donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Shahnawaz Farooqui
Title : شریعت، مسلمان اور عصرِ حاضر
   Shariat Msalman Aur Asre Hazir

شریعت، مسلمان اور عصرِ حاضر
 
شاہنواز فاروقی
 
امریکا کے ایک تحقیقاتی ادارے کے امت گیر سروے کے مطابق مجموعی طور پر مسلمانوں کی 75 فیصد آبادی اپنے ملکوں میں شریعت کا نفاذ چاہتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ شریعت کے نفاذ کی یہ خواہش کسی ایک خطے تک محدود نہیں۔ سروے کے مطابق جنوبی ایشیائ، جنوب مشرقی ایشیائ، مشرق وسطیٰ، یہاں تک کہ شمالی افریقہ کے ممالک کے مسلمانوں کی عظیم اکثریت بھی شریعت کی بالادستی چاہتی ہے۔ سروے کے مطابق پاکستان میں 84 فیصد لوگ شریعت کے نفاذ کے حامی ہیں۔
 
مسلمانوں نے یورپی طاقتوں کی غلامی کا ایک ایسا عہد بسر کیا ہے جس میں وہ گہری مایوسی کا شکار ہوگئے تھے، یہاں تک کہ برصغیر میں ایک شاعر نے یہ تک کہ دیا   ؎
 
 
مسلمانو نہ گھبرائو خدا کی شان باقی ہے
ابھی اسلام زندہ ہے ابھی قرآن باقی ہے
 
اکبر الہ آبادی کا تہذیبی تصور غیر معمولی تھا، مگر تغیر زمانہ کی نوعیت ایسی تھی کہ اکبر نے کہا   ؎
 
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اِس زمانے میں
 
اکبر کے اس شعر میں تھانے کا مطلب صرف پولیس چوکی نہیں ہے۔ اس میں مغرب کے علوم وفنون بالخصوص سائنس تھی جو کہہ رہی تھی کہ ہماری کائنات معاذ اللہ ایک بے خدا کائنات ہے۔ دوسری طرف عیسائیت کا تصورِ تثلیث تھا جو ایک جانب مسلمانوں کے تصورِ توحید کا مذاق اڑاتا تھا اور دوسری جانب کہتا تھا کہ تثلیث کا تصور اتنا نازک یا Delicate ہے کہ مسلمانوں کا وحشی ذہن اس کو سمجھنے کی استعداد ہی نہیں رکھتا۔ لیکن مسلمانوں نے ان تمام حملوں کو جھیل کر اور جذب کرکے دکھا دیا، اور بہت جلد برصغیر کے مطلع پر اقبالؒ اور مولانا مودودیؒ جیسی شخصیات طلوع ہوگئیں جنہوں نے مسلمانوں کو اسلام پر فخر سکھایا۔ لیکن مسلم دنیا کی آزادی کے بعد عالمِ اسلام میں ایک عجیب منظر طلوع ہوا۔
 
مسلمانوں کا اصل تشخص اسلام تھا، لیکن مسلم دنیا کی آزادی کے بعد بیشتر مسلم ملکوں میں مسلمانوں پر ایسے حکمران مسلط ہوگئے جن میں اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے تین ہولناک خرابیاں تھیں۔ پہلی خرابی یہ تھی کہ یہ حکمران اپنی تعلیم اور تربیت میں سیکولر اور لبرل تھے، اور وہ کہتے ہوں یا نہ کہتے ہوں لیکن وہ اسلام کو ’’ماضی کی یادگار‘‘ سمجھتے تھے۔ ان کی دوسری بڑی خرابی یہ تھی کہ یہ حکمران صرف نام کے آزاد تھے، ورنہ ان کی وفاداریاں یا تو امریکا اور یورپ کے ساتھ تھیں یا سوشلسٹ سوویت یونین کے ساتھ۔ ان حکمرانوں کا تیسرا بڑا عیب یہ تھا کہ ان میں سے اکثر عوام میں مقبول بھی تھے۔ اس کی ایک مثال مصطفی کمال اتاترک تھا۔ اس کی دوسری مثال مصر کا جمال عبدالناصر تھا۔ اس کی تیسری مثال ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ اس کی چوتھی مثال سوئیکارنو تھا۔ اہم بات یہ تھی کہ ان حکمرانوں کا تسلسل چالیس پچاس سال تک برقرار رہا۔ اتنے بڑے عرصے میں اصولی اعتبار سے مسلم عوام کو سیکولرازم اور لبرل ازم کا ’’عادی‘‘ ہوجانا چاہیے تھا اور اسلام کے ساتھ ان کے تعلق کو اتنا کمزور ہوجانا چاہیے تھا کہ وہ ان کی فکر اور انفرادی واجتماعی زندگی کا مرکزی حوالہ نہ رہے۔ لیکن مذکورہ سروے سے معلوم ہورہا ہے کہ مجرد یا جذباتی اسلام نہیں ’’ٹھوس شریعت‘‘ مسلمانوں کی سب سے بڑی آرزو ہے، اور مذکورہ حقائق کی روشنی میں یہ بات کسی معجزے سے کم نہیں۔ اس معجزے کا ایک پہلو یہ ہے کہ اسلام کے خلاف گزشتہ دس گیارہ سال میں اتنا زبردست پروپیگنڈا ہوا ہے کہ اسلام اور تنگ 
 
نظری اور اسلام اور انتہا پسندی ہم معنی بن کر رہ گئے ہیں۔ اس صورت ِحال کا دبائو غیر معمولی ہے اور مسلمانوں کی مشہورِ زمانہ ’’کمزور نفسیات‘‘ پر اس کا کچھ نہ کچھ اثر ہونا چاہیے تھا۔ لیکن مسلم دنیا کے 75 فیصد عوام اسلام کے خلاف بے پناہ پروپیگنڈے کے باوجود کہہ رہے ہیں کہ ہمارے مسائل کا حل تو شریعت میں ہے۔ اس صورت حال کا مفہوم بالکل واضح ہے، اور وہ یہ کہ مسلمان شریعت پر شرمندہ ہونے کے بجائے فخر کرتے ہیں، اور وہ اسے ماضی کی یادگار نہیں 21 ویں صدی کی طرح ’’جدید‘‘ سمجھتے ہیں۔
 
مغربی دنیا اور دیگر اسلام دشمن طاقتوں نے نائن الیون کے بعد اس تاثر کو عام کرنے کی بھی بہت کوشش کی ہے کہ اسلام اور اس کے قوانین پر اصرار بعض ملکوں کے انتہا پسندوں کا مسئلہ ہے۔ لیکن سروے صاف اعلان کررہا ہے کہ اسلام کی طلب آفاقی اور امت گیر ہے اور اس سلسلے میں کسی خاص خطے کی کوئی تخصیص نہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اسلام نے ایک بار پھر نسل، زبان، جغرافیے اور مزاجوں کے اختلافات کو فنا کرکے پس منظر میں دھکیل دیا ہے، اور اسلام امت ِواحدہ کے تصور کو ایک بار پھر پوری شدت کے ساتھ عالمی سطح پر ابھار رہا ہے اور بتا رہا ہے کہ امتِ مسلمہ کی سمتِ سفر کیا ہے اور اس سے کیوں بے شمار امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں۔
 
اس سروے نے اس حقیقت کو بھی پوری طرح آشکار کردیا ہے کہ مسلم مفکرین بالخصوص مولانا مودودیؒ ، اقبال ؒ اور سید قطب شہیدؒ کے اثرات نے حقیقی معنوں میں عالمگیر فکری اور حسّی تجربہ پیدا کرکے دکھادیا ہے اور مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد کو اس قابل بنادیا ہے کہ وہ زمان ومکان کے جبر سے آزاد ہوکر سوچ رہے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ آج نہیں تو کل زمان ومکان سے آزاد ہوکر عمل بھی کریں گے۔
 
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مذکورہ سروے کے نتائج مسلمانوں کے ایک گہرے تضاد کی نشاندہی کرتے ہیں، اور وہ تضاد یہ ہے کہ مسلمانوں کا مثالیہ یا Ideal اسلام ہے مگر وہ ووٹ سیکولر اور لبرل طاقتوں کو دیتے ہیں۔ لیکن یہ سروے مسلمانوں کے تضاد کو نہیں ان کے ایک گہرے روحانی اور نفسیاتی مسئلے کو سامنے لاتا ہے۔ مسلمانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے جذبے کو شعور نہیں بنا پائے۔ لیکن ایک گہرا تاریخی اور تہذیبی عمل مسلمانوں کے جذبے کو شعور میں تبدیل کررہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی مسلم ملکوں میں اسلامی تحریکیں بڑی سیاسی قوت بن کر ابھر چکی ہیں اور یہ سلسلہ اِن شاء اللہ مسلسل آگے بڑھے گا۔ اہم بات یہ ہے کہ اسلام جذبے کی سطح پر ایک بڑی قوت ہے اور مسلم دنیا اس جذبے کی دولت سے مالامال ہے۔ یہ جذبہ نہ ہوتا تو امت عصر کے جبر تلے دب کر کب کی فنا ہوچکی ہوتی۔
 
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 904