donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Shaharyar Jalalpuri
Title :
   Qaum Ki Pahli Zaroorat Qaiyed Ki Hai

قوم کی پہلی ضرورت قائد کی ہے۔؟


شہر یار جلال پوری


    ہندوستانی سیاست کا رنگ حالات اور سمت بڑی تیزی سے ابل رہا ہے۔ کیونکہ گزشتہ تین دہائیوں کی سیاست نے ملکی اور سماجی حالات میں لوگوں کے نظریات امیدوں اور مقاصد میں بہت تبدیلی پیدا کر دی ہے۔ پہلے جن چیزوں کو سماجی زندگی میں معیوب سمجھا جاتا تھا اب حالات نے ان ساری قدروں کو تبدیلی کر رہا ہے۔ اور یہ سب شروع ہوا تھا رامندر آنندن سے۔ جس کا پہلا دور گجرت فسادات تک چلا اور اس کے بعد دوسرا دور مدرس کے وزیر اعظم بننے تک یا اور اب اس سیاست کا فائنل راؤنڈر چل رہا ہے۔ اور اس میں سماج اور سیاست مذہبی ہندو نظریات سے بے انتہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نظر آتی ہے۔پہلے نرم ہندو توا کا الزام صرف کانگریس پر لگتا تھا لیکن آج تقریباً سبھی پارٹیاں چاہے وہ قومی یا علاقائی سب کے سب اپنے بنیادی نظریات کو چھوڑ کر نرم ہندو توا کے نظریات سے متاثر لگتی ہیں شاید اس میں ہم لالو پرسدا کو متثنیٰ رکھ سکتے ہیں۔

    ایسے حالات میں اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کے لئے بڑا مشکل دور ہے۔ کیونکہ آج سبھی کے تیروں کا نشانہ یہی ہیں۔ اور انہیں ہی زیر کرنا نقصان پہونچانا۔ وطن پرستی کی ایک شکل ہوتی جارہی ہے۔ سیکولرزم جس کو مسلمان اپنا سب سے مضبوط ہتھیار اور محافظ مانتا تھا۔ آج ایک مذاقی یا گالی بن کے اہل سیاست کی نظروں میں رہ گیا ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کو بھی وقت کے ساتھ ساتھ اپنے نظریے کو تبدیل کرنا پڑے گا۔ وہ جن بتوں پر بھروسہ کئے ہوئے بیٹھے تھے سب کے سب ایک ایک کرکے منھ کے بل گر رہے ہیں ایسے میں ان کے پاس کوئی نئی حکمت عملی ہونے کی ضرورت ہے۔ اب تک پچھلے۶۸؍برسوں میں مسلمانوں نے ساری حکمت عملی آزمائی ہے۔ اور اس کے سارے فائدہ اور نقصان وہ اٹھا چکے ہیں۔ موجودہ وقت میں جب لوگوں نے جھوم کر بی جے پی کو ووٹ دیا ہے ایسے میں آپ کیسے امید کر سکتے ہیں کہ لوگ صرف مسلمانوں کے لئے کوئی سیکولر ووٹ کریں گے۔ ابھی تک مسلمان سبھی پارٹیوں کے ساتھ رہا ہے لیکن آج مسلمانوں کے ساتھ کوئی نہیں ہے۔کہا جاتا ہے کہ ہندوستان کا آئین سیکولر ہے لیکن یہاں کا سماج فرقہ پرست ہے۔ وہ ذات پان کے لئے ووٹ کرتا ہے۔ مذہب کی بنیاد پر ووٹ کرتا ہے اپنے ذاتی مفادات کے لئے ووٹ کرتا ہے اس لئے اس کو جب جو چیز سوٹ کرتی ہے وہ اس کے لئے ووٹ کرتا ہے۔ اوریہ بات وقت وقت پر ثابت ہو چکی ہے۔ گذشتہ ایک چوتھائی صدی میں بردرانِ وطن کا نظریہ بہت تبدیل ہو چکا ہے۔ اور بی جے پی و آر، ایس، ایس نے وطن پرستی کو مذہب سے جوڑ کر ایک مسلم مخالف فضا پورے سماج میں بنا دی ہے۔ اس لئے مسلم مخالف ہونا آج وطن پرست ہونا بھی مانا جاتا ہے۔ ایسے خطرناک ماحول میں جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ ایک معتبر لیڈ رشپ کی۔ اور آج ہمارے پاس نہ تو ملکی پیمانے پر اور نہ صوبائی پیمانے پر کوئی مستند قائد موجود ہے۔ جمہوریت میں کہا جاتا ہے کہ ناقص قائد بہتر ہے قائد نہ ہونے سے۔قائد اسے کہتے ہیں جو اپنی پالیسیاں خود بناتا ہے۔ اس کا اعلان کرتا ہے اس کے لئے لڑائی لڑتا ہے ۔ ورنہ آپ دیکھئے کہ آج یوپی ودھان سبھا میں ۷۰ سے زیادہ مسلم ایم، ایل، اے ہیں لیکن پچھلے ساڑھے تین سال میں کسی نے مسلمانوں کے کسی مسائل کے بارے میں ہاؤس کے اندر ایک بھی آواز نہیں اٹھائی۔ جب کہ سماجوادی پارٹی کی سرکار میں مسلموں پر ہر قسم کا ظلم ہو چکا ہے۔

    حکومت اور انتظامیہ میں حصہ داری پر بھی کوئی بات نہیں ہوتی ۔ ساری اسکیمیں صرف کاغذ محدود ہیں۔ لوگوں کو یہ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ سرکار بی جے پی کی مخالف ہے یا حمایتی انتظامیہ کا رویہ تعصب سے بھرا ہوا ہے۔ مسلمان خوف زدہ ہے اور فرقہ پرست بے خوف ان سب تجربات کے بعد بھی سیکولرزم کے نام پر سماجوادی پارٹی کو ووٹ دینے کی مجبوری۔

اے زخم بے کسی تجھے بھرجانا چاہئے

    ایسے حالات صرف سیاست کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں اور ان کا جواب سیاسی حکمت عملی سے ہی دیا جا سکتا ہے۔ اس لئے ہم کو اپنے مفادات کو اولیت دیتے ہوئے سیکرلرزم کا ساتھ دینا چاہئے تاکہ بغیر شرط۔ ان حالات میں اگر اترپردیش میں ایم آئی یم پارٹی کا کوئی زور بنت اہے اور کہیں سے کوئی طاقت ملتی ہے تو اس متبادل کو بھی بہت ہوشیاری کے ساتھ آزمانے کی ضرورت ہے لیکن اس ۔۔۔۔۔۔۔۔کے ساتھ کہ حلقے میں ساتھ دینا ہے اور کہاں نہیں۔ لیکن پارٹی کو بھی اس بات کی فکر کرنا ہوگا کہ وہ اگر اپنے آپ کو مضبوطی کے ساتھ یوپی میں پیش کرے گی تو اس کو عوام کی توجہ ضرور ملے گی اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اگر بی ایس پی کے ساتھ اتحاد بنائے تو پارٹی کو اسی طرح کا فائدہ ہوگا جیسے ۹۰ کی دہائی میں ملائم سنگھ سے ہاتھ ملا کر کانسی رام کو ہوا تھا۔میں جونتا ہوںکہ ایم آئی ایم جیسی پارٹی یوپی اور بہار میں سرکار بنانے نہیں جا رہی ہے لیکن ہم جس کی سرکار بنوا سکتے ہیں وہ بھی مسلمانوں کی سرکار نہیں ہوگی۔ مسلمان اس کو چاہے جس تعداد میں ووٹ دیں۔ جب لیڈر مضبوط ذہین با ۔۔۔۔۔۔۔اور تعلیم یافتہ ہوگا تو وہ اپنا اور قوم کا موقف زود دار طریقے سے رکھ سکتا تھا۔ اور موجودہ حالات میں ملک کے حالات اکثریت کی حکومت کے نہیں بلکہ اکثریت کی غنڈہ گردی کے بننے جا رہے ہیں۔ سیکولر لوگوں کی آمد ذہن کمزور ہوئیں ہیں۔ سرکار اور انتظامیہ میں مسلمانوں کا تناسب تر ہوتا جا رہا ہے۔ سماج میں جو میل جول پہلے تھا وہ اب نظر نہیں آرہا ہے۔ مسلم عوام خاص طور پر نوجوانوں میں مایوسی ہے ایسے میں ایک لیڈر شپ کی ضرورت ہے۔ اور اس ضرورت کے بارے میں ہم کو پہلے سوچنا چاہئے تا کہ قوم اس شکست اور ریخت کی نفسیاتی سے باہر آئے۔

(یو این این)


موبائل:9451630555


*****************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 420