوریت کومنہ چرھاتی نظرآئے گی ۔کسی بھی طبقہ کی محترم شخصیت کی بے حرمتی کی حوصلہ افزائی ہرگزنہیں کی جاسکتی لیکن محض شک کی بنیاد کسی مخصو ص طبقہ کوگنہگارتسلیم کرلینا اورپھرقانون کوہاتھ میں لے کرتشددبرپانے اوربے گناہ کی جان لینے کی اجازت ہرگزنہیں دی جاسکتی ہے۔پونے کامکمل سوجھی سمجھی سازش کا نتیجہ معلوم ہوتاہے کیوںکہ محسن کی موت کے بعد ایک ایس ایم ایس گردش میں آئی کہ پہلا وکٹ گرا۔یعنی مسلمانوںکوٹھکانے لگانے کیلئے فرقہ پرستوںنے خود ہی چال چلی ہے ۔ مگرپولیس کے سامنے مساجدکی حرمتی پامال کی جارہی اورمسلمانوںکوتشددکانشانہ بنایاجاتارہا اورپولیس خموش تماشائی بنی رہی پولیس کی یک طرفہ کارروائی کی روایت یہ بتارہی ہے کہ ہمارے ملک میںسب کچھ چلتا ہے بس تشددکا واقعہ اقلیتی طبقہ کی طرف سے نہ ہوورنہ اس پرقابوپانے کیلئے فائرنگ ہرمرحلہ میںناگزیرہوجاتی ہے۔گزشتہ مہینے حیدرآبادکے راجندرنگرمیں نشان صاحب کونذرآتش کرنے کے معاملے پرمسلم وسکھ آمنے سامنےہوگئے تھے، مسلمانوںوسکھوںمیں سے کسی نے بھی کسی کی جان نہیں لی ہاںپولیس نے بھیڑکومنتشرکرنے کے نام پرفائرنگ کرکے تین مسلمان کی جان لے لی ۔


ہندوستان میں کرے کوئی اوربھرے کوئی سیاست جڑپکڑتی جارہی ہےجوملک کی سلامتی کیلئے خطرناک ہے۔آج ہزاروںکی تعدادمیں مسلمان جیلوںمیں قیدہیں ان میں سے اکثرگناہ بے گناہی کی سزاکاٹ رہے ہیں ۔یہ کوئی ڈھکی چھپی حقیقت نہیں رہ گئی کہ مکہ مسجد، اجمیر،مالیگائوں،سمجھوتہ ایکسپریس اوراس نوعیت کے دیگر ملک میں پیش آنے والے دہشت گردانہ حملوںمیں دانستہ طورپرنشانہ بنائے گئے ہیں ان میں سے اکثرمعاملوںمیں مسلم نوجوانوںکی عدالت سے رہاکیاگیاہے۔ حال ہی سپریم کورٹ نے اکشردھام مندردھماکہ کے الزام میں سزایافتہ مسلمانوںکورہاکرکے پولیس کی قلعی کھول رکھ دی ہے۔درجنوںکی تعدادمیں مسلم نوجوانوںکی رہائی کے باوجودپولیس نے محض شک اورافواہ کے نام پر مسلمانوںپرتشددبرپاکرنے اورانہیں بدنام کرنے کا سلسلہ چھیڑرکھاہے اورایسا اس لئے ہے کہ سیکڑوںمسلمانوںکی زندگی بربادکرنے دینے والے پولیس اہلکاروںسے عدالت جواب طلب نہیں کرتی ۔ عدالت اگرکسی بے گناہ کوملزم اورپھرزبردستی مجرم بناکران کی زندگی بربادکرنے والی پولیس کوبھی انصاف کے کٹہرے کھڑی کرنا شروع کردے تویہ سلسلہ جلدہی ٹوٹ سکتاہے مگر فرقہ پرست عناصرایسانہیں ہونے دیں گے کیوںکہ ملک کی پرامن فضاانہیں راس نہیں آتی ۔ اب ملک کے انصاف پسند عوام کوآگے آکرطے کرنا ہوگا کہ کیامذہب کی بنیادپردوہری پالیسی کسی جمہوری ملک کانقیب ہوسکتا ہے۔اگرنہیں توپھرانہیںاس کیلئے مضبوط حکمت عملی تیارکرنی ہوگی کیوںکہ سیکولرزم کی حفاظت ہرحال میں ضروری ہے اوریہ ہرہندوستانی کافرض ہے اوراسی سے ہندوستانی جمہوریہ کی حقیقی تصویربنتی ہے۔


جب سے اسرائیل سے قربت بڑھی ہے اپنے ہی ملک میں مسلمانوںکاقافیہ تنگ کئے جانے لگاہے اوریہ قربت جتنی گہری ہوتی گئی ہے ہندوستان میں جمہوریت کی ساکھ کمزورہوتی گئی ہے۔ مودی حکومت نے اسرائیل کے ساتھ دہشت گردانہ معاملات سے نپٹنے کیلئے باضابطہ معاہدہ بھی طے کرلیا ہے اب دیکھنا یہ ہے دنیامیں دہشت گردی کاننگاناچ ناچنے والا اسرائیل کس طرح سے ہندوستان کودہشت گردی سے پاک کرنے کیلئے مودی حکومت کی رہنمائی کرتا ہے۔ کہیں ایسانہ ہواس کی شاطرانہ چال ہندوستانی جمہوریت کا جنازہ ہی نکال کررکھدے۔مودی کی جیت کے بعداسرائیل نے جس طرح سے مسرت کا اظہارکیاہے اس سےلگتاہے کہ اس کی نیت کچھ ٹھیک ٹھاک نہیں ہےاس لئے مودی حکومت کویہ یادرکھنا ہوگاکہ اسرائیل وہ قوم ہے جسے وفاسے فطری بیرہے۔ 


۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

Comments


Login

You are Visitor Number : 588