donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Salman Abdul Samad
Title :
   Mulayam Khud Ab Party Ke Liye Khatra

ملائم خود اب پارٹی کے لیے خطرہ

 

آرپار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سلمان عبدالصمد


 ملک بھر کی کئی اہم سیاسی جماعتوںکی سرگرمیوں سے ظاہر ہے کہ بہارالیکشن کے نتائج کس قدرسیاسی لحاظ سے اہم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پارٹیاں نئی حکمت عملی تیارکرنے میں مصروف نظر آرہی ہیں ۔مرکزی حکومت تو نتیجہ کے پہلے ہی دن سے حالات کے جائزہ میں مصروف ہوگئی۔پڑوسی ریاست اترپردیش کے سیاسی جغرافی پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں کی سیاست میں آئندہ اسمبلی انتخابات کے مدنظر جوڑ توڑ کی حکمت عملی بھی شروع ہوچکی ہے ۔ ریاست میں برسراقتداسماجوادی پارٹی اپنی مدت کا ر کی توسیع کے لیے عوامی سطح پر کچھ کرکے پچھلے ساڑھے تین سال کی کمزوریوں کی تلافی کرنا چاہ رہی ہے ، لیکن مشکل ہے کہ مسلسل تین ساڑھے تین برسوں میں پے درپے کی گئی غلطیوں کی تلافی کوئی ایک برس میں ہوجائے ۔ پھر بہار کے نتیجے نے بھی یوپی الیکشن کی مشکلیں بڑھادی ہے ۔ یوپی کی موجودہ حکومت کے لیے آگے کی راہ کئی پہلوؤں سے مشکل نظر آرہی ہے ۔

ایک پہلو ملائم سنگھ کے بہار میں قائم ہونے والے اتحاد سے برطرفی بھی ہے ۔ پھر اس برطرفی کو دو دنوں قبل ملائم سنگھ نے مزید اچھال کر سیاست تیز کردی ہے ۔انھوں نے برطرفی کی وجہ کانگریس کی اتحاد میں شمولیت قراردی ہے ۔ انھوں نے دلیل دی کہ کانگریس کو اتحاد ی صف میں جگہ ملنا سماجوادی پارٹی کے ساتھ دھوکہ کے متراد ف تھا ۔ کیوں کہ کانگریس کی عوام مخالف پالیسیوں کی وجہ سماجوادی پارٹی کانگریس سے ہمیشہ الگ رہی ہے ۔ ملائم سنگھ کا یہ بیان کئی لحاظ سے کھوکھلا ہے، بلکہ مزید سماجوادی پارٹی کے لیے نقصان دہ بھی ۔ اول یہ ہے کہ کانگریس جب مرکزی اقتدار میں تھی تو انھوں نے ہمیشہ اس کی حلیف پارٹیوں میں اعلی مقام حاصل کیا ہے ۔ نیوکلیئر ڈیل معاہدہ یا پھر دیگر دوسرے معاملات ، کانگریس کی ہاں میں ہاں ملانا ملائم سنگھ کا شیوہ تھا ۔ تشدد پسند جماعتوں سے دوری بنائے رکھتے ہوئے سماجوادی پارٹی نے کانگریس کو جومضبوطی دینے کی کوشش کی تھی ، اس کا ملائم سنگھ کوبار بار فائدہ بھی ملا اور سب سے بڑھ کر سیکولرزم کا لیبل ان پر اور ان کی پارٹی چسپاں رہا ۔ تاہم کانگریس سے دوری کا راگ اب الاپ کر ملائم سنگھ یہ بھی تاثر دینا چاہتے ہیں سیکولرزم سے ان کا کوئی سروکارنہیں ہے ، فقط جو پارٹی اقتدار میں رہے ، ان سے دوستی نبھانا ہی ہمارا شیوہ ہے ۔ اتحاد سے الگ ہونے کی جو وجہ ملائم سنگھ اب ظاہر کررہے ہیں ، اس سے خود ان کا بھی نقصان ہوتا نظر آرہا ہے ۔ کیوں کہ کسی نہ کسی درجہ میں یہ امید کی جارہی تھی کہ آئندہ پوپی میں الیکشن میں ملائم سنگھ جہاں دیگر پارٹیوں سے اتحاد کریںگے وہیں کانگریس بھی اس کے ساتھ ہوگی ۔ لیکن ابھی سے ہی انھوں نے جیسی زبان کا استعمال کرنا شروع کردیا ہے ، اس سے اتحاد کی امید موہوم ہوتی چلی جارہی ہے ۔ ملائم سنگھ کی اس روش سے کانگریس سے کہیں زیادہ سماجوادی پارٹی کا نقصان ہے ۔ سماجوادپارٹی میں مسلسل ہورہی غلطیوں (خواہ جانے میں ہو یا انجانے میں)کا سلسلہ دراز ہوتا جارہا ہے ۔

 دوسرا پہلو یہ ہے کہ سیاسی پنڈتوں کی قواعد کے لحاظ سے اتحاد سے برطرفی کا ملائم سنگھ کا نقصان ہوا ہے ۔(یہ الگ بات ہے کہ پردہ کے پیچھے ملائم سنگھ کے لیے فائدہ کھیل ہوا ہو )۔ سب سے بڑی سند ان کے ہاتھ میں جو سیکولرزم کی تھی ، وہ چھن گئی ۔یوںتو (موجودہ) سیاست میں سب کچھ جائز ہے ، تاہم انھو ں نے اپنوں سے بھی دشمنی مول لی ہے ۔ساتھ ہی ساتھ یادو اور مسلم ووٹرس ، جو ان کی طاقت ہیں،میں ان کی مفاد پرستی سے کسی نہ کسی سطح برگشتگی کی لہر دوڑ گئی ہے ۔ لاکھ یہ کہا جائے کہ پوپی الیکشن میں بہار کے یادو اور مسلم ووٹروں کی ناراضگی سے کوئی نقصان نہیں ہوگا ، تاہم یہ کہنا حقیقت سے دور ہوگا ۔ سماجوادی پارٹی کی موجودہ حکومت کے قیام میں یادو اور مسلم ووٹوں کا بڑا کرشمہ رہا ہے ۔ ظاہر ملائم سنگھ سے سیکولرزم کی سند چھن جانے سے تمام مثبت خیال مسلمانوں میں ان کے تعلق سے غلط پیغا م گیا ہے ۔ یاد و ووٹروں میں بھی بہار اتحاد سے الگ ہونے کی بنا پر ناراضگی ہے ۔ ایسے میں آئندہ اسمبلی الیکشن ملائم سنگھ کی پارٹی کے لیے مشکل بنتا جارہا ہے۔ یہ بھی کوئی بعید بات نہیں تھی کہ اگر یوپی الیکشن میں ملائم سنگھ یادو کے ساتھ کانگریس کا اتحاد ہوتا ہے تو دیگر ابھرنے والی مسلم پارٹیوں کا بھی انھیں سہارا مل جاتا ۔ کیوں کہ ایسی مسلم پارٹیوں کو بھی بہار میں اندازہ ہوگیا ہے کہ اگر وہ کسی اتحاد میں ہوتے تو ان کی بھی ساکھ مضبوط ہوتی ہے اور کسی نہ کسی طرح پر مسلم ووٹوں کا بکھراؤ بھی رکتا ہے ۔ (یہ الگ بات ہے کہ مسلم علاقوں میں مسلم ووٹوں کے بکھراؤ کے باوجود بھی اس بار کوئی بڑاابُرا لٹ پھیڑ نہیں ہوا) اس لیے ملائم سنگھ کا اتحاد سے برطرفی /بہار الیکشن کے نتیجہ کے بعد بے تکا بیان دینا مناسب نہیں ہے ۔ ایسے ماحول میں ملائم کو اپنی اصل سمجھداری کا مظاہرہ کرنا ہوگا ۔  

تیسرا پہلویہ بھی ہے کہ ترقیاتی کاموں اور بنیادی مسائل کے تناظر میں بھی موجودہ حکومت کا کردار شفاف نہیں ہے ۔ اس معاملہ پر یوپی کے عوام میں موجودہ حکومت کی شبیہ بہتر نہیں ہے۔ اکھلیش حکومت کی یہ بیداری لاکھ اپنی جگہ مستحسن کہ وہ خواب خرگوش سے بیدا ر ہو کر اپنی حکومت کی فلاحی اسکیموں کے جائزہ کے لیے قدم بڑھا رہی ہے ۔لیکن جائزہ سے قبل ہی یہاں کا منظر نامہ واضح ہے ۔ اس لیے بنیادی سہولتوں سے یہاں کے عوام کو جو محرومی نصیب ہوئی ، اس کا اثر بھی آئندہ اسمبلی الیکشن میں صاف دکھے گا ۔ دیگر مسائل سے قطع نظر اگر بجلی کے مسائل کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ وعدے کے مطابق کچھ بھی نہیں ہوا ۔ نہ وافر بجلی کی فراہمی کا معاملہ حل ہوپایا ہے اور نہ ہی پانی کا مسئلہ صاف ہے ، اس صورتحال میں اکھلیش حکومت کا اسکیموں کا جائزہ لینا کوئی اہم کارنامہ نہیں ہوگاہے اور ووٹروں کے دل صاف ہوں گے ۔

چوتھا پہلو یہ ہے کہ ووٹروںکے تناظر میں (بہار اتحاد سے برطرفی سے الگ ) مسلمانوں کے درمیان بھی برگشتگی پھیلی ہوئی ہے ۔ پچھلے الیکشن سے قبل ملائم سنگھ نے مسلمانوں سے دو بڑے وعدے کیے تھے ۔ اول ، بے قصور مسلم نوجوانوں کی رہائی اور مسلمانوں کو اٹھارہ فیصد ریزرویشن ۔ گذشتہ ساڑھے تین برسوں میں یوپی حکومت ان دونوں وعدوں پر کبھی سنجیدہ نظر نہیں آئی ہے ، بلکہ ایسی خاموشی کا مظاہرہ کیا گیا ہے ، جیسے مینوفیسٹو میں اس کے متعلق کچھ کہا ہی نہیں گیا ۔ نوجوانوںکی رہائی کے برعکس یہاں پے درپے تشدد کے واقعات پیش آئے ۔ انسانی جانوں اورخونوں سے ہولی کھیلی گئی ۔ جس کی وجہ سے فطری طور پر سیکولرزم کے حامیوں کو اذیت ناک حالا ت سے گزرنا پڑا ۔ اگر مسلم نوجوانوں کی رہائی کے لیے کوئی قدم اٹھایا بھی گیا تو اتنے ایچ پیچ کی کاشتکاری ہوئی کہ سارا کا سارا معاملہ الجھ کر رہ گیا ۔ یوپی حکومت نے ہائی کورٹ میں البتہ ان کی رہائی کے تعلق سے عرضی داخل کی ، تاہم عرضی پر ہونے والے تمام قانونی کھیل سے پہلے بھی وہ آگاہ تھی ، اس کے باوجود بھی ملائم کی پارٹی نے مسلمانوں کو خوب بہلانے کا کام کیا ۔ رہی بات ریزرویشن کی تو سرے سے ہی اس پر کوئی گفتگو نہیں ہوئی اور اس طرح سماجوادی پارٹی وعدہ خلافی کی مجرم ٹھہری ۔       

اتحادسے برطرفی اور بیان بازی ،کانگریس سے بڑھتی خلیج ، مسلم اور یادو ووٹروں کی ناراضگی ، ساتھ ہی ساتھ ترقیاتی کاموں میں ہورہی تساہلی ، نظم ونسق میں لاپروائی اور وعدہ خلافی سے سماجوادی پارٹی کے لیے مشکلیں بڑھتی ہی جارہی ہیں ۔ موجودہ منظرنامہ میں صاف ظاہر ہورہا ہے کہ ملائم سنگھ یادو اپنے کردار سے آئندہ اسمبلی میں پارٹی کے لیے خود چیلنج بنتے جارہے ہیں اور ایسا محسوس ہورہا ہے کہ داؤ پیچ سے آگاہ ماہر کھلاڑی کا داؤ خود ان کے خلاف ہوگا ۔ ملائم کی یہی روش رہی تو نہ لوک دل (ضرورت پڑنے پر بھی)ساتھ دے گی اور دیگر چھوٹی پارٹیاں ان کے قدم سے قدم ملائے گی ۔ کیوں کہ انھیں اپنی ساکھ کو بھی مجرو ح ہونے سے بچانے کی ذمہ داری نبھانے ہوگی ۔ ہاں ، اگر ملائم کا منشا اپنی پارٹی کا مفاد نہ ہو ، فقط تشدد پسندوں کی کامیابیاں ہی مقصود ہوں تو ان کی رو ش آج بھی مستحسن ہے اور شاید آئندہ بھی؟ ان کا داؤ کارگر ہوسکتا ہے ؟

(یو این این)

موبائل:8287287093
ای میل : salmansamadsalman@gmail.com


********************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 419