donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Seraj Arzoo
Title :
   Mauzoo Gaye - Taraqqi Ki Shahrah Ka Speed Breaker

 موضوع گائے:ترقی کی شاہراہ کا  اسپیڈ بریکر

 

تحریر :  سراج آرزوؔ،بیڑ ،مہاراشٹر


موبائیل فون : 09130917777،  :

sirajaarzu@gmail.com

 

              گذشتہ سنیچر کو آئی آئی ٹی دہلی کے ایک اجلاس میں آر بی آئی کے گور نر رگھو رام راجن نے کہا کہ ’بات چیت ہمارے ملک کی روایت ہے اور ملک میں کسی بھی شئے پر پابندی لگانے کے بارے میں پہلے غور کیا جانا چاہیے ،جہاں تک ممکن ہو سکے ایسے معاملات کو بات چیت اور آپسی اتفاق کے ذریعے حل کیا جانا ضروری ہے‘۔شری رگھو رام راجن کا یہ بیان ملک کے کئی ریاستوں میں حال میں عائد کئے گئے ’بیف بین ‘ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ واضح ہو کہ رگھو رام راجن اس سے قبل بھی یہ بات صاف طور پر واضح کر چکے ہیں کہ ملک میں اگر نفرت اور تعصّب کا ماحول اگر اسی طرح پروان چڑھتا رہا تو ملک کی ترقی نہیں ہو پائیگی۔غور طلب ہے کہ ملک میں بڑھتی مذہبی منافرت اور اندھی تقلید کے خلاف کام کرنے والے کارکنان کے قتل کے معاملات کو لیکر ملک کے کئی ادیب حضرات اور اب فلم سے جڑے افراد اور سائندانوں نے ملک میں بڑھتے تعصّبی ماحول پر حکومت کی خاموشی سے ناراض ہو کر حکومت کی جانب سے دئے گئے اعزاز لوٹائے ہیں۔ملک کے دانشور طبقہ کا مننا ہے کہ حکومت کے ذریعے اپنے وعدوں پر عمل آ وری  تو نہیں ہو رہی ہے بلکہ حکومت میں موجود کئی لیڈرحضرات جن میں ایم پی، ایم ایل اے اور پارٹی کے اہم عہدیدار شامل ہیں ،وطن عزیز کا ماحول مکدّر کرنے میں مشغول ہیں۔معروف ریٹنگ ایجنسی ’موڈیز ‘ نے بھی آگاہ کیا ہے کہ اگر بی جے پی کے لیڈر اسی طرح بیف کے موضوع پر ’اناپ شناپ‘ بیان بازی کرتے رہینگے تو ملک کے استحکام کو خطرہ ہوگا اور ترقی کی رفتار یقیناً سست ہوگی۔’موڈیز ‘ نے اپنی رپورٹ میں مزید کہا ہے کہ اگر بی جے پی لیڈران بیف جیسے موضوعات کو اسی طرح ہوا دیتے رہینگے تو  وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی ضرورنقصان ہوگا اور ملک کے باہر وزیر اعظم مودی پر کسی کو اعتماد نہیں رہیگا۔ملک میں تعصب کا ماحول پروان چڑھ رہا ہے ،بر سر اقتدار پارٹی کے افراد بے تکے بیانات دئے جا رہے ہیں اور ان لیڈروں کے بیانات پر وزیر اعظم مودی خاموش ہیں اگر ایسا ہی ہوتا رہا تو راجیہ سبھا میں معاشی پالیسیوں کے بجائے  فرقہ وارانہ شدد پر بحث ہوگی !اس کا نقصان خود بی جے پی اور نریندر مودی کو ہوگا اگر جناب مودی کو دنیا بھر میں اپنا عتماد قائم رکھنا ہو تو انھیں اپنے ’ بیان باز ‘ لیڈروں اور ممبر پارلمنٹ پر قابو پانا ہوگا اور انھیں متنازعہ بیانات دینے سے روکنا ہوگا۔خود بی جے پی کے مرکزی وزیر منوہر پاریکر نے بھی گذشتہ دنوں کہا ہے کہ ’دادری جیسے واقعات پارٹی  اور حکومت دونوں کو نقصان پہنچا ئیں گے اس طرح کے واقعات کے سبب وزیر اعظم نے ملک کے لئے جو خواب دیکھے ہیں وہ پیچھے چھوٹ جائینگے  اور ہم اس بات کو کبھی بھی برداشت نہیں کر سکیں گے ‘۔ملک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے گائے کے موضوع سے ملک بھر میں فرقہ وارانہ منافرت کو تقویت دے کر ایک خاص مذہب کے ماننے والوں کو اپنا نشانہ بنانے اور اندھی تقلید کے خلاف کام کرنے والے افراد کے قتل  سے ناراض ادیب و شعراء حضرات نے جہاں ایک طرف اپنے اعزازات لوٹائے ہیں وہیں ’ انفوئسس ‘ کے روح رواں نارائن مورتی نے بھی ملک کے مکدّر ہوتے ماحول پر اپنی فکر جتائی ہے۔نارائن مورتی نے ایک ٹیلی ویژن کو دئے گئے انٹرویو میں کہا کہ ’ میں سیاسی فرد نہیں ہوں اور نہ ہی مجھے سیاست میں دلچسپی ہے،لیکن مجھے لگتا ہے کہ اس وقت ملک کی اقلیتوں میںاپنے تحفظ کو لیکر خوف کا موحول ہے ‘۔ انھوں نے موجودہ موحول کا موازنہ 1960کی دہائی سے کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ خوف کچھ ویسا ہی ہے جیسا 1960کی دہائی میں شمالی ہندوستانیوں میں شیو سینا کو لیکر تھا،اب کچھ عناصر اقلیتوں اور اکثریت میں تفرقہ پیدا کرنے کا کام کر رہے ہیں۔نارائن مورتی نے مزید کہ پہلے لوگوں میں اعتماد کی فضاء ہموار کرنا ضروری ہے جس کے بعد ہی معاشی ترقی ممکن ہے۔ترقی کے لئے سماج میں اعتماد اور خوف سے پاک ماحول کا ہونا اشد ضروری ہے‘۔

    ملک کی بیشتر ریاستوں میں گائے اور بیل کے ذبیحہ اور اس کے گوشت پر پابندی ہے لیکن  بیف اس لفظ کے معنی کو لیکر غلط فہمی برقرار ہے اور جس کے سبب کئی مرتبہ حالات کشیدہ ہو  رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں بھینس کا گوشت یعنی بیف بر آمد کرنے والے تاجر بھی مصیبت کے اشکار ہوئے ہیں ان کا ماننا ہے کہ ہندوستان میں بیف مسئلہ کو لیکر جاری تناؤ سے دنیا کے کئی ممالک سے بیف کی مانگ میں کمی آئی ہے۔جس کی تازہ مثال کئی عرصہ سے ہندوستان  سے بیف در آمد کرنے والے ممالک ویت نام اور یونان ہیں جہاں سے اب بیف کی مانگ میں حیرت انگیز کمی ہو گئی ہے۔بیف کاروبار سے جڑے افراد اور ’ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن ‘ کا کہناہے کہ اس سال اس صنعت کو 30ہزار  کروڑ روپئے کا نقصان اٹھانا ہوگا۔’ایگریکلچرل اینڈپروسیسڈ فوڈ پروڈکٹ اتھاریٹی ‘  کے مطابق امسال اپریل سے اگست کے دوران بیف کی بر آمدات میں 8.8فی صد کی گراوٹ آ گئی ہے۔ملک میں جاری بیف مسئلہ کے سبب ’ ریڈ میٹ ‘ کے بیوپاریوں کی فکر میں اضافہ تو کیا ہی ہے اس کے علاوہ ویت نام جیسے ملک سے بیف کی مانگ میں آئی کمی نے بھی بازار کی امیدوں کو کمزور کرنے کا کام کیا ہے۔ملک میں کئی ہندو تنظیموں کے کارکنان کے ذریعے گاؤ کشی کو لیکر بنائے گئے ماحول اور قتل کے معاملات کے سبب بیف کی بر آ مد کرنے والوں میں خوف کا ماحول پیدا ہو گیا ہے۔بیف ایکسپورٹ کے کاروبار سے جڑے ایک فرد کے مطابق ہندو کارکنان خاص کرہماری کمپنیوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور اب تو ذبیحہ کے لئے بھینسوں کا لانا لے جانا بھی دشوار کیا جا رہا ہے۔

چونکہ ہندوستان  میں گائے کشی پر پابندی ہے اس لئے ہم صرف بھینس کے گوشت ہی بر آ مد کرتے ہیں لیکن مختلف افواہوں کے پیش نظر آج کل بھینسوں کے گوشد کو بر آ مد کر نا بھی دشوار ہو تا جا رہا ہے۔

          مختصراً یہ کہ بی جے پی کی ’ مودی سرکار ‘ کو ملک میں اقتدار پر آئے ایک سال سے زائد عرصہ ہو گہا ہے لیکن اس دوران ترقی اور اطمینان کے بجائے ملک میں فرقہ وارانہ منافرت، زہریلی بیان بازی ، گائے کا موضوع اور دال کی مہنگائی جیسے نکات ہندوستان کی سیاست پر چھائے ہوئے ہیں ۔گائے پر جاری سیاست نے بیف مارکیٹ ہی نہیں بلکہ اس کے علاوہ دیگر مارکیٹ اور روزمرّہ کی زندگی کو بھی متاثر کیا ہوا ہے۔اب گائے یا پھر بیف کے موضوع نے اتنا طول پکڑا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ مودی حکومت کے ’ سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘ کی شاہراہ پر گائے ایک ’ اسپیڈ بریکر ‘ کی صورت میں بہر حال کھڑی ہوئی ہے اور جب تک اس موضوع کو ہوا دینے کا کام بند نہ ہوگا تب تک ملک کی ترقی کی رفتار میں ااضافہ بھی شاید ہی دیکھنے کو ملے ؟۔ اب یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر گائے کی اہمیت ہے تو انسان کی اہمیت اس سے بھی زیادہ ہے۔گائے پر انسان کو سبقت دینا کس طرح درست ہے ؟ اگر ملک کی صحیح معنوں میں ترقی چاہتے ہو تو انسان کو نعمت سمجھ کر ملک کی ترقی کے لئے وسائل جانوروں کو نہیں بلکہ انسانوں کو سمجھنا ضروری ہے۔

(یو این این)

****************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 372