donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Sabir Raza Rahbar
Title : نتائج انتخابات خود مسلمانوں کیلئ
   Nataej Intekhabat Khud Musalmano Ke Liye Dawate Ehtesab


 

 نتائج انتخابات خود مسلمانوں کیلئے بھی دعوت احتساب

 

صابررضا رہبر


چارریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے نتائج کانگریس سے زیادہ مسلمانوں کیلئے مایوس کن اورعبرت آمیز 
ہیں۔ان نتائج کوسامنے رکھنےبعدملک کا جوسیاسی منظرنامہ ابھرتاہے وہاں دوردورتک مسلم نمائندگی کا وجودنظرنہیں آرہا ہے۔اس حقیقت کوجاننے کے باوجود کہ سیاسی قوت کے بغیرحقوق کی بازیافت محال ہے ؛مسلمان اورمسلم قائدین مجرمانہ غفلت برت رہے ہیں۔اسمبلی سے لے کر پارلیمنٹ تک مسلمانوں کے نمائندوں کی کم ہوتی تعداد اس بات کااعلامیہ ہے کہ ہندوستانی مسلمان اپنے حقوق کی بازیافت کیلئے یا تو سنجیدہ نہیں ہیں یاپھروہ حددرجہ احساس کمتری کے شکارہیں اوریہ دونوں باتیں کسی بھی قوم کی تنزلی کا اہم سبب ہے۔مسلمان اس ملک کی دوسری بڑی اکثریت ہے ، تعدادکے اعتبارسے ہرریاست کی اسمبلی میں اس کی تعداد اپوزیشن کے مطابق نہ سہی توکم ازکم اتنی توضرورہونی چاہئے تھی کہ وہ اپنی آواز پوری قوت کے ساتھ بلند کرسکے مگرحالت بایں جارسیدکہ ان کی تعدادکہیں آٹے میں نمک کے برابرہے تو کہیں آٹابالکل ہی بے نمک ہے۔چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش ،راجستھان اوردہلی کے انتخابی نتائج اوروہاں کی نشستوںکا موزانہ عبرت سے خالی نہ ہوگا۔چھتیس گڑھ میں کل نشستوں کی تعداد۹۰؍ ہے جہاں گزشتہ معیاد میں دومسلم چہرے تھے لیکن اس بار ایک بھی مسلم امیدوارکامیاب نہیں ہوسکے یعنی وہاں کی مسلم کمیونٹی سیاسی قوت سے پوری طرح محروم ہوگئی جبکہ مدھیہ پردیش میں ۳۲۱؍نشستوں کی تعدادہے ،کانگریس نے وہاں ۵؍اوربی جے پی نے ایک مسلم امیدوارکومیدان میں اتاراتھا مگرکامیابی صرف ایک مسلم امیدوارکے حصہ میں آئی یعنی وہاں کی اسمبلی میں مسلمانوں کی آواز بلند کرنے والا صرف ایک ایم ایل اے عارف عقیل ہیں۔اسی طرح راجستھان میں۲۰۰؍نشستیں ہیں ؛یہاں کانگریس نے ۱۴؍اوربی جے پی ۱۲؍مسلم امیدواروںکو ٹکٹ دیاتھا لیکن یہاں بھی بی جے پی کے دوامیدوار یونس خان اورحسیب الرحمن کامیاب ہوئے بقیہ امیدواروں کوناکامی کا منہ دیکھناپڑا۔اسی طرح قومی راجدھانی دہلی میں۷۰؍سیٹیں یہاں بھی گزشتہ معیادکی طرح۵؍مسلم امیدوارہی کامیاب ہوئے۔


ان نتائج سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں جن کا جواب دیئے بغیر قوم مسلم کی سیاسی قبلہ کونہ تودرست کیاجاسکتا ہے اورنہ ہی ان کی حیثیت کوثابت کی جاسکتی ہے۔آخرکیاوجہ ہے کہ ملک کی دوسری بڑی اکثریت ہونے کے باجودمسلم امیدواراپنی تعدادکے اعتبارسے قانون سازاداروںمیں اپنی نمائندگی درج کرانے میں ناکام ثابت ہورہے ہیںحالاںکہ یہ تو وہ قوم ہے جس نے دنیا کو فکروتدبر،سیاست وقیادت اوربصیرت وبصارت کی خیرات عطا کئے پھرآج اسی کی ہاتھوںمیں سیاسی کشکول تھمایاجارہاہے۔اس کیلئے کچھ لوگ مسلمانوںمیں مسلکی اختلافات کو الزام دیتے ہیں لیکن میں اس سے قطعی اتفاق نہیں رکھتا ہوں،ہندؤوںمیں کتنے اختلافات ہیں پھراس کی نوعیتیں بھی کہیںزیادہ سنگین ہیں،ذات پات کی بنیاد پربھید بھاؤ کے علاوہ اونچ نیچ کی سیاست بھی عروج پر ہے۔ماویاوتی جیسی ایک خاتون دلت ہونے کے باوجود ملک کی سب سے بڑی ریاست کی وز یراعلیٰ بننے میں کامیاب ہوجاتی ہے وہ بھی کسی سے اتحاد کئے بغیر ۔کیاوہ صرف دلتوں کے ووٹ کی بدولت اقتدارکی کرسی پربراجمان ہوگئیں ،اگر اس میں مسلمانوںکا رول تھا (بلکہ اہم کردارتھا) تو پھرمسلمان ایسی سیاسی پالیسیاں کیوں نہیں ترتیب دیتے جس سے دلت یادیگر کمیونٹی کے افراد ان سے قریب ہوسکیں۔کیرالہ کی مسلم لیگ اورکشمیر کی علاقائی جماعتوںکواگر مستثنیٰ کردیں تو ہندوستان کا سیاسی منظرنامہ مسلمانوں کے قابل ذکروجودسے خالی ملےگا۔حالاں کہ قوموں کے عروج وزوال کی تاریخ شاہدہے کہ ماضی اورحال کے تجزیہ کے بعدجوفیصلہ لیاگیاہے وہی روشن مستقبل کا پیش خیمہ ثابت ہوا،اورایسے فیصلے کرنا اسی وقت ممکن ہوسکا ہے جب انسان خودکواحتساب کے عمل سے گزارےکیوں کہ یہ ایک ایسامقدس عمل ہے جہاں انسان ماضی کی غلطیوں اورحال کی نزاکتوں کوسامنے رکھ کرمستقبل کیلئے لائحہ عمل طے کرتا ہے۔خوداحتسابی کے دوران انسان کو کئی مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے ،کبھی وہ خودکوملزم گردانا جاتاہے ،پھرمجرم اورپھرخودہی منصف کے منصب پر فائز ہوکر اپنے لئےسزاکا تعین کرتا ہےیعنی وہ بیک وقت مدعی ،گواہ اور منصف ہوتا ہے پھربھی جیت سچ کی ہوتی ہے۔اس عمل کوباربار دوہرانے والا انسان ہی تاریخ کا رخ موڑنے میں کامیاب ہواہے۔اسلام میں خوداحتسابی کوبڑی اہمیت دی گئی ہے اوراس عمل سے گزرنے والے شخص کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی گئی ہے بلکہ اس کیلئے آخرت میںاجروثواب کاوعدہ بھی کیاگیاہے۔لیکن اسلام کے ہرنسخہ کیمیا کی طرح اس سے مسلمان مجرمانہ غفلت برت کر تنزلی کے شکارہوتے رہے اورغیر اس پر عمل پیرا ہوکرترقیوں کے منازل طے کررہے ہیں۔


پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے نتائج ہمارے دعوے کو دلیل فراہم کرتے نظرآتےہیں۔بی جے پی فرقہ پرستانہ شبیہ رکھنے کے باوجود کانگریس کے ہاتھوںمیں اقتدارکی بجائے کشکول تھمانے میں کامیاب رہی ہے۔مجھے یاد آرہاہے کہ گزشتہ عام انتخابات میں جب بی جے پی کو شکست کا سامنا کرنا پڑاتھا تو اس وقت پارٹی کے پالیسی سازلیدروں نے کہاتھاکہ ہم تجزیہ کریں گے کہ کس موڑپرہم سے چوک ہوئی ہے اورآج اس نے کانگریس کونہ صرف دہلی میں بلکہ راجستھان میںبھی اقتدارسے بے دخل کردیا ۔یہ درست ہے کہ دہلی میں عام آدمی پارٹی کی وجہ سے کانگریس کی یہ درگت ہوئی ہے لیکن راجستھان ودیگر ریاستوںمیں اس کا مقابلہ براہ راست بی جے پی سے تھا۔میری نظرمیںبی جےپی کی فتح کی اصل وجہ یہ ہے کہ اس نے ماضی کی غلطیوںکودوہرانے کی بجائے نئی پالیسیاں ترتیب دیں اورپھروقت کے نبض پر ہاتھ رکھ کر فیصلہ کیا آج جب کہ کانگریس کی شکست ہوئی ہے تووہ بھی خوداحتسابی کی بات کررہی ہے لیکن آج تک میں نے کسی مسلم سیاسی قائد کی زبان سے یہ نہیں سنا کہ ہم اپنی شکست کے اسباب پرغورکریں گے۔


تقسیم ہندکے ۶۵؍برسوں بعدبھی مسلمان اپنے ہی ملک میں بے گانوںکی زندگی جی رہے ہیں ،ملک کی دوسری بڑی اکثریت ہیں پھربھی فرقہ وارانہ فسادات کے بہانے تاراج کئے جارہیں اورہرمحاذپردفاعی پوزیشن میں نظرآرہے ہیں ؛آخریہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا اس پر مسلم قائدین کو سرجوڑکربیٹھنے کی ضرورت ہے۔یہ زیادہ دنوںکی بات نہیں ہے جب سکھو ںکی حالت بھی آج کے مسلمانوںکی طرح تھی ۔ہرپگڑی ڈاڑھی والا دہشت گردقراردیدیاجاتا تھا لیکن سکھ قوم تین دہائی سے کم عرصہ میں ہی اپنی حیثیت منوانے اوراپنی عرفیت تبدیل کروانے میں کیوںکر کامیاب ہوگئی۔ مانا کہ منموہن سنگھ کے وزیراعظم بننے کےبعدسکھوں کی مجموعی ترقی میں قابل ذکراضافہ ہوا ہے لیکن اس پہلو پربھی دماغ خرچ کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر سونیا گاندھی اپنی ساس کوقتل کرنے والے شخص کی قوم کے فرد کو ملک کے سب سے بڑے عہدے پر فائز کرنے پر کیوں مجبورہوئیں۔کیا اس سے انکارکی گنجائش ہے کہ یہ سب سکھوں کی سیاسی بیداری کا نتیجہ ہےلیکن قوم مسلم پے بہ پے ٹھوکریں کھانے کے بعد بھی اپنا کوئی مضبوط سیاسی پلیٹ فارم نہیں بناسکی جس کی وجہ سے اس کی سیاسی حیثیت بھی مفقود ہوتی نظرآرہی ہے۔ دہلی میں بی جے پی نے ایک بھی مسلم امیدوارکو ٹکٹ نہیں دیا۔ کانگریس نے بھی صرف چند پر اکتفا کیا جبکہ عام آدمی پارٹی نے ۶؍نشست پرہی مسلم امیدواروںکومیدان میں اتاراجبکہ دہلی کے۸؍اسمبلی حلقے ایسے ہیں جہاں مسلمانوںکی آبادی ۴۰؍فیصد سے زیادہ ہے۔


مسلمانوںکواب بینڈ باجہ اورباراتی کا کردارنبھانے کے ساتھ ساتھ دولہا بننے کےتجربہ کو آزمانا پڑے گا،آخرکب تک اپنے ووٹوںکی بدولت دوسروںکواقتدارکی کرسی پر براجمان کرتے رہیں گےاورغیروں کی فتح کے جشن میں پٹاخے پھوڑکراپنے فرائض سے سبکدوش قراردیتے رہیں گے ۔ ہندوستان میں جمہوری نظام ہے اورلوک سبھا انتخابات قریب ترہیں اگرذراہوش وخردسے کام لیاگیا تو مسلمانوں کاسیاسی قبلہ درست ہوسکتا ہے۔ 


sabirrahbar10@gmail.com
9470738111


۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

Comments


Login

You are Visitor Number : 757