donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Sabir Raza Rahbar
Title :
   Kya Ab Sahi Aur Ghalat Ka Faisla Wahshi Bheerh Karegi


کیااب صحیح اورغلط کا فیصلہ وحشی بھیڑکرے گی

 


صابررضارہبر


ملک عزیز آج کل تشدداورنفرت انگیزی کے عبرتناک ماحول سے گزررہاہے،ایک منظم سازش کے تحت جھوٹی افواہ کا بازارگرم کرکے قتل وغارت کا سلسلہ جاری ہے ،قانون ،پولیس اورعدلیہ مصنوعی  بھیڑکےپاگل پن آگے بازیچہ اطفال ثابت ہورہے ہیں۔بولنے کی آزادی چھینی جارہی ہے اور سچ بولنے کی ضد پر ان کے خلاف انتہائی اقدام کرتےہوئے انہیں ٹھکانے بھی لگادیاجارہاہے۔ برسراقتدارپارٹی کے سینئرلیڈرلال کرشن اڈوانی نے ملک کی موجودہ صورتحال پر حقیقت بردوش تبصرہ کرتے ہوئے کہاتھاکہ ملک میں غیراعلانیہ ایمریجنسی نافذ ہے ،دادری سانحہ پر یہ کہہ کر اپنی رائے کا اظہارکرنے سے انکارکردیا کہ اٹل جی (ان کا اشارہ مودی کی طرف تھا) کو اچھانہیں لگے گا اوروہ ناراض ہوجائیںگے ۔ ملک میں جاری تشددکے واقعات تھمنے کے نام نہیں لے رہے ہیں ۔دادری کےمیں ایک منظم بھیڑکے ہاتھوں اخلاق کا بہیمانہ قتل اوران کے اہل خانہ کی ظالمانہ پٹائی کے بعدانٹرنیشنل میڈیا میں ہندوستانی جمہوریت کو جم کر نشانہ بنایاگیا اورا س سے پوری دنیا میں ہندوستان کی جگ ہنسائی ہوئی یہاں تک کہ صدرجمہوریہ ہند پرنب مکھرجی کو بھی اپنی خاموشی توڑنی پڑی جس کے بعد کہاجارہا تھا کہ اب ایسا واقعہ نہیں ہوگا لیکن ابھی اخلاق کے قبرکے پھول خشک بھی نہیں ہوئے ہوںگے کہ شملہ میں ایک اوراخلاق یعنی مویشی تاجر محمد زاہد کو جنونی بھیڑنے قتل کردیا۔ممبئی میں مشہورپاکستانی گلوکارغلام علی کا پروگرام صرف اس لئے رد کرنا پڑا کیوںکہ شیوسینا نے اس کی مخالفت کردی ،اسی ممبئی میں شیوسینا سابق پاکستانی وزیرخارجہ کی کتاب کی رونمائی کی تقریب میں شامل ہونے پہنچے بی جے پی لیڈرسدھیندر کلکرنی کے چہرے پر سیاہی پوت دی جبکہ اس پروگرام میں شریک مشہوراداکار نصیرالدین شاہ کو سوشل میڈیا پراس قدرنشانہ بنایاگیاکہ وہ یہ کہنے پر مجبورہوگئے کہ ہمیں محض مسلمان ہونے کی بنیادپر ذلیل کیاجارہا ہے، یہی نہیں اسی ممبئی میں ہندوپاک کرکٹ کی بحالی کیلئے ہونے والی بی سی سی آئی اورپی سی بی کی میٹنگ میں شیوسینا کے کارکنوںنے جم کر ہنگامہ کیااوراسی دن دہلی میں پریس کانفرنس کرنے پہنچے جموں وکشمیر کے رکن اسمبلی انجینئر رشید کے چہرے پر بھی سیاہی پوت دی گئی ان کا قصوریہ تھاکہ جموں وکشمیرمیں سپریم کورٹ کی جانب سے تین مہینے تک گائے ذبیحہ پرسے پابندی ہٹانے کے حکم کے بعد انہوںنے بیف پارٹی کی تھی جس کے بعدانہیں جموں وکشمیراسمبلی میں بی جے پی ارکان نےقانون اوراصول کو ٹھینگا دیکھاتے ہوے بری طرح پیٹا تھا ۔ہنگامہ خیز حالات پرمرکزی حکومت کی مجرمانہ خاموشی کے خلاف ملک کے ادبا ء اپنے ایوارڈمع انعامی رقم واپس کررہے ہیں ،صدائے احتجاج بلندکرنے والے ادباءوشعرامیں ہندی ،اردواورانگریزی سمیت دیگرعلاقی زبانوںکے نمائندہ ادباوشعراشامل ہیں ۔مودی حکومت کی نااہلی کے خلاف پہل کرنے والے ادباوشعراء کی ایوارڈ واپسی کوبھی سیاسی عینک سے دیکھاجانے لگا ہے اوربی جے پی اسے سیاسی رنگ دے کر اپنی شرمندگی چھپانے کی ناکام کوششوںمیں مصروف ہے۔


ایسے سنگین حالات میں یہ سوالات بڑےمعنی خیز ہوجاتے ہیں کہ کیا ملک میں قانون اورانصاف نام کی کوئی چیز رہ گئی ہےیاپولیس اورعدالت کے کام جنونی بھیڑکے حوالے کردیاگیا ہے؟ اورکیا ایک عظیم جمہوری ملک کے تانے بانے بکھرنے کے دہانے پر پہنچ گئےہیں ؟ ہندوستان میں بقول اڈوانی ایک بارپھرایمریجنسی عودکرآئی ہے ؟موجودملکی تناظرمیں مذکورہ سوالات کے جوابات تلاش کرنا بہت ہی اہم ہے کیوںکہ اس کے بغیرملک کی جمہوریت کا قبلہ طے نہیں کیا جاسکتا اورنہ ہی مذہب وثقافت کے نام پراکثریتی طبقہ کی جانب سے جاری واردات پرروک لگا نے کاراستہ نکالاجاسکتا ہے۔

وقت کا نمرودایک بارپھرسرابھاررہاہے اوراس کے ظلم وجبرکے آگے انسانیت بے بس ومجبورکھڑی ہے ،مذہب اورسیاست کا یہ کون سا فلسفہ ہے جس کی روسے ایک جانورکی حفاظت کیلئے کئی انسانی جانوں کی بلی چڑھانےسے گریزنہیں کیا جارہاہے ،آخرسپریم کورٹ کے سبکدوش جج جسٹس مارکنڈے کاٹجوکے اس سوال پر اکثریتی طبقہ سنجیدگی سے غورکرنے کیلئے کیوںتیارنہیںہے کہ ایک گائے انسان کی ماں کیسے ہوسکتی ہے ؟اورانسان گائے کی اولادکیسے ہوسکتاہے ؟اس طرح کے سوالات صرف جسٹس کاٹجوکے ہی نہیں ہیں بلکہ بہتیرے ہندودانشوران بھی یہ پوچھ رہے ہیں لیکن حکومتی سرپرستی میں آرایس ایس نے قاتل بھیڑکے ہاتھوںاپنے ناپاک ارادوںکی تکمیل میں مصروف ہے اورریاستی حکومتیں خاموش ہیں۔ آخرایسے معاملات میںراشٹرپتی بھون اورچھوٹےچھوٹے معاملوںپرازخودنوٹس لینے والا عدلیہ مداخلت سے اب تک خودکوکیوںروک رکھی ہے یہ بات بھی سمجھ سے پرے لگ رہی ہے۔

بات اگر اکادُکااورمعمولی واقعات کی ہوتی تواسے وقتی اشتعال کہہ کر نظراندازکیا جاسکتا تھا لیکن یہاں توملکی مفادکاسوال پیداہوگیا ہے،اپنی رنگارنگی تہذیب کے سبب جمہوری دنیا میں امتیازی شناخت رکھنے والے ملک کامستقبل دائوپرہے، فرقہ پرست طاقتیں عوامی غصہ کی شکل میں اپنےناپاک ارادوںکی تکمیل میں مصروف ہے ایسے میں اگر ملک کے حساس شہری احتجاج درج کرارہے ہیں تواسے سیاست کی آمیزش سے لبریزکرکے اس کی اہمیت کرنے کی حکومتی سعی جارہی ہے لیکن اس سے آنکھیں چورائی جاسکتی ہیں کہ آج ملک میں غیراعلانیہ ایمریجنسی نافذ ہوچکی ہے اور غیرکی حفاظت کے نام پر ایک مخصوص طبقہ کو دانستہ نشانہ بنایاجارہاہے ۔

اب تک فرقہ وارانہ فساد کی آڑمیں مسلمانوںکی نسلی تطہیرکی جاتی رہی اورآزادی کے ۶۷؍ برسوںبعد فرقہ وارانہ سیاست کی آنچ کم ہوگئی توپھرگائے ذبیحہ کوعقیدت کے دوپٹے سے باندھ دیاگیا اوراب اس کے بہانے وہی کارنامے انجام دئے جارہے ہیں۔نئی نسلوںکےکچے دماغ میں نفرت کا زہربھرا جارہا ہے مگرحیرت اس بات پر ہے کہ گلوبلائزیشن اور ترقیاتی چمک د مک کے اس دورمیں بھی تعلیم یافتہ نسل کا آسانی کے ساتھ سیاسی استعمال کرلیا جارہاہے ۔

ہندوستانی جمہوریت آج اس موڑپر جاکھڑی ہوئی جہاںسے صرف تباہی کے راستے واہوتے ہیں اس لئے اگر وقت رہتے ہوش کے ناخن نہیں لئے گئے تو جمہوریت کا جنازہ نکلتے دیرنہیں لگے لگی ۔قومی راجدھانی میں جموں وکشمیرکے رکن اسمبلی انجینئرراشدنے اپنے چہرے پر لگی سیاہی کو دکھاتے ہوئے اس طرح حقیقت کی ترجمانی کی کہ یہ گاندھی کا ہندوستان نہیں ،مودی کا ہندوستان ہے ، دنیا کہتی ہے کہ پاکستان میں طالبان ہے مگراب ہندوستان میں بھی طالبان پیداہوگیاہے۔

فرقہ پرست تنظیموںکےارادوںسے واقف امن پسند شہری سخت اضطراب میںہےاورانہیں اب فکرشدت کے ساتھ پریشان کرنے لگی ہے کہ اگرانہیں بروقت نہیں روکا گیا تو ملک کا جمہوری ڈھانچہ تباہ ہوجائےگااور بعدجوکچھ بچے اس کی حیثیت ایک مشت خاک کےس واکچھ نہیں ہوگی لیکن ان کے پاس بھی کوئی تدبیرنہیں ہے ،باستثنائے چندملکی میڈیا حکومت کا غلام بن گیاہے اورصحافی کھنکتے ہوئے چندسکوںمیں اپنے ضمیرکا سوداکررہےہیں جس کی وجہ سے ان کے منہ سے زبان چھن گئی ہے۔ایسے ماحول میں ملک کی حقیقی صورتحال سے عوام کوروشناس کرانے کا بھلا کون ساطریقہ بچ جاتا ہے۔

آج امن پسندعوام کی ذمہ داری دوہری ہوگئی ہے اورانہیں مصلحت پسندی کےاصول سے بغاوت کرکے سڑکوںپرآنا ہوگا ورنہ پاگل بھیڑ جب اندھی ہوجاتی ہے تواسے کچھ سوجھائی نہیں دیتا ہے اوروہ دوسرے کا گھرکرسمجھ اپنا خانمابھی بربادکرلیتی ہے ، تشددسے تشددکی ایک نئی شکل جنم لیتی ہے ؛ختم نہیں ہوتی ،اس بات کو نوجوان نسلوںکے ذہن میں بٹھاناہوگا ورنہ اس کے نتائج بہت ہی بھیانک برآمدہوںگے ۔عدم تشددکی علامت بن چکے موہن چندکرم گاندھی کے ہندوستان کی ایسی حالت ہوگی اوراتنی جلد ی ہوگئی

پاگل بھیڑکے ہاتھوںداردی میں محمد اخلاق اور شملہ میں محمدزاہدکے بہیمانہ قتل اور حکومت کی مجرمانہ خموشی کے بعدایسا لگا لگنے لگا ہے کہ ملک میں قانون ،پولیس اورعدلیہ کے بے معنی ہوگئے ہیں

کم ازکم یہ بات توکسی نے نہیں سوچی ہوگی ۔

ہندوستان اس اعتبارسے بہت خوش قسمت ملک ہے جس کی اکثریت آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اوراس کا براپہلویہ ہے کہ اس کا نوجوان شہری پڑھا لکھاجاہل،دانشوری کی دولت سے محروم اورپاگلوںکی صف میں کھڑا ہےجس کی وجہ سے سیاسی طبقہ اس کی صلاحیتوںکوملکی مفادمیں استعمال کرنے کی بجائےنفرت کی تشہیر اورتشددکی نئی تعبیرکیلئے کررہےہیں۔

مسلمانوںکو بھی نوشتہ دیوارپڑھ کرقدم بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ دشمنوںکوکوئی موقع فراہم نہ ہو،مصلحت، دانشمندی اور تدبرتومسلمانوںکے چوکھٹ کی کنیزرہی ہے لیکن نہ جانے کیوںآج مسلمان اس سے محروم نظرآتاہے حالاںکہ سیرت نبوی کے روشن پہلوہمیں بدترسے بدترحالات میں بھی سلیقہ مندانہ زندگی گزارنے کی رہنمائی کرتے ہیں۔


***************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 472