donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Sami Ahmad Quraishi
Title :
   Poore Mulk Me Hindutv Ka Sailab

 

ہمارے خون کی رنگت بھی شامل ہے اس میں  

  یہ کیسے کہتے ہو کہ گلشن فقط ہماراہے


پورے ملک میں ہندوتواکاسیلاب،مظلوموں کومتحدہوناضروری


روہت پرعقلیت پسندوں،دلتوں،مسلمانوں کاممبئی میں عظیم الشان احتجاج


سمیع احمدقریشی،ممبئی

9323986725

 


ہمارے ملک کی ایک عظیم شخصیت ڈاکٹربھیم راؤامبیڈکردلتوں کے لیڈرتھے۔اعلی تعلیم یافتہ قانون داں سماجی مصلح ومجاہدآزادی تھی۔ہندوؤں میں ذات پات سینکڑوں سال پرانی ہے۔ہندوؤں ہی میں دلتوں کے ساتھ انتہائی ناروا،بے رحمانہ سلوک بربریت،برہمنوں کی اس طرح جاری وساری سینکڑوں سال سے رہی کہ گویادلتوں پرظلم وستم ،جبرجائزہے،ناجائزنہیں۔درحقیقت انسان انسان ہی پیداہواہے مگر برہمن وادکے فلسفہ وعقیدہ کے مطابق دلت پیدائشی ہواکرتے ہیں۔ڈاکٹربھیم راؤامبیڈکردلتوں کے ایک بڑے مہان لیڈرتھے۔اگڑوں،برہمنوں کے دلتوں پربے پناہ عزائم پر انہیں ذہنی ہزیمت ہورہی تھی۔وہ اس کے ازالے کیلئے دل وجان کے ساتھ میدان عمل میں تھے دلتوں کے نارواسلوک کے مداوے وتدارک کے لئے کوشاں تھے۔ڈاکٹربھیم راؤامبیڈکرنے برہمن واد کے شکاردلتوں کے ساتھ بے جاانسانی سلوک،حیوانیت کو دیکھکر کہا’’ میں ہندوپیداہواہوں ہندومرنانہیں چاہتا‘‘آخرکو ۱۹۵۶؍میںناگپور میںاپنے لاکھوں متعقدین کے ساتھ بودھ مذہب ،ڈاکٹرباباصاحب امبیڈکرنے قبول کرلیا۔

۲۶؍جنوری ۱۹۵۰؍کوملک کوچلانے کیلئے قوانین بنانے کیلئے ہماراآئین دستورنافذکیاگیا۔جوانتہائی پیارااورملک کے ہرشہری کی خواہشات کااحترام کرتاہے۔یہ جمہوریت سیکولرزم شوشلزم پرمبنی ہے۔ہمارے ملک میں کثرت میں وحدت ہے۔متعدد مناسب زبانوں تہذیبوں کوماننے والے ہزاروں سالوں سے آبادہیں۔فرقہ وارانہ ہم آہنگی،قومی یکجہتی ہماراقدیم ورثہ ہے۔جس پرہمیں نازہے۔ملک کے سماجی منظرپس منظردنیاکے متعدد آئین اورہمارے ہندوستان کی قدیم ثقافت وتہذیب وانسانی اقدارکامطالعہ کرنے کے بعدڈاکٹرباباصاحب امبیڈکر کی سربراہی میں ہمارے ملک کوچلانے کے لئے آئین ودستوربنا۔ملک میں رہنے والے ہرشہری کومساوی طورپرسماجی تعلیمی معاشی حقوق دینے،زندہ رہنے کاحق،سماجی ومذہبی آزادی دی،ملک کادستورایک خوشنماگل دستہ سے کم نہیں۔
۲۶؍جنوری ۱۹۵۰؍سے جب کہ دستورہندنافذہوا۔آج تک حقیقی معنوں میں جس قدردستورکوپیش نظررکھتے ہوئے قوانین بنانے اوراس پرعمل بجاوری کاسوال ہے وہ انتہائی غیراطمینان بخش ہے۔پارلیمنٹ اوردیگرقوانین سازاداروں میں جمہوری طریقہ سے منتخب ہونے والے لیڈران ہی کاغیرمعیاری پن تھاکہ  آج دستورکے مطابق پورے ملک اورریاستوں میں دستورپرایمان داری سے چلنے کاحلف لینے کے باوجود،اقلیتوں،دلتوں،مسلمانوں ،چھوٹے کسانوں،دست کاروں ودیگرکمزورطبقات کابراحال نہ ہوتا۔سیاست دانوں وحکمرانوں ہی کی نااہلی رہی کہ حقیقت میں’’ قانونی سازی اوراس پرعمل‘‘یہ انتہائی غیرمعیاری رہا۔دلتوں کے خلاف ظلم وستم پرانتہائی سخت قانون ہونے کے باوجود،انتہائی سزاہونے پربھی دلتوں پرظلم وستم جاری ہے۔حال ہی میں پورے ہندستان میں کیاہورہاہے۔دستوراورانسانی اقدارکی دھجیاں جاری ہیں۔ایک دلت کے جھونپڑے کوجلادیاجاتاہے۔۲؍معصوم بچے جل جاتے ہیں۔کوئی اورنہیں ایک مرکزی وزیردلت کے آنسوپونچھناتوچھوڑیے دلتوں کوکُتے سے تشبیح دیتاہے۔تاملناڈومیں دلت طلباء کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے۔تازہ تازہ حیدرآباد یونیورسٹی میں ایک دلت طالب علم روہت ویمولاخودکشی کرلیتاہے۔جوبات ڈاکٹرامبیڈکرنے کہی تھی کہ میں ہندوپیداہوا ہوں،مرنانہیں چاہتا۔کم وبیش یہی باتیں اپنے اوپرظلم وستم اورخودکشی کے تعلق سے روہت ویمولانے اپنے خودکشی نوٹ میں کہی  ہیں۔روہت ویمولانے مظفرنگرفسادات جہاں ہندوتوانے ظلم وستم کاٹانڈورقص کیا،اس پراحتجاج کیا۔یعقوب میمن کی پھانسی پراحتجاج میں شامل ہوا۔ہندوتواکی ماں آرایس ایس نے کسانوں،خواتین،مزدوروں،ادی واسیوں میں اپنی شاخیں بناکر عوام الناس میں سماجیات کے نام پرزہر اگلاہے۔یونیورسٹیوں ،کالجوں کی سطح پربھی اس کی برانچ ہے۔جس کاکام آنیوالی نسلوں،طلباء میں منافرت پیداکرناہی ہے۔روہیت یمولاسائنس کاانتہائی ہوشیارطالب علم تھا۔اس کے دل میں لگن تھی کہ تعلیم پوری کرکے کمزوروں ،غریبوں کی خدمت کروں گا۔وہ اس کالج میں سماجی خدمت گزاری کیلئے جاناجاتاتھا۔ہندوتواوادی،زعفرانی طاقتوں کوروہت کھٹکتاتھا۔ہندوتواوادی بی جے پی طلباء یونین اے بی پی نے روہت کے خلاف مرکزی حکومت کوشکایت کی۔اس کی اسکالرشپ اوردیگردلت طلباء کوکالج سے نکال دیاگیا۔روہت انتہائی غریب گھرانے کاتھا،اسی کے خلاف کالج میں کی جانے والی کاروائی عدل وانصاف سے پرے تھی۔اس کی خودکشی کے بعد پورے ملک میں نہ صرف دلتوں میں بلکہ تمام انصاف پسندوں میں ناراضگی ہے۔جگہ جگہ احتجاج ہورہے ہیں۔روہت کی خودکشی کے معاملہ میں مرکزی وزیر،حیدرآبادیونیورسٹی کے وائس چانسلرکے خلاف قانونی کاروائی،گرفتاریوں کی مانگ زوروں پرہے۔مودی سرکاراس معاملے میں ٹھس سے مس نہیں ہورہی ہے۔

پورے ملک میں ہندوتواوادی اودھم مچائے ہوئے ہیں۔انصاف پسنداحتجاج کررہے ہیں۔بڑے پیمانے پرپہلی باردانشوران،ادیبوں،مصنفوں نے بطوراحتجاج مرکزی حکومت کواپنے ایوارڈواپس کئے۔پدم شری،پدم بھوشن تک واپس کئے۔افسوس ناک پہلویہ ہے کہ مرکزی حکومت ہندوتواوادیوں پرلگام کسنے کوتیارنہیں۔بلکہ مرکزی حکومت میںشامل وزرائ،بی جے پی کے لیڈران اپنے بیانات سے جلتی پرتیل کاکام کررہے ہیں۔عدم رواداری،عدم برداشت،ہندوتواکی مذمت کرنے والوں کوغداراورپاکستانی ،ملک چھوڑدو،اورسیاست دانوں کی پشت پناہی کرنے والوں سے تعبیرکیاجارہاہے۔اُلٹاچورکوتوال کوڈانٹے۔

دادری کے اخلاق احمدسے حیدرآبادکے روہت تک ہندوتواکے ہاتھوں ایک خونی داستان مرتب ہے۔جوبڑھتی جارہی ہے۔عوام وخواص حکومت کو توجہ دلارہے ہیں۔احتجاج کئے جارہے ہیں۔وزیراعظم مودی صرف بڑی مشکل سے مذمت کرتے ہیں۔ملک کے اہم سب سے بڑے عہدے پرفائزصدرجمہوریہ ہند،نائب صدرجمہوریہ ہندتک قومی یکجہتی،فرقہ وارانہ ہم آہنگی پرچلنے کی تلقین کررہے ہیں،لاحاصل۔جمہوریت میں احتجاج دستوری حق ہے،یقیناً یہ جاری رہناضروری ہے۔
آج چھوٹے کسان بڑے پیمانے پرخودکشیاں کررہے ہیں۔ان کی زمینیں حکومت مناسب معاوضہ دیئے بغیرہڑپ کررہی ہیں۔حکومت کی بنائی جانے والی پالیسیوں میں سرمایہ داروں کے مفادات کوتقویت دی جارہی ہیں۔تعلیم کابھگواکرن کیاجارہاہے۔مزدوروں کے حقوق غضب کئے جارہے ہیں۔کمزوروں،دلتوں،اقلیتوں،مسلمانوں کی زندگی اجیرن کی جارہی ہیں۔وہ سارے لوگ جوہندوتوااورآرایس ایس ،بی جے پی کے ہاتھوں انتہائی ہزیمت اٹھارہے ہیں۔ان کے حقوق کی بازیابی کی خاطر،قتل وغارت گری کے خلاف سبھی مظلوموں نے کندھے سے کندھاملاناضروری ہے۔یہ اتحاد کمزوروں،دلتوں،اقلیتوں کے لئے باعث رحمت ہوگا۔ان کے مال وزندگی کامحافظ ہوگا۔مذہب اسلام نے ظلم کے خلاف مظلوم کی حمایت کوباربارکہا،قرآن وحدیثوں میں بے پناہ کمزوروں،مظلوموں کے حقوق کی لڑائی کی بات ہے۔ہمارے علمائے دین ،سیاسی لیڈران کواس سلسلہ میں نمایاں کارکردگی دکھلانی ہے۔اس میں مسلمان ہی نہیں دلت،عیسائی،کسان،غریب مزدورسبھی کی زندگی انتہائی مجبوروبے بس ہوچکی ہے۔ان تمام مظلومین کے ساتھ ہمیں حکمت عملی کے ساتھ رہناہے۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ۔جامعہ ملیہ،مدارس،اوقاف کی زمینیں،مسلم پرسنل لاء جیسے مسائل کے ساتھ دیگرملکی فرائض بھی ہیں۔یہ صرف ملکی نہیں بلکہ ہمارے ملّی ودینی فرائض میں شامل ہیں کہ برادران وطن کے ساتھ ذات پات،اونچ نیچ کے نام پرظلم ہورہاہے،مہنگائی بڑھ رہی ہے،بے کاری بڑھ رہی ہے۔تمام مظلوموں کے ساتھ ہم کونظرآناہیں۔؎

غالب اس تلخ نوائی سے ہم کورکھنامعاف
آج کچھ دردمیرے دل میںاُٹھاساہے

مزدور،چھوٹے کسان،دست کار،اقلیتیں،دلت،مسلم ملک کی مکمل آبادی میں اکثریت پرمبنی ہے۔برہمن ملک کے باہر سے آئے تھے،یہودیوں کی طرح یہ اپنے آپ کواللہ کی خاص مخلوق سمجھتے ہیں۔دنیاکی ساری آسائشیں صرف اورصرف ہمارے لئے ہے۔باقی اورلوگ ان کے نزدیک گرے پڑے ہیں۔برہمن کابرہمن وادانتہائی خطرناک ہے۔یہ برہمن وادہی ہے کہ دلتوں کو’’نیچ‘‘اورمسلمانوں کوملیچھ قراردیتاہے۔ہزاروں سالوں سے دلت بھائی برہمن واد کاشکارہیں۔ورنہ لاکھوں کی تعداد میں وہ ہندودھرم کوباباصاحب امبیڈکر کی قیادت میں چھوڑتے نہیں۔مسلمان دیش دروہی ہیں،غدارہیں،پاکستان چلے جاؤ،ملک میں رہناہوگاتووندے ماترم کہناہوگا۔اردوغیرملکی زبان ہے۔مسلمان دہشت گردہے اس قسم کی باتیں برہمن وادی کیاکرتے ہیں۔ملک کیلئے  ہندوتواوادی،برہمن وادیوں کاوجود دھرتی پربوجھ ہے۔ایک مسلمان ہی کیا،دلت ،عیسائی ،ادی واسی،چھوٹے کسان یعنی پورے ملک کی اکثریتی آبادی کوزک پہونچارہے ہیں۔اپنے آپ کوسب سے بڑامحب وطن بھی کہتے ہیں۔انہیں پتہ نہیں کہ ملک کی آزادی کی لڑائی میں مسلمان اگلی صفوں میں تھے۔ملک کوپنجہ فرنگ سے نجات دلاناکہیں ملکی فریضہ تھاتوعلمائے دین نے اسے ملکی فریضہ کے ساتھ دینی فریضہ سمجھا۔ملک کودارالحرب قراردیاانہوں نے ملک کے خلاف ’’جہاد‘‘ کاپکاراکیاتوعلمائے دین جودین اسلام کی اشاعت ،اصلاح ملت ،درس وتدریس مدرسوں کی چہاردیواری،خانقاہوں،مساجد میں کررہے تھے۔انگریزوں کے خلاف میدان عمل میں اترآئے۔دوبدوجنگ کی،برادران وطن کے ساتھ مل کر لڑائی جاری رکھی۔اہل وعیال،جہاں ومال کی قربانیوں میں ہزاروں علمائے دین کے ساتھ،لاکھوں مسلمان شامل تھے۔ہندوتواوادی کہنے والے  اس وقت کہاں تھے؟ وہ جنگ آزادی سے دورکھڑے،انگریزوںکاساتھ دے رہے تھے۔آج کس منہ سے سب کووطن پرستی ،محب وطن ہونے کاسرٹیفکیٹ دے رہے ہیں۔؎

ہم کو خاک کے ذرات سمجھنے والو
غورسے دیکھوذراشمش وقمرہیں ہم لوگ

ہم مسلمانوں نے اپنے خون سے اسی ملک کی آزادی کودلانے میں سخت سزائیں اورتختہ دارکوچوما۔ یہ ایک مستندتاریخ ہے۔ہمارے خون کی رنگت بھی اس میں شامل ہے۔یہ کیسے کہتے ہوگلشن فقط تمہاراہے۔انگریزچلے گئے،اب کون ہے جوظلم وستم ’’اکثریت‘‘ پرکررہاہے۔سارے مظلوم ایک جگہ ہوجائیں،متحد ہوجائیں،اتحادکمزوروں کیلئے باعث رحمت ہواکرتاہے۔ان کے دستوری حقوق کی بازیابی میںاہم کرداراداکرتاہے۔دادری کے اخلاق احمدسے حیدرآبادکے روہت ویمولاتک ہندوتواوادیوں کاہاتھ کھلم کھلادکھائی دے رہاہے۔ملک کے سینکڑوں دانشور،مصنفین،بڑھتی عدم رواداری،ہندوتواکے خلاف بطوراحتجاج مرکزی حکومت کواپنے ایوارڈاعزازات واپس کررہے ہیں۔بڑھتی عدم رواداری،ہندوتواملک کی بقاء وترقی میںایک اہم رکاوٹ ہے۔مستقبل میں اس کے کس قدرسنگین نتائج نکل سکتے ہیں۔حکومت کوآگاہی کررہے ہیں۔فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لئے ملک کے اعلی ترین منصب پربیٹھے صدرجمہوریہ ہند،ہندوتواوادی وزیراعظم مودی اورانکی سرکارمیںشامل وزراء اس جانب دھیان  دلا رہے ہیں۔ملک میں عدم رواداری کوبڑھ رہی ہیں۔دلتوں کوکتے سے تشبیح دے رہے ہیں۔جیساکہ حیدرآباد میںروہت کے ساتھ ہوا۔روہت خودکشی،موت تک نہیں پہونچتااگرمرکزی وزراء مناسب اورمعیاری اقدامات کرتے۔انہوں نے ہندوتواوادی بی جے پی کے طلباء تنظیم کی باتوں پرکان دھرے۔ورنہ شایدروہت ودیگر۴؍دلت طلباء کوکالج سے نکالانہ جاتا۔نہ ہی اس کاوظیفہ بندہوتا۔روہت کا خودکشی نوٹ پکارپکارکرکہہ رہاہے،ہاں میں دلت تھا،ذات پات،نسلی برتری،تعصب ہی اس کی موت کاسبب ہے۔تازہ ترین اطلاعات کے مطابق پورے ملک میں یونیورسٹیوں،کالجوںکے طلباء میں تعصب کاجراثیم زورپکڑرہاہے۔دلت طلباء پرظلم وستم بڑھ رہے ہیں۔

گذشتہ دنوں حیدرآباد کے روہت کی موت پررانی باغ ممبئی سے آزادمیدان ممبئی تک ایک زبردست احتجاجی مورچہ اوردھرناہوا۔عقلیت  پسندوں،دلتوں،مسلمانوں نے ہزاروں کی  تعدادمیں شرکت کی۔برقعہ پوش مسلم خواتین وہ بھی شیرخواربچے،باریش مسلم نوجوان وبوڑھے،مسلم طلباء بڑی تعداد میں حاضرتھے۔جماعت اسلامی کی طلباء شاخ ایس آئی اوکے طلباء بڑی تعدادمیں تھے۔اردومرکزکے فریدخان،سیدفرقان،سعیدخان جیسے نوجوان اپنے ساتھیوں کیساتھ تھے۔یہ دلت مسلم اتحاد کابے پناہ مظاہرہ بھی تھا۔ایسامنظرممبئی میںغالباً برسوںبعدہواتھا۔مظلوم مظلوم کے ساتھ،عقلیت پسندوںکیساتھ،عدل وانصاف ودستوری حقوق کے تحفظ کیلئے سڑکوں پراتراتھا۔وہ روہت کی موت کے ذمہ داروں کوسزااوربرہمن واد،آرایس ایس ،مودی سرکارکے خلاف نعرے لگارہے تھے۔احتجاج جلوس ودھرناکی قیادت ڈاکٹرباباصاحب امبیڈکرکے پوتے سابق ایم پی پرکاش امبیڈکرکررہے تھے۔

جس علاقہ سے بے مثال احتجاجی مورچہ نکلا،گزراوہاں خاطرخواہ مسلم آبادی ہے۔دومسلم ایم ایل اے ،کئی مسلم کونسلر،کئی مسلمانوں کے کالج،مدرسے،کئی مسلم قائدین کی رہائش،یہ روایتی مسلم لیڈران اورمولوی کوئی دھرنے مورچے میں شامل نہیں رہے۔افسوس ناک پہلوہے۔احتجاجی دھرنامورچہ میں مزیدمسلمانوں کاہونا،مزیدبہترہوتا۔؎

آئین نو سے ڈرناطرزکہن پراڑنا
منزل یہی کھٹن ہے قوموں کی زندگی میں

اللہ کاشکرہے کہ پورے  مہاراشٹراورممبئی میں روہت کی موت اورسماجی برائیوں کے خلاف متعدد علمائے کرام،مسلم دانشور،مسلم نوجوان قیادت میدان عمل میں ہے۔جلسے واحتجاجات،عقلیت پسندوں ،دلتوں کے ہمراہ کئے جارہے ہیں۔یہ ایک خوش آئندبات ملک کی بقاء وترقی کیلئے ہورہی ہے۔مسلمان جسطرح ملک کی آزادی میں صف اوّل تھے آج پھرمعصوموں،کمزوروں،دلتوں،عیسائیوں کے ساتھ ساتھ کندھے سے کندھاملاکر چلناضروری ہے۔عام طورپرعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی،مسلم پرسنل،مدارس،اوقاف ،جامعہ ملیہ وغیرہ براہ راست ملی معاملوں میں ہماری روایتی قیادت ہواکرتی ہیں۔بڑھی مہنگائی ،بدعنوانیوں ،اقلیتوں،دلتوں پرظلم،مزدوروں غریب کسانوں کے حالات زاراورملکی مسائل سے کچھ لینادینانہیں ہوتا۔یہ خواللہ کافضل ہے ختم ہوکررہے گی انشاء اللہ۔وقت آچکاہے سب مل کرمادروطن کی بقاء وترقی میں جڑیں۔برہمن واد کی روک تھام کریں۔؎

نہ سمجھوگے تومٹ جاؤگے اے ہندستان والو
تمہاری داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں


 

***********************


   
 
              

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 566