donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Sabir Raza Rahbar
Title :
   Seyasi Leaderon Ki Shar Angezian


 

سیاسی لیڈروں کی شرانگیزیاں


حکومت وانتظامیہ کی دوہری پالیسی جمہوریت کی روح کو گھائل اورعوام کے

اعتمادکو متزلزل کرتی ہے کہ کیا واقعی ہم ایک جمہوری ملک کے باشندے ہیں


صابررضاررہبر


کسی مخصوص طبقہ کے خلاف شرانگیزی کبھی بھی تعمیری سیاست کا حصہ نہیں رہی اورنہ ہی جمہوری  معاشرہ میں اس کی اجازت نہیں دی  جاسکتی ۔ضابطہ اخلاق کا نفاذ اسی لئے کیاگیاتاکہ کوئی جمہوریت کی روح سے چھیڑچھاڑکی جرأت نہ کرسکے ۔چوںکہ سیاست میں نظریاتی جنگ ہوتی ہے ،امیدواراپنے مدمقابل کی پالیسی اوران کے نظریات کو ہدف تنقیدبناتاہے اوراس کے پس پردہ بھی مقصدقوم اور ملک کی بھلائی ہوتی ہے ،لیکن براہوآج کی سیاست کا؛ جہاں پالیسی اورنظریات کوانتخابی ایجنڈہ بنانے کی بجائے ایک دوسرے کے خلاف برسراسٹیج شرانگیزی  اورملک کا امن وامان غارت کرنےکی روش عام ہوتی جارہی ہے۔ہندوستان کا شمار دنیا کی عظیم جمہوریتوں میں ہوتا ہے؛ لیکن ۱۶؍ویں عام انتخابات کے دوران  سیاسی لیڈروںکے جوبیانات  آرہے ہیں انہیں تعمیری سیاست سے جوڑکردیکھا جاناتودورجمہوریت میں  اس کی تھوڑی گنجائش  نکالنا بھی سم قاتل  ہے۔ایک ایسا ملک جس کے باشندوںکا تعلق مختلف مذاہب وقبائل سے ہو؛ وہاں کسی ایک خاص طبقہ یاشخص  کے خلاف نفرت انگیز بیانات دینا؛ اس کے جمہوری نظام کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے۔

 ملک میں انتخابی جنگ اپنے شباب کوپہنچ چکی ہے اورہر پارٹی کے لیڈران دوسرے کوشکست دینے کیلئے کسی بھی حد تک جانے پرآمادہ ہیں ۔تہذیب وشائستگی ،ملکی مفادات اورشرافت کوکسی قصہ پارینہ کاحصہ سمجھ کر بالائے طاق رکھ دیاگیاہے۔جمہوریت میں نفرت کی کسی بھی شکل کوروانہیں سمجھا جاسکتا اورنہ اس کی حوصلہ افزائی کی جاسکتی لیکن اگر قانون کے رکھوالے ہی اس تعلق سے الگ الگ پیمانے مقررکرلیں تو اسے جمہوریت کی بدقسمتی ہی کہاجاناچاہئے ۔گزشتہ دنوں سہارنپورسے کانگریس امیدوارعمران مسعود کی ایک ویڈیوکلپنگ میڈیامیں آئی جس میں مودی کے خلاف قابل اعتراض باتیں تھیں،پولیس کی تحقیق کے مطابق یہ تب کی تھی جب وہ کانگریس میں نہیں تھے یعنی یہ چھ ماہ پرانی ہےلیکن عمران مسعودکے خلاف شکایت درج ہونے کے فوراً بعدآدھی رات کو پولیس نے اسے گرفتارکرلیا اورپھر۱۴؍دنوںکی عدالتی حراست میں بھیج دیا گیا حالاںکہ اس پرانتخابی ضابطہ اخلاق کا نفاذبھی نہیں ہوتا کیالیکن راجستھان کی وزیراعلیٰ وسندھرا راجے سندھیا اورامت شاہ نے کھل کرمسلمانوںکے خلاف زہرافشانی کی ،امت شاہ کے خلاف تودددو ایف آئی آربھی درج ہوچکی ہیں لیکن ان کےخلاف الیکشن کمیشن اورپولیس کے ہاتھ اب تک نہیں اٹھ سکے ہیں ،الیکشن کمیشن خانہ پوری کیلئے محض نوٹس جاری کرکےہی فرائض سے 
سبکدوشی حاصل کرلی۔انتظامیہ کی یہی دوہری پالیسی ہے جوجمہوریت کی روح کو گھائل کرکے رکھ دیتی ہے اورپھرعوام کوکنفیوژن ہونے لگتا ہےکہ کیا واقعی ہم ایک جمہوری ملک کے باشندے ہیں ۔اگر عمران مسعود،امت شاہ اور وسندھرا راجے سندھیاکے اشتعال انگیز بیانات کا تجزیہ کیاجائے تو آخرالذکردونوں کے بیانات زیادہ زہریلے ہیں ۔اس مبینہ ویڈیو میں عمران مسعود کہہ رہے تھے ،میں سڑک کا آدمی ہوں ، اپنے لوگوں کے لئے جان بھی دے سکتا ہوں ،نہ میں مرنے سے ڈرتا ہوں ، نہ مارنے سے وہ (نریندر مودی) سمجھتے ہیں یہ گجرات ہے ،گجرات میں صرف چار فیصد آبادی مسلمانوں کی ہے ، جبکہ یہاں ۴۲؍فیصد مسلمان ہیں اگریہاں ایسا کچھ کیا ٹکرے ٹکرے کرکے رکھ دوںگا ۔چھے ماہ پرانی ویڈیوکے منظرعام پرآنے کے بعدانہوںنے معافی بھی مانگ لی، پھربھی انہیں جیل کی ہوا کھانی پڑی ۔اب امت شاہ کے بیان پرنظرڈالئے!امت شاہ نے مظفرنگر کے بجنوراورشاملی میں اپنے دورہ کےدوران کہاکہ ہم انتخابات اس لئے لڑرہے ہیں تاکہ اپنی توہین کا بدلہ لے سکیں، یہ انتخابات وقارکیلئے لڑرہےہیں،انہوںنے شاملی میں خطاب کرتے ہوئے کہاکہ اس انتخاب میں اس حکومت کوباہر کا راستہ دکھاناہے جس نے جاٹوںکومارنے والوںکی حفاظت کی اورانہیں معاوضہ دیا ۔امت نے بی جے پی حکومت بننے کے بعدیوپی میں مُلّاملائم کے نہ بچنے کی بات بھی کہی جبکہ بی جے پی کی سینئر لیڈر اور راجستھان کی وزیر اعلی وسندھرا راجے سندھیا علی الاعلان مسلمانوں کوٹکرے ٹکرے کرنے کی دھمکی دے رہی ہیں ۔امت شاہ مودی کے سب سے قریبی مانے جاتے ہیں اورگجرات فسادات کے سلسلے میں جیل بھی جاچکے ہیں اورابھی ضمانت پر چل رہے ہیں ۔امت کے خلاف بجنورمیں دوجگہوں پر ایف آئی آردرج کرائی گئی ہے۔ بجنورمیں آئی پی سی کی دفعہ ۳۱۵(کے) اور۱۲۵ کے تحت مقدمے درج کئے گئے ہیں۔ لیکن ابھی تک الیکشن کمیشن نے کوئی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے ۔کمیشن شکایت کے بعدبیان کی سی ڈی جانچ کرنے کی کارروائی میں مصروف ہوگئی ؛پھرامت کے نام سے نوٹس جاری کردیااورامت شاہ ہائی کورٹ کی پناہ میں چلے گئے اب دیکھناہے کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ کیا آتا ہے۔

انتخابات کے موسم میں کسی لیڈرکی گرفتاری میں احتیاط برتنا اچھی بات ہے لیکن یہ احتیاط کسی خاص طبقہ وشخص کیلئے ہی کیوں؟آخرکمیشن اورپولیس نے یہی رویہ عمران مسعودکے تعلق سے کیوں نہیں اپنایا ۔میں عمران مسعودکے بیان کی حمایت ہرگز نہیں کرسکتا لیکن اسی کے ساتھ پولیس کی کارروائی سوالات کے گھیرے میں ضرورآجاتی ہے۔ مظفرنگرجہاں حال میں فسادات ہوئے ہیں ،سیکڑوںگھروںکوفرقہ وارانہ فسادات کی آڑمیں جلاکر ہزاروںافرادکوبے گھرکردیا گیا۔ ابھی تویہاں کی آگ بھی ٹھنڈی نہیں ہوئی ہے ۔ایسے مقام پرکسی ایسے شخص کوجانے کے اجازت دینا جس کے ہاتھ بے گناہوںکے خون میں ڈوبے ہوئے ہوں ؛یوپی حکومت کایہ فیصلہ کم ازکم میری سمجھ سے بالاترہےاورپھراس طرح حساس ماحول میں شرانگیزبیان بازی کرنا آگ میں تیل ڈالنے کے مترادف ہے؛ایسے حالات میں بھی الیکشن کمیشن اورمقامی پولیس کی موجودہ کارکردگی اس بات کا احساس کرانے کیلئے کافی ہے کہ ہندوستان سے سیکولرزم کا بوریا بسترباندھنے کی تیاری زورپکڑچکی ہے۔

الیکشن کمیشن الیکٹرانک وپرنٹ میڈیا سمیت سوشل میڈیا پر بھی اپنی نظررکھنے اوران پرشائع ہونے والے غیرقانونی تشہیر کوضابطہ اخلاق کے دائرے میں لاکرکارروائی کرنے کا دعویٰ کررہا ہے لیکن یہ واقعات کمیشن کے بیان میں صداقت کی نفی کررہے ہیں۔ضابطہ اخلاق کا نفاذ ہی 
لیڈروںکی زبان پرلگام لگانے کیلئے کیا گیاتھا لیکن اس کے استعمال میں بھی تفریق برتی جانے لگے توپھرشفاف انتخابات کی بات ازخودبے معنی ہوکررہ جاتی ہے۔انتخابات کے دوران ایک مخصوص طبقہ کے خلاف نفرت انگیز بیان بازی کوئی نئی بات نہیں رہ گئی ہے۔ آزادی کے بعدسے ہی ہندوستان کی سیاست اسی دھڑے پرچل رہی ہےلیکن گزشتہ دودہائیوں میں اس روایت نے زیادہ جڑپکڑلی ہے ،اب تو بغیرذات ومذہب پرکیچڑاچھالے انتخاب لڑنے کا تصورہی نہیں کیاجاسکتا خواہ دبی زبان سے ہی سہی ۔۱۹۹۲ میں بی جے پی لیڈر لال کرشن اڈوانی نے اپنی رتھ یاترا کے ذریعہ جی بھرکرنفرت کی سیاست کی اورپورے ملک میں گھوم گھوم کر ایک مخصوص فرقہ کے خلاف شرانگیزی کی ۔اڈوانی کا یہ فرقہ پرستانہ سیاسی کھیل بہت کامیاب رہا ،با بری مسجدکی شہادت کے بعد اڈوانی کی شہرت وترقی کوجیسےپرلگ لگے ۔اسی نسخہ کو بی جے پی ہرانتخابی موسم میں آزمانے لگی جوبالآخر اس کی شناخت بن کررہ گئی ۔بی جے پی کے ایل کے ڈوانی ، مرلی منوہرجوشی ،اوما بھارتی ،ونے کٹہیار،یوگی آدتیہ ناتھ ،کلیان سنگھ ،نریندرمودی ،ورن گاندھی اورامت شاہ مسلمانو ںکے خلاف زہرافشانی کیلئے مشہورہیں اوران لوگوںکی سیاسی بساط اسی سے قائم ہے۔

۲۰۰۹ میں بی جے پی لیڈرو رون گاندھی نے پیلی بھیت میں مسلمانو ںکے خلاف جم کر ہرزہ سرائی کی تھی ،وقتی طورپرکارروائی توہوئی لیکن عدالتی کارروائی کے دوران سارے معاملے پرلیپا پوتی کردی گئی اورمسٹرگاندھی سیکڑوں منہ بولتے ثبوتوںکی موجودگی میں عدالت سے بے گناہ قراردے دئے گئے۔ دراصل انتخابات کے دوران نفرت بھرے بیانات کے سلسلہ کودوام بخشنے میں ایسی عدالتی کارروائیاں اہم کرداراداکرتی ہیں۔اب دیکھنا  ہے کہ جمہوریت پسندعوام ملک کے سیکولرجمہوری کردارکی حفاظت کس طرح کرتے ہیں ۔ذات ،پات اورمذہب کے دھاگوںمیں الجھ کر فرقہ پرستوںکے ہاتھوںمیں اقتدارکی باگ ڈورتھمادیتے ہیں یاپھر دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک سیکولرہندوستان کی تعمیر کی ٹھوس پہل کرتے ہیں ؟

۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 603