donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Sami Ahmad Quraishi
Title :
   Babri Masjid Aur Babaye Qaum Gandhi Jee Ki Shahadat Me Aik Hi Zahniyat Molawwis Thii

  بابری مسجداوربابائے قوم گاندھی جی کی شہادت میں ایک ہی ذہنیت ملوث تھی


آرایس ایس ہندوتواوادیوں کے خلاف سیاسی اورسماجی لڑائی کی سخت ضرورت  


٭سمیع احمدقریشی،ممبئی


۶؍دسمبر۱۹۹۲؍کادن تاریخ ہندکاانتہائی بدترین دن تھا ۔جسے یوم سیاہ بھی کہاگیا۔اس دن ہندوتواوادیوں نے ۵۰۰؍سال پُرانی بابری مسجدکودن دہاڑے،بے شمارحفاظتی دستوں کے ہوتے ہوئے گرادیا۔یہ سب کچھ دستور،قاعدے قانون میں بابری مسجدکیلئے،تحفظات ہونے کے باوجودہوا۔لال قلعہ سے کانگریسی وزیراعظم نرسمہاراؤنے بابری مسجدکے تحفظ کایقین دلایا۔

۱۹۴۸؍میںمہاتماگاندھی کی شہادت ہوئی۔گاندھی جی باپوکومارنے،شہیدکرنے میں جوذہنیت کے لوگ شامل تھے وہی ہندوتواوادی سوچ وفکرکے افراد نے بابری مسجدکوڈھایا،شہیدکیا۔کُھلم کُھلاجگ ظاہرتھاکہ مہاتماگاندھی جی پرخونی حملہ ہوگا،کیوں کہ  ان پرکئی بارخونی حملے ہندوتواوادیوں کے ہوچکے تھے۔جس طرح سے ہندوتوادی تنظیمیں آرایس ایس،بی جے پی،شیوسینا،بجرنگ دل وغیرہ نفرت ،عداوت پرمبنی زہریلی دل آزارتقاریرکررہے تھے۔ان کے لیڈران ایودھیاآرہے تھے یہ اس بات کی علامت تھی کہ وہ ’’مندروہیں بنائیں گے‘‘کلیان سنگھ جب وزیراعلیٰ یوپی بنے تواپنی کابینہ کے ممبران کے ہمراہ ایودھیامیں بابری مسجدمیں رکھی ہوئی مورتی کے سامنے آکریہ عہدکیاکہ’’رام للہ ہم آئیں گے،مندریہیں بنائیں گے۔‘‘

بابری مسجدشہیدہوجائے گی،بابائے قوم مہاتماگاندھی کی شہادت ہوگی۔اس کے کھلے طورپرآثارتھے۔ہندوتواوادی آرایس ایس کی ذہنیت یہ کرکے رہے گی۔یہ واضح طورپرہونے کے باوجودہماری کانگریسی حکومت دونوں کی شہادت کوبچانہ سکی۔مارنے والے،شہیدکرنے والے ایک ہی ذہنیت کے تھے۔ملک کے کانگریسی وزیرداخلہ سردارپٹیل تھے۔مودی جی اورآرایس ایس،بی جے پی کے لوگ سردارپٹیل کی تعریف کرتے نہیں تھکتے۔وہ انہیں سابق وزیراعظم نہروسے بھی بڑامانتے ہے،ان کاکہناہے کہ پٹیل کوملک کاوزیراعظم ہوناچاہئے تھا۔اس بات کوبھی مانتے ہیں نہروجی ایک عظیم مدبر،فلسفی،انسانی اقدارکے حامی تھے۔وہاں تک سردارپٹیل کی پہونچ نہ تھی۔نہروجی مانتے تھے کہ ہندستان کواصل خطرہ اکثریت کی قوم پرستی سے تھا۔یقیناً بابری مسجدکی شہادت میں ایساہی ہوا۔ہندستان میں وحدت میں کثرت ہے۔بھائی چارہ،فرقہ وارانہ ہم آہنگی،قومی یکجہتی ہماراسینکڑوں سال پرانااثاثہ ہے۔امن وامان ملک کے لئے انتہائی ضروری ہے۔جب فرقہ وارانہ ہم آہنگی،قومی یکجہتی رہے گی تونظم وضبط،امن وامان ہونے میں آسانی ہوگی۔کھیتوں میں زراعت،کل کارخانوں میں پیداواررہے گی۔اسکول وکالج چلیں گے،زندگی کاکاروبارجاری رہے گا۔ہمارے ملک کے بزرگوںنے ملک میں متعددزبانوں،مذاہب ،کلچرل،کثرت میں وحدت کے پیش نظردستوربنایا۔ہرشہری کو،ہرمذہب کے ماننے والے کویکساں مذہبی سماجی سلوک دستوری لحاظ سے ہے۔افسوس ناک پہلوہے کہ ہندوتواوادی آرایس ایس کوملک کے دستوراورآئین میں اپناکچھ نظرنہیں آتا۔وہ دستورپریقین نہیں رکھتی۔وہ اسے بدلناچاہتی ہے۔برہمن واد کاشکارہے۔مذہب کے نام پرقوم پرستی کی بات کرتی ہے۔اسی ہندووادی آرایس ایس کی ذہنیت نے ہمارے بابائے قوم کاخون ہی نہیں کیا،بابری مسجدجوہمارے دستوراورسیکولرجمہوریت کی روشن علامت تھی اس کابھی خون کردیا۔کانگریس میں کام کرنے کی قوت،مصمم ارادہ ہوتاتو جن شیطانی صفات کی بناء پربابائے قوم کی شہادت اوربابری مسجدکی شہادت ہوئی،وہ نہ ہوتی۔

۱۹۴۹؍کو پولس کانسٹبل ماتوپرسادنے صبح کوتھانہ میں یہ رپورٹ درج کرائی،’’ابھے رام داس سدرشن داس ۵۰؍۶۰؍نامعلوم لوگوں نے مسجدکے اندرمورتی رکھکرمسجدکوناپاک کردیاہے۔جس سے نقص امن کاخطرہ پیداہوگیاہے،اس رپورٹ کوبنیادبناکر مسجدمیں سرکاری حکم سے ٹالالگادیاگیا۔یوں برسہابرس سے مسجدمیں جاری نمازکانگریس دورحکومت میں ختم ہوگئی۔سیدھی سی بات تھی کہ کانسٹبل ماتوپرسادکی رپورٹ کے مطابق مجرمین کوواقعی سزادی جاتی۔مسجدسے مورتی ہٹائی جاتی،اورمسجدمیں نمازجاری رہتی اور’’مندرمسجد‘‘کاجھگڑایہیں پرہمیشہ کیلئے ختم ہوجاتا۔کانگریس ہی کے دورمیں مسجدکادروازہ کھلا۔شیلانیاس ہوئی،پھر۶؍دسمبرکوبابری مسجدکی شہادت بھی ہوگئی۔آرایس ایس کے ہندوتواوادنے ملک کوبہت ہی نقصان پہونچایا۔افسوس ناک پہلوہے کہ محض ’’ووٹ‘‘کی خاطرکانگریس جیسی قدیم سیاسی پارٹی جسکی تعلیمات میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی،قومی یکجہتی بنیادی طورپرہے اکثروبیشترنرم ہندوتواپرگامزن رہی۔دہشت پسندی جیسے انتہائی سنگین مسائل پرکانگریس کے راج میں معصوم مسلمانوں کودہشت گردی کے جھوٹے الزامات میں لاتعدادبارپکڑکرجیلوں میں ٹھونساگیا۔برسہابرس کے بعدان معصوموں کوعدالت سے باعزت رہائی ملی۔سمجھوتہ ایکسپریس،اجمیربم دھماکہ،مکہ مسجددھماکہ،مالیگاؤں قبرستان بم دھماکہ میں پہلی فرصت میں معصوم مسلمانوں کوگرفتارکیاگیا۔مہاراشٹرکے اعلی سابق پولس افسرہیمنت کرکرے نے انتہائی بہادری جانفشانی کے ساتھ ہندوتواوادیوں کوبم دھماکوں کے الزام میںپکڑا،یوں اصلی ملزمین پکڑے گئے۔ایسے کتنے ہی معاملات میں جہاں ٹھوس ثبوت ہونے کے باوجودہندوتواوادیوں کودہشت گردی کے الزامات میں پولس نے نظراندازکردیا۔یہ کانگریس کے راج  میں ہوتارہا۔ظلم وستم کوسرکاروں کی سرپرستی حاصل ہو،بربریت پرحکومتیں غیرمعیاری پن کریں،توپھرظالم کی ہمت بڑھتی ہی ہے۔اسطرح سے عدل وانصاف کی حکمرانی نہیں ہوتی۔کتنے سماجی،سیاسی معاشی معاملات میں کانگریس نے اپنے دورحکومت میں مسلمانوں کے ساتھ سوتیلاپن کیا۔وہ سمجھتی رہی کہ مسلمان ہمیںہی ووٹ دے گا،کہاں جائے گا؟دراصل اس کی یہ خام خیالی ہے۔

گذشتہ چندمہینوں میں بیف کے نام پرشک وشبہ میں دادری میں اخلاق احمد،جموں میں ذاکراورہماچل میں نعمان،نئی دہلی کے قریب ایک ہریجن بھائی کے دوکمسن  بچوں کوجلادیاگیا۔گلبرگی،پانسارے جیسے اقلیت  پسندوں کاخون کردیاگیا۔ان تمام شیطانیت بربریت میں ہندوتواوادی،آرایس ایس اوراس کی بغل بچہ جماعتوں کاہاتھ رہا۔پورے ملک میں پہلی بارپڑے پیمانے پرمصنفین،قلمکار،دانشورملک میں بڑھتی ہوئی عدم رواداری،عدم برداشت،معصوموں کی قتل وغارت گیری پراحتجاجات کررہے ہیں۔آرایس ایس وہندوتواوادیوں جماعتوں کی مذمت کیساتھ اپنے سرکاری اعزازات،ایوارڈ،انعامات بطوراحتجاج حکومت کولوٹارہے ہیں۔یہاں تک کہ پدم شری ،پدم بھوشن جیسے اعلی سرکاری ایوارڈس واپس کئے جارہے ہیں۔مودی جی کہیں سے بڑھتی فرقہ پرستی،عدم رواداری،عدم برداشت پرسنجیدگی سے کوئی قدم اٹھاتے نظرنہیں آتے۔صرف لفاظی کرتے ہیں۔حکومت میں شامل وزیر،بی جے پی کے اعلی عہدیداران،ممبران پارلیمنٹ تک عدم رواداری،عدم برداشت پراحتجاجات کرنے والوں ہی کوڈانٹ رہے ہیں۔الٹاچورکوتوال کوڈانٹیں والی بات ہے۔آج پورے ملک میں ہندوتوااورآرایس ایس کے خلاف زبردست ماحول بناہے۔کانگریس ہی کیاتمام سیکولرپارٹیوں  کوملک میںفرقہ واریت کے خلاف آرایس ایس کے خلاف عوامی ذہن سازی کیلئے عملی میدان میں آناہے۔یہ انتہائی سنہری موقع ہے۔

آزادی کے بعدسے آج تک کتنے ہی فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔سرکاری کمیشنوں کی رپورٹ میں ہندوتواوادیوں کے نام فسادات میں ملوث ہونے کے آئے  ہیں۔مذہب،زبان،ذات پات کے نام پرآرایس ایس ،اسکی ذیلی شاخوں نے مادروطن کے ماتھے پرکلنک کاٹیکہ لگایا۔یہ آخرکب تک ہوتارہے گا۔کب تک ماؤں بہنوں،عورتوں کی عصمت لٹے  گی۔معصوم بچوں کوپیٹ سے نکال نکال کرماراجائے گا۔جانوں کے ساتھ مال کی بربادی ہوگی۔کمزوروں،معصوموں کے ساتھ کھلواڑجاری رہے گا۔اسے تہہ دل سے ختم کرنے کیلئے مثبت فکروعمل کی ضرورت ہے۔ورنہ کتنی مسجدیں شہیدہوں گی۔کتنوں کاقتل عام جاری رہے گا۔وطن عزیزکواس سے پاک کرناضروری ہے۔کتنی ہی درگاہ میں قبرستانوں میں بم دھماکے ہوں گے معصوموں کی پکڑدھکڑہوگی۔؎

آغیریت کے پردے ایک بارپھراُٹھادیں
بچھڑوں کوپھرملادیں نقش دوئی مٹادیں
سونی پڑی ہوئی ہے مدت سے دل کی بستی
آ،ایک نیاشوالہ اس دیس میںبنادیں
شکتی بھی شانتی بھی بھگتوں کے گیت میں ہے
دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے

ملک غلام تھا،انگریزہندومسلمانوں میں پھوٹ ڈال کرحکمرانی کرناچاہتے تھے۔آج کون؟کیوں لڑارہاہے،موقع غنیمت ہے،عوامی شعوربیدارکریں۔

حکومت یہ دعوی کرتی ہے کہ ملک میں عدم تحمل،عدم رواداری کاوجودہی نہیں،حقیقت مگرپورے ملک میں اس کے برخلاف ہے۔وطن عزیزمیںعدم رواداری اورفرقہ وارانہ اشتعال انگیزیوں میں اضافہ ہواہے۔الیکٹرانک میڈیا،سوشیل میڈیا،واٹس اپ وغیرہ اس میں مددگارثابت ہورہے ہیں۔عدم رواداری اورفرقہ وارانہ کشیدگی پرلاکھ احتجاجات ومذمت کے باوجودملک کے وزیراعظم مودی اوران کی حکمراں ہندوتواوادی پارٹی کے ذمہ دارافرادصرف لفظوں کی فضول بازی گری کررہے ہیں۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق حکومت ہی کے ادارے آئی ڈی ایس اے(وزارت دفاع) کاہی ایک ادارہ ہے’’بنیادپرستی ہندستان کے لئے سلامتی کاایک بڑھتاچیلنج‘‘اس موضوع پربات لکھی ہے کہ ملک میں عدم تحفظ اورالگ تھلگ پڑنے کے احساس میں اضافہ ہواہے۔اسے روکنے کیلئے سیکولرسیاست اہم رول اداکرسکتی ہے۔حالیہ دنوں میں ملک میں نظریہ کی بنیادپرلوگوں کوتقسیم کرنے کی کوشش ہوتی نظرآتی ہیں۔

(یو این این )

*********************************

 

 

   
         

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 376