donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Shahnawaz Farooqui
Title : قیادت کا بحران
   Qeyadat Ka Bohran

قیادت کا بحران

شاہنواز فاروقی


یہ شکایت عام ہے کہ قیادت کا بحران ایک عالم گیر مسئلہ بن چکا ہے۔ اس سلسلے میں مغربی ملکوں کی صورت حال تیسری دنیا کے ملکوں سے بہتر نظر آتی ہے لیکن مغربی دنیا کے ملکوں کی اصل قوت ان کی قیادت نہیں ان کا نظام ہے۔ مغربی ملکوں میں نظام موجود نہ ہوتا تو ان کی قیادت کا قد مزیدچھوٹا نظر آتا۔ لیکن جب قیادت کے بحران کی بات ہوتی ہے تو کہنے والے کہتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے زمانے میں بڑے لوگ پیدا ہونے بند ہوگئے ہیں۔ لیکن یہ ایک غلط تجزیہ ہے۔ انسان بڑا یا چھوٹا نہیں ہوتا اس کے مقاصد بڑے یا چھوٹے ہوتے ہیں۔ تاریخ کا تجربہ ہے کہ بڑے مقاصد چھوٹے انسانوں کو بھی بڑا بنا دیتے ہیں اور چھوٹے مقاصد بڑے انسان کو بھی بونا بنا دیتے ہیں۔


یہ ایک سامنے کی بات ہے کہ جن قوموں نے یورپی طاقتوں سے آزادی کی جدوجہد کی ان میں ایک دو بڑے رہنما ضرور پیدا ہوئے اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ آزادی کی جدوجہد کا زمانہ بڑے لوگوں کی پیدائش کا زمانہ تھا بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ آزادی ایک بہت بڑا مقصد تھا اور چند لوگوں نے آزادی کی خواہش کو آرزو اور آرزو کو تمنّا بنایا وہ دیکھتے ہی دیکھتے بڑے ہوگئے۔ موہن داس کرم چند گاندھی آزادی کی جدوجہد کے سپاہی بننے سے پہلے ایک اوسط درجے کے وکیل تھے لیکن آزادی کی جدوجہد نے انہیں ہندو قوم کا ’’باپو‘‘ یا باپ بنادیا اور بہت سے لوگوں کو ان کی شخصیت میں ایک طرح کا روحانی پہلو بھی نظر آنے لگا۔ گاندھی کی شخصیت کا بڑا پن یہ ہے کہ آزادی کے بعد بھی بھارت نے پاکستان کی رقم روکی اور پاکستان کے لیے پریشانیاں پیدا کرنی شروع کیں تو گاندھی نے اس پر احتجاج کرتے ہوئے بھوک ہڑتال کی۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ گاندھی کی شخصیت میں ڈرامائیت کا عنصر موجود تھا اور ان کی ہڑتال بھی ایک سیاسی ڈرامے کے سوا کچھ نہ تھی۔ دلوں کا حال اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے لیکن اگر گاندھی کے اس عمل کو سیاسی ڈراما بھی تسلیم کرلیا جائے تو کہا جائے گا کہ اس وقت مسلم دشمنی کی عمومی فضا میں یہ ڈراما کرنا بھی آسان نہ تھا اسی لیے کہ اس ڈرامے کے بھی مضمرات تھے۔ پنڈٹ جواہر لعل نہرو کی شخصیت میں روحانی پہلو تو کوئی نہ تھا مگر آزادی کی جدوجہد کی اثر نے انہیں بھی ایک حد تک معمول کی نفسیات سے بلند کردیا تھا اس کا ثبوت یہ ہے کہ بھارت نے کشمیر پر قبضہ کیا اور اس مسئلے پر بحران پیدا ہوا تو نہرو نے اس سلسلے میں اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اس کے برعکس ان کی بیٹی اندرا گاندھی کو جیسے ہی موقع ملا انہوں نے مشرقی پاکستان میں مداخلت کی اور پاکستان کو دولخت کردیا۔ نہرو کی جگہ اندرا گاندھی ہوتیں تو وہ ہرگز اقوام متحدہ میں نہ جاتیں۔ وہ پاکستان کے خلاف بڑی جارحیت کا ارتکاب کرتیں۔ یعنی مقاصد کے فرق سے قیادت کا فرق اور قیادت کے فرق سے اقدامات کا فرق پیدا ہوتا ہے۔ اندرا گاندھی سے ایک بار انٹرویو میں پوچھا گیا تھا کہ آپ میں اور آپ کے والد میں کیا فرق ہے۔ اس سوال کے جواب میں اندراگاندھی نے کہا کہ میرے والد ایک خواب دیکھنے والے یا Dreamer تھے اور میں حقیقت پسند یا ایک Realist ہوں۔ اندرا گاندھی کی یہ بات سو فیصد درست ہے۔ اندرا گاندھی کاRealism اتنا بڑھا کہ انہوں نے سکھوں کے سب سے مقدس مقام گولڈن ٹیمپل کو بھی نہیں بخشا اور اس پر بھی فوج کشی کر ڈالی۔


بھٹو صاحب ہماری قومی تاریخ کا ایک اہم کردار ہیں۔ اگرچہ مذہبی یا روحانی معنوں میں ان کے مقاصد بڑے نہیں تھے مگر بھٹو صاحب ایک انا مرکز شخصیت تھے اور ان کی انا بڑی تھی۔ اس انا کے لیے پاکستان کی حکمرانی کم پڑتی تھی اور بھٹو صاحب عالم اسلام کے رہنما بن کر ابھرنا چاہتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اگر پاکستان ایٹم بم بنالے تو وہ عربوںکے پیٹرو ڈالر کے ساتھ مل کر ان کی امت گیر قیادت کی راہ ہموار کرسکتاہے۔ اگرچہ یہ ایک شخصی ہدف تھا مگر ہدف بڑا تھا اور اس بڑے ہدف نے بالآخر پاکستان کو ایٹمی طاقت بنا دیا۔ بھٹو صاحب کے بعد پاکستان کو جو رہنما فراہم ہوئے ان کے پاس کچھ اور کیا بڑی انا تک نہ تھی۔ چنانچہ وہ ایٹم بم کی تخلیق اور آئین کی تشکیل کی سطح کا کوئی کام نہ کرسکے۔ یہاں تک کہ بھٹو صاحب کے بعد جو لوگ اقتدار میں آئے انہوں نے اقتدار کو اختیار کے بغیر قبول کرنا شروع کردیا۔ مثال کے طور پر بے نظیربھٹو دوبار اقتدار میں آئیں مگر ان کے پاس صرف اقتدار تھا اختیار نہیں تھا۔ میاں نواز شریف بھی دو بار اقتدار میں آئے مگر ان کے پاس بھی دونوں مرتبہ اختیار نہ تھا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ ان لوگوں کے لیے سیاست قوم کی خدمت کیا ان کا کھیل بھی نہیں تھی۔ ان کے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ وہ وزیراعظم کہلائیں‘ وزیراعظم ہائوس میں قیام کریں‘ ذاتی جہاز میں سوار ہو کر غیر ملکی دورے کریں‘ پانچ سات ہزار لوگوں کو نوکریاں دے کر خوش کردیں۔ اسی سلسلے میں ایک مثال الطاف حسین ہیں۔ چونکہ ان کے مقاصد انتہائی ذاتی ہیں اور ان کی شخصیت میں اتنا بھی تنوع اور گہرائی نہیں جتنی کہ بے نظیربھٹو اور میاں نواز شریف کی شخصیت میں پائی جاتی ہے اسی لیے ایم کیو ایم کی سیاست میں دہشت‘ وحشت‘ تشدد اور بھتہ خوری جیسے عناصر در آئے۔ تجزیہ کیا جائے تو ایم کیو ایم الطاف حسین کی شخصیت کا کامل عکس ہے لیکن یہاں سوال یہ

پیدا ہوتا ہے کہ مقاصدِ حیات آئے کہاں سے ہیں؟


انسانی تاریخ میں اس سوال کے دو جوابات بالکل واضح ہیں ایک یہ کہ مقاصد حیات مذہب کے سوا کہیں سے آہی نہیں سکتے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ انسانی تاریخ میں انسان نے جس عظمت کا اظہار کیا ہے وہ مذہب سے آئی ہے لیکن اب اگر وہ عظمت کہیں موجود نہیں یا اس میں بہت کمی دیکھنے میں آرہی ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ یا تو انسانوں کی عظیم اکثریت مذہب سے لاتعلق ہوگئی ہے یا پھر انسانوں کا تعلق مذہب سے بہت گہرا نہیں رہا۔ لیکن بسا اوقات ایسا بھی ہوا ہے۔ انسانوں نے اپنے بڑے مقاصد کو اپنی تاریخ سے اخذ کیا ہے۔ تاریخ دو حوالوں سے انسانوں پر زیادہ اثرانداز ہوئی ہے اس کا ایک حوالہ کسی قوم کی تاریخ کی بڑی شخصیات اور بڑے واقعات ہیں بڑی شخصیات اور بڑے واقعات انسانوں کے ذہن کو وسعت عطا کرتے ہیں۔ تاریخ کے اثر کی ایک صورت یہ ہے کہ رہنمائوں کو اس بات کا خیال آتا ہے کہ کل جب وہ نہیں ہوں گے تو تاریخ انہیں کن الفاظ میں یاد کرے گی۔ تاہم ہمارے زمانے تک آتے آتے تاریخ ان دونوں حوالوں سے موثر نہیں رہی۔ لوگ محسوس کرتے ہیں کہ تاریخ مردہ ماضی ہے اور اسے زندہ نہیں کیا جاسکتا اور رہنمائوں کی ایک بڑی تعداد خیال کرتی ہے کہ مرنے کے بعد کوئی ہمیں برے الفاظ میں یاد کرے گا تو اس سے کیا فرق پڑے گا؟

***********************
Comments


Login

You are Visitor Number : 807