donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Shaikh Mateen
Title :
   Haalate Hazra Aur Islam Ka Aik Aham Taqaza

حالاتِ حاضرہ اور اسلام کا ایک اہم تقاضہ 

 

شیخ متین

(سکریٹری جماعت اسلامی ہند مہاراشٹر ممبئی)

9423460643

 

    دین اسلام تمام انسانوں کے لیے ایک مستند ، فطری اور قابل عمل نظام زندگی اور دنیا و آخرت کی فلاح و کامرانی کا واحد ذریعہ ہے۔ دعوت دین مسلمانوں کا منصبی فریضہ ہے۔ ملک کے مجموعی حالات ایک ایسے متبادل نظامِ زندگی کا تقاضہ کررہے ہیں جو انسانوں کے لیے امن و سکون ، عزت و عظمت اور ترقی و نجات کا ضامن ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ متبادل نظام زندگی صرف ’’اسلام‘‘ ہی ہے۔ 

    بنت الاسلام نے اپنی کتاب ’’داعی کے اوصاف‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’ کوئی شے فی نفسہٖ کتنی ہی اچھی اور مفید کیوں نہ ہو، اسے دنیا میں پھیلانے کے لیے ہمیشہ اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ دنیا والوں سے اس کا تعارف کرایا جائے اور انہیں بتایا جائے کہ اس میں کیا کیا خوبیاں اور فائدے ہیں۔ یہ تجارت کا ایک مسلمہ قاعدہ ہے کہ سامانِ تجارت کتنا ہی عمدہ کیوں نہ ہو، اُس کی گرم بازاری کے لیے ہوشیار، فرض شناس ایجنٹوں کی ضرورت رہتی ہے اور ایسے ہی اُن خریداروں کی بھی جو گواہی دیں کہ انہوں نے اسے برت کر مفید پایا ہے۔ بسا اوقات ایسے ہوتا ہے کہ ایجنٹوں کے سُست اور فرض ناشناس ہونے کے باعث اچھی اشیاء سرو بازاری کا شکار ہوجاتی ہیں اور نسبتاً گھٹیا درجے کی چیزوں کی صرف اس لیے مانگ بڑھ جاتی ہے کہ ان کے ایجنٹ ہوشیار، چست و چالاک اور فعال ہوتے ہیں۔

    دین اسلام بھی اگرچہ وہ بہترین نظام ہے جو انسانیت کو دیا گیا ہے مگر ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ اہلِ دنیا کی غالب اکثریت اس بہترین نظام سے غافل دوسری طرز ہائے زندگی کو اپنائے ہوئے ہے۔ اس کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہے کہ جس اُمّتِ مسلمہ پر یہ ذمہ داری ڈالی گئی تھی کہ وہ اہل دنیا کو اس سے واقف کرائے اور اس کے احکام کو برت کر انہیں عملاً اس کی خوبیوں کا مظاہرہ کرے۔ مُدتیں ہوئیں وہ سخت قسم کی فرض ناشناسی کا شکار ہوچکی ہے۔ حالانکہ حضورؐ کے اقوال کے مطابق دین کی دعوت دیتے رہنا انتہائی نفع بخش سودا ہے۔

    حضرت سہیلؓ سعد سے روایت ہے کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ خدا کی قسم، اگر اللہ تیرے ذریعے ایک آدمی کو بھی ہدایت فرما دے تو یہ تیرے لیے سُرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔ (بخاری، مسلم

    حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے ہدایت کی طرف بلایا، اس کے لیے اتنا ہی اجر ہے جتنا اُن لوگوں کے لیے جنہوں نے اس ہدایت کی پیروی کی، بغیر اس کے کہ پیروی کرنے والوں کے اجروں میں سے کچھ کم کیا جائے اور جس نے گمراہی کی طرف دعوت دی، اس کے لیے اتنا ہی گناہ ہے جتنا ان لوگوں پر جنہوں نے اس گمراہی کی پیروی کی بغیر اس کے گمراہی کی پیروی کرنے والوں کے گناہوں میں سے کچھ کم کیا جائے۔ (مسلم) 

    حقیقت یہ ہے کہ تبلیغ ایک صدقۂ جاریہ ہے جس کا اجر انسان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔ جس شخص نے کسی کے سمجھانے بجھانے کے باعث ہدایت کی راہ پائی، وہ زندگی میں اس ہدایت کی بناء پر جو جو نیکیاں کرے گا اور آگے جس جس کو ہدایت کی راہ پر لگائے گا اور وہ ہدایت کی راہ پر لگنے والے جو جو نیکیاں اس ہدایت کی بناء پر کریں گے اور پھر یہ سلسلہ جتنا بھی لمبا چلتا چلا جائے گا، سب میں سے اُس انسان کو اپنا اجر برابر ملتا رہے گا جس نے پہلے شخص کو راہ دکھائی تھی۔‘‘ 

    جماعت اسلامی ہند اپنے قیام ہی سے ریاست مہاراشٹر اور پورے ملک میں انتہائی منظم ، پرامن، تعمیری و جمہوری طریقوں اور معروف و دستیاب ذرائع مثلاً انفرادی و اجتماعی ملاقات، ٹی پارٹی، خطاب عام ، سمپوزیم، دعوتی لیکچرس، عید ملن، قرآن پروچن، ریڈنگ روم و لائبریری ، اسٹڈی سرکلس، دعوتی اجتماعات، بک اسٹالس، موبائل بک وین، بین المذاہب ڈائیلاگ، اسلامک اینڈ دعوۃ سینٹرس ، مشترکہ فورم، داعیان دین کی تیاری، ہر زبان میں اخبارات و رسالوں کا اجرائ، مضامین کی اشاعت، ہر زبان میں قرآن و سیرت و دیگر دعوتی لٹریچر کی تیاری اور تقسیم، اسلام درشن کیندر، بلا لحاظ مذہب خدمت خلق، الیکٹرانک اینڈ پرنٹ میڈیا، فیس بک ، دعوتی ویب سائٹس اور مہمات کے ذریعے دعوت دین کے فریضے کو ادا کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ الحمدللہ اس کے نتائج حوصلہ و امیدافزاء ہیں۔ جماعت کی اس کوشش کے نتیجے میں ملت میں اس کا رجحان بڑھا ہے۔ اور ملت کی چند شخصیات اور فورمس بھی دعوتی کام کی طرف متوجہ ہوئے ہیں ۔


    ’’دارالکفر‘‘ ، ’’دارالشرک‘‘ اور ’’دارالحرب‘‘ جیسی اصطلاحوں اور ان پر بحث ہم سنتے اور پڑھتے آرہے ہیں۔ یہاں ان پر کلام مقصود نہیں ہے البتہ اتنا ضرور کہنا ہے کہ ہمارا یہ ملک بھارت صحیح معنوں میں ’’دارالدعوۃ‘‘ ہے۔ اس لیے کہ یہاں کے باشندے مذہب و امن پسند ہیں اور ملک کے آئین و دستور نے بنیادی حقوق کے تحت اپنے مذہب و نظریات کی دعوت و تبلیغ کی پوری پوری اجازت دے رکھی ہے۔ تجربہ و تجزیہ بتلاتا ہے کہ برادران وطن کو ان کی نفسیات و مزاج کا خیال رکھتے ہوئے سائنٹفک انداز میں  قول و عمل اور انفرادی اجتماعی طور پر دین کی دعوت دی جائے تو وہ اسے سُننے ، سمجھنے بلکہ قبول کرلینے میں بھی تامل نہیں کرتے۔آئے دن کے واقعات اس کے شاہد ہیں۔ 

    حالات حاضرہ اور اسلام کا تقاضہ ہے کہ تمام برادرانِ اسلام غیر مسلم بھائیوں میں دعوتی کاموں کو تیزتر کردیں اوراپنے قول و عمل اور انفرادی و اجتماعی کردار سے دعوت دین دینے کے لیے یکسو ہوجائیں۔ خدانخواستہ  ثم خدانخواستہ ملک کے بدلے ہوئے حالات منصبی فریضہ یعنی دعوتِ دین کو ادا کرنے سے محروم نہ کردیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے شعور و احساس میں ترقی اور دعوتی جدوجہد میں مدد و نصرت فرمائے۔ آمین 

*********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 601