donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Sajjad Qadir Naved Fatah
Title :
   Supreme Court Me Urdu Ki Fatah

سپریم کورٹ میں اُردو کی فتح

 

سجاد قادرنوید فاتح

 

جنگ عظیم دوم میں جب امریکا نے ہیروشیما اور ناگاساکی کو تباہ و برباد کر جاپان پر قبضہ کیا‘ تو جاپانی شہنشاہ ہیروہیٹو نے امریکیوں کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے ایک شرط رکھی… یہ کہ اس کے وطن کی قومی زبان جاپانی ہی رکھی جائے۔‘‘یہ ایک تاریخی فیصلہ تھا کیونکہ اس طرح شہنشاہ جاپان نے اپنی قوم کو امریکی قوم کا غلام بننے سے بچا لیا۔ ذرا سوچیے، اگر فاتح امریکی اپنی زبان (انگریزی) مفتوح جاپانیوں پر تھوپ دیتے، تو رفتہ رفتہ جاپانی بدیسی تہذیب و تمدن میں رچ بس جاتے۔ لیکن آج بھی جاپانیوں نے صدیوں پرانی اپنی تہذیب و ثقافت کو سینے سے لگا رکھا ہے۔

تاریخ کا سبق یہی ہے کہ قوموں اور تہذیبوں کا وجود ان کی زبان ہی سے قائم دائم رہتا ہے۔ اگر قومی زبان ہی زندہ نہ رہے تو بڑی سے بڑی تہذیب اور شاندار قوم بھی قصۂ پارینہ بن جاتی ہے۔ مثلاً ایک زمانہ تھا جب ہندوستان تا ترکی بیشتر علوم فارسی میں لکھے اور پڑھے جاتے تھے۔ مگر جب دیگر زبانیں اس پر حاوی ہوئیں، تو فارسی ایران تک سمٹ گئی۔

شہنشاہ جاپان کی حکمت عملی سے جاپان کی قومی زبان زندہ رہی۔ اپنی زبان ہی میں تعلیم پا کر جاپانیوں نے پھر اپنی مملکت کو سائنس و ٹیکنالوجی کی دوڑ میں سرفہرست اور بہت بڑی معاشی قوت بنا ڈالا۔ اگر اس وقت ہیروہیٹو یہ شرط نہ رکھتا تو شاید آج جاپان امریکا کی کالونی بن چکا ہوتا۔

تاریخ گواہ ہے، جن اقوام نے اپنی زبان کی حفاظت کی وہ نہ صرف زندہ رہیں بلکہ دوسری قوموں پر بھی راج کیا۔ جنھوں نے دوسروں کی زبانوں کو اپنانا چاہا تو ’’کوّا چلا ہنس کی چال اپنی چال بھی بھول گیا‘‘ کے مصداق اپنا وقار بھی کھو بیٹھیں۔

اب پاکستان کی مثال لیجیے۔ ہماری قومی زبان اردو ہے، مگر سٹرسٹھ برس سے اسے سرکاری محکموں میں رائج نہیں کیا جا سکا۔ اس کی بے قدری کا یہ عالم ہے کہ سٹرسٹھ برس بعد حال ہی میں سپریم کورٹ کے ایک جج جناب جسٹس جواد ایس خواجہ کو یہ توفیق ہوئی کہ وہ اردو میں فیصلہ قلمبند کریں۔

جسٹس جواد ایس خواجہ یقینا لائق تعریف ہیں کہ انھوں نے صحرا میں اذان دی اور اردو کا علم بلند کیا۔ اب روایت قائم ہو چکی۔ ان شا اللہ رفتہ رفتہ قومی زبان کے عاشق دیگر جج صاحبان بھی اردو میں فیصلے دینے لگیں گے۔ چراغ سے چراغ جلتے ہیں۔سپریم کورٹ کا ایک مقدمہ اردو میں لکھا جانا یقینا ہماری قومی زبان کی بڑی فتح ہے۔

اردو زبان نے ہندوستان میں جنم لیا۔ یہ ملک زرخیز زمین، قدرتی وسائل اورافرادی قوت کی وجہ سے سونے کی چڑیا کے طور پر مشہور تھا۔ اسی باعث کئی لوگ دور دراز علاقوں سے یہاں چلے آئے۔ ان کی تہذیب و ثقافت اور زبانیں بھی ساتھ آئیں۔ ان مہاجرین میں یونانی، افغان، ایرانی، ترک اور عرب شامل تھے۔ جب یہ لوگ ہندوستانیوں سے ملے جلے تو نتیجے میں اردو زبان وجود میں آئی۔

یہ زبان مغلیہ حکومت کے دوران پلی بڑھی۔ اسے بولنے والے زیادہ تر مسلمان تھے، اسی باعث وہ مسلمانوں کی زبان کہلانے لگی۔ تاہم رفتہ رفتہ ہندوستان بھر کے لوگ یہ زبان بولنے لگے۔ چناںچہ انھوں نے اس زبان کی ترقی کے لیے مل جل کر کام کیا۔ یہاں تک کہ ۱۸۳۷ء میں مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی کوششوں سے وہ ہندوستان کی قومی زبان قرار پائی۔

لیکن جب مغلیہ سلطنت کا خاتمہ ہوا اور برطانوی راج شروع ہوا تو بہت سے ہندو اردو کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنے لگے۔ انگریزوں کے پروپیگنڈے کی وجہ سے ہندوئوں میں مشہور ہو گیا کہ اردو ’’ملیچھوں‘‘ کی زبان ہے۔سو دونوں مسلمانوں کی زبان سے چھٹکارا پانے کی کوشش کرنے لگے۔

اردو کے خلاف پہلی باقاعدہ تحریک انیسویں صدی کے آغاز میں ہوئی جب ایک خالص ہندی زبان وجود میں آئی۔ اس سے عربی، فارسی اور ترکی کے الفاظ حذف کردیے گئے۔ اس نئی زبان میں سنسکرت کے الفاظ بکثرت تھے۔ اسی نئی ہندی میں ایک ہندو نے ’’پریم ساگر‘‘ نامی ناول لکھ مارا، مگر ہندو اور انگریز اسے عوام میں مقبول نہ کرا سکے۔

جب جنگ آزادی ۱۸۵۷ء کے بعد ہندوستان پر انگریزوں کا قبضہ ہوا‘ تو انگریزوں کی شہ پر ہندو اردو کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ ۱۸۶۷ء میں بنارس کے ہندوئوں نے حکومت کو درخواست دی کہ اردو کے بجائے ہندی کو سرکاری زبان بنایا اور فارسی رسم الخط کی جگہ دیوناگری رسم الخط شروع کیا جائے۔ اسی وقت سرسیداحمد خان نے یہ نکتہ اٹھایا کہ جب کسی علاقے میں ایک قوم کی زبان محفوظ نہیں رہ سکتی تو وہاں وہ خود کیسے زندہ رہے گی؟ اس کے بعد سر سیداحمد خان اپنے مجلے ’’سائنٹفک سوسائٹی گزٹ‘‘ میں اردو کی اہمیت و افادیت پر مضامین لکھنے لگے۔

۱۸۷۱ء میں گورنر جی کیمبل نے تمام صوبائی اداروں، انتظامیہ، عدالتوںحتیٰ کہ اسکولوں میں بھی اردو زبان کے استعمال پر پابندی لگا دی۔ یوں ہندوئوں کے منصوبے کو تقویت ملی اور وہ سندھ، یوپی، بہار، پنجاب اور اودھ وغیرہ میں بھی اردو کے خلاف تحریکیں چلانے لگے۔ ۱۸۷۲ء میں جب برطانیہ نے ہندوستان میں انگریزی تعلیم کے اجرا کی خاطر ہنٹر کمیشن بھیجا تو ہندوئوں کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔ مگر سرسید احمد خان کی زبردست مزاحمت کے سامنے وہ ناکام ہو گئے۔

۱۹۰۰ء میں انتھونی میکڈونلڈ (Anthony MacDonald) یوپی کا گورنر بنا۔ انتھونی ایک ہندو نژاد اور مسلم مخالف راہنما تھا۔ اس نے عہدہ سنبھالتے ہی ہندی زبان کو سرکاری صوبائی زبان قرار دے دیا۔ تب سرسید کے ساتھی اور عظیم راہنما نواب محسن الملک نے اس فیصلے کے خلاف تحریک چلائی۔ اس پر گورنر محسن الملک سے بہت خفا ہوا اور دھمکی دی کہ اگر وہ حکومت کے خلاف سرگرمیوں میں حصہ لینے سے باز نہ آئے تو حکومت علی گڑھ کالج کو ملنے والے فنڈز روک دے گی۔ محسن الملک ادارے سے مستعفی ہو گئے مگر اردو کی حفاظت کرنے سے پیچھے نہ ہٹے۔ جب انتھونی یوپی سے رخصت ہوا، تو محسن الملک نے ’’انجمن ترقی اردو سوسائٹی‘‘ قائم کر لی جس کا مقصد انگریزوں اور ہندوئوں کے پروپیگنڈا کا توڑ دریافت کرنا تھا۔

قیام پاکستان کے بعد اردو ادب پھلا پھولا۔ ناول، افسانہ، سفر نامہ، شاعری غرض اُردو کی ہر صنف میں خوب لکھا اور پڑھا گیا۔ اس کے باوجود سرکاری سطح پر فروغ اُردو کی خاطر اقدام نہیں کیے گئے۔ اسی باعث خصوصاً شہروں میں بہت سے گھرانے اپنی قومی زبان بالائے طاق رکھتے ہوئے انگریزی کی آغوش میں جا پہنچے۔ آج کئی گھروں میں بچے انگریزی میں سلام دعا کرتے اور حال چال پوچھتے ہیں۔ والدین یہ دیکھ کر بگڑنے کے بجائے الٹا خوش ہوتے ہیں۔

آج ہم رشتے داروں کو یہ بتاتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں کہ ہمارے بچے ’’انگلش میڈیم‘‘ اسکول میں زیرتعلیم ہیں۔ حالانکہ اے لیول، او لیول کے چکر میں ہم نے نہ صرف اپنی تہذیب و ثقافت کو روند ڈالا بلکہ اسلامی تعلیمات بھی پیچھے چھوڑ آئے۔

انگریزی اسکولوں کی تعلیم نے ہمارے بچوں کو ورڈزورتھ، کیٹس، شیلے، برنارڈشا، شیکسپیئر اور ہارڈی کے نام اور ان کی تعلیمات تو سکھا پڑھا دیں۔ مگر جب ہم محمد بن قاسم، محمود غزنوی، صلاح الدین ایوبی، طارق بن زیاد یا کسی صحابی رسولؐ کے متعلق دریافت کریں، تو وہ جواب میں بغلیں جھانکنے لگتے ہیں۔

پاکستان میں انگریزی کا جن بوتل سے کچھ ایسا باہر آیا کہ دفتر و اسکول میں، انٹرویو کے وقت غرض ہر جگہ وہ چھا چکا۔ صد افسوس کہ اب انگریزی زبان میں داخلہ امتحان اور ملازمت کا بھی معیار بن رہا ہے۔ ہم اپنی زبان تج کر اپنا سارا نصاب انگریزی میں تبدیل کر چکے۔ جب کہ بھارت اور چین میں دنیا بھر کا علم قومی زبانوں میں منتقل کیا جا رہا ہے۔ مدعا یہی ہے کہ نئی نسل کو قومی زبان میں تعلیم دے کر اُسے دنیا میں اعلیٰ و نمایاں مقام دلوایا جائے۔ ایک ہم ہیں کہ جامعات کے مقالے بھی انگریزی میں تحریر کیے جاتے ہیں۔

حکومت کی بے توجہی کے باوجود اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اردو زبان پھل پھول رہی ہے اور اس کا مستقبل تاب ناک ہے۔ ایک اندازے کے مطابق جنوری ۲۰۱۴ء سے اب تک پاکستان میں اردو پر بیس سے زائد بین الاقوامی کانفرنسیں منعقد ہو چکیں۔ یہ اس امر کی دلیل ہے کہ اردو زبان کی ترقی کا سفر جاری ہے۔ اگر حکومت پاکستان چاہتی ہے کہ ہماری تہذیب و ثقافت، رسم و رواج اور اقدار زندہ رہیں تو اسے اردو کو بطور قومی زبان اپنانا ہو گا۔ خاص طور پر پرائمری، ثانوی، اعلیٰ ثانوی اور اعلیٰ تعلیم کا نصاب اردو میں کرنا ضروری ہے تاکہ ہماری آنے والی نسلیں اپنی زبان سے جڑی رہیں اور عالمی سطح پر دوسری اقوام سے برابری کی سطح پر مقابلہ کر سکیں۔


۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 540