donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : SuHail Anjum
Title :
   Wohi Hua Jiska Dar Tha


وہی ہوا جس کا ڈر تھا


سہیل انجم


جس کا اندیشہ تھا وہی ہوا۔ کئی جگہ تشدد آمیز واقعات ہوئے۔ کئی سرکاری و غیر سرکاری املاک کو نذر آتش کیا گیا۔ متعدد افراد کے خلاف مقدمات قائم ہوئے۔ کئی گرفتار کیے جا چکے ہیں۔ فرقہ پرقت قوتیں اس کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ بعض نیوز چینل بھی اسے ہوا دے رہے ہیں اور پوری کوشش کی جا رہی ہے کہ اسے ایک دھماکہ خیز معاملہ بنا دیا جائے۔ ان کی کوشش ہے کہ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا جو ماحول ہے اسے خراب کیا جائے اور ممکن ہو تو اس کے نام پر فسادات بھی کرائے جائیں۔ اور پھر ان تمام باتوں کا الزام مسلمانوں پر دھر دیا جائے اور یہ باور کرایا جائے کہ مسلمان شر پسند ہیں اور انھیں سماجی اور ملکی امن و امان عزیز نہیں۔ وہ مذہب کے نام پر تشدد میں یقین رکھتے ہیں اور اس کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ معاملہ اہانت رسول کا ہے۔ ایک گستاخ کے نازیبا کلمات کے خلاف احتجاج کا ہے۔ مسلمانوں کے مذہبی جذبات کا ہے۔ ایک شخص نے جس کا نام بھی زبان سے نہیں لیا جا سکتا، شانِ رسالت میں گستاخی کی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اتر پردیش کے وزیر محمد اعظم خان نے کسی کے بیان پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے یہ کہہ دیا کہ آر ایس ایس والے ہم جنس پرست ہیں۔ ان کے اس بیان پر مذموم رد عمل ظاہر کرتے ہوئے مذکورہ شخص نے جو کہ ہندو مہا سبھا کا لیڈر رہا ہے، پیغمبر اسلام آنحضور ﷺ پر جوابی طور پر یہی الزام عائد کر دیا۔ نعوذباللہ۔ حالانکہ انصاف کا تقاضہ تو یہ تھا کہ اگراس کو الزام لگانا ہی تھا تو اعظم خان پر لگاتا، ان کے سیاسی رفقا پر لگاتا یا زیادہ سے زیادہ ان کی پارٹی کے لیڈروں اور کارکنوں پر لگاتا۔ اعظم خان نے ہندووں کے کسی بھگوان یا کسی دیوی دیوتا پر تو الزام لگایا نہیں تھا۔ لیکن اس شخص نے گستاخی کی انتہا کر دی اور ایسی شخصیت کے ناموس پر داغ لگانے کی کوشش کی جو پوری کائنات میں سب سے معظم، سب سے مکرم اور سب سے پاکباز ہیں۔ ایسے میں مسلمانوں کے جذبات کا برانگیختہ ہونا فطری تھا۔ سو جذبات بھڑک اٹھے اور وہ سڑکوں پر نکل آئے۔ کوئی بھی مسلمان خواہ اس کے اندر ایمانی حرارت کم سے کمتر ہی کیوں نہ ہو اسے برداشت نہیں کر سکتا۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے ہمیشہ اپنے عمل سے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ سب کچھ گوارہ کر سکتے ہیں لیکن ایسی گستاخی قطعاً گوارہ نہیں کر سکتے۔


اس گستاخی کے خلاف ملک کے طور و عرض میں مسلمانوں کی جانب سے مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔ قابل ذکر اور قابل ستائش بات یہ ہے کہ یہ تمام مظاہرے پر امن ہوئے ہیں۔ لیکن مغربی بنگال کے مالدہ اور بہار کے پورنیہ ضلع میں تشدد بھڑک اٹھا۔ خبروں کے مطابق مالدہ میں ایک لاکھ سے زائد مسلمان مارچ نکال رہے تھے۔ اسی درمیان جانے کیا ہوا کہ کالیہ چک کے تھانے کو آگ لگا دی گئی۔ کئی گاڑیاں بھی نذر آتش کی گئیں۔ یہ بھی خبر ہے کہ جلوس میں شامل کچھ لوگوں نے دوسرے فرقہ کے کچھ مکانوں کو بھی نشانہ بنایا۔ حالانکہ آزادانہ طور پر ابھی اس کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ ۱۳۰؍ افراد کو ملزم بنایا گیا۔ ان کے خلاف رپورٹ درج کی گئی۔ ان میں سے ۹ کو گرفتار کیا گیا اور ۹ میں سے ۶ کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ اس پوری خبر کا تجزیہ کرنے پر کئی سوال سامنے آتے ہیں۔ جیسے یہ کہ اگر واقعی مسلمانوں نے تشدد برپا کیا تھا تو صرف ۹ کو ہی کیوں پکڑا گیا۔ ان میں سے بھی ۶ کو کیوں چھوڑ دیا گیا۔ جبکہ یہاں تو بغیر کسی قصور کے مسلمانوں کی دھڑا دھڑ گرفتاری ہوتی ہے اور پھر برسوں تک ان کو ضمانت بھی نہیں ملتی۔ اب دو باتیں ہو سکتی ہیں۔ یا تو مسلمانوں کو بلا وجہ پھنسایا گیا یا پھر واقعی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے مسلمانوں کے ساتھ ’’بیجا نرمی‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ’’فسادیوں‘‘ کو چھوڑ دیا۔ جیسا کہ بی جے پی الزام عائد کر رہی ہے۔ ابھی مالدہ کی آگ ٹھنڈی بھی نہیں ہوئی تھی کہ خبر آئی کہ بہار کے پورنیہ ضلع میں بھی آگ لگ گئی ہے۔ وہاں بھی مسلمانوں نے جلوس کے دوران تشدد برپا کیا ہے۔ لیکن روزنامہ انقلاب کی ۹ جنوری کی اشاعت میں اس سلسلے میں جو رپورٹ شائع ہوئی ہے اس کے مطابق تشدد جلوس کے دوران نہیں بلکہ جلوس کے گزر جانے کے بعد بھڑکا۔ اس رپورٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ حرکت کسی اور کی ہے اور بدنام مسلمانوں کو کیا جا رہا ہے۔ اگر یہ بات درست ہے تو پھر کہنا پڑے گا کہ کوئی معشوق ہے اس پردۂ زنگاری میں۔ ایسی بھی خبریں ہیں کہ اتر پردیش کے کچھ مقامات پر بھی کچھ چھٹ پٹ واقعات ہوئے ہیں۔ بہر حال مسلمانوں کے جذبات کا بھڑکنا فطری تھا۔ ان کاجلسے جلوس کرکے حکومت تک اپنی بات پہنچانا اور اپنا احتجاج درج کرانا بھی ضروری تھا۔ تاکہ حکومت کو بھی اور دوسرے لوگوں کو بھی احساس ہو سکے کہ کسی کے مذہبی جذبات کو یوں مشتعل نہیں کرنا چاہیے۔ ملکی قوانین بھی اس کی اجازت نہیں دیتے۔ مذہبی منافرت پھیلانا اور دو فرقوں کے درمیان دشمنی پیدا کرانے کی اجازت آئین و دستور میں نہیں ہے۔ لیکن اب یہاں تھوڑا سا رک کر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ بات آگے بڑھانے سے قبل یہ بتا دیں کہ ابھی پچھلے دنوں لکھنؤ کے دورے میں ایک بزرگ عالم دین مولانا عتیق الرحمن سنبھلی کا اسی موضوع پر ایک مضمون روزنامہ اودھ نامہ میں پڑھنے کو ملا۔ جو اس سے قبل کئی اور اخباروں میں چھپ چکا تھا۔ مولانا سنبھلی نے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کا احترام کرتے ہوئے ان کو یہ مشورہ دیا ہے کہ اس معاملے میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اسے دوسرا رخ دے دیا جائے اور پھر تباہی و بربادی مسلمانوں کا مقدر بن جائے۔ اگلے روز ان سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے گفتگو کے دوران بھی انھی خیالات کا اظہار کیا۔ راقم الحروف شروع سے ہی اس معاملے پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ اس کا بھی خیال ہے کہ مسلمانوں کو احتجاج ضرور کرنا چاہیے لیکن ایک دائرے میں رہ کر۔ اگر دو چار بڑے مظاہرے کرکے حکومت تک اپنی بات پہنچا دی گئی ہے تو بس کافی ہے۔ کسی بھی ملک میں اس کا اپنا قانون ہوتا ہے۔ اسی کے تحت مجرموں کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔ ہندوستان میں ایسا کوئی قانون نہیں ہے کہ دوسروں کے مذہبی جذبات کو بھڑکانے پر کسی کو پھانسی دے دی جائے۔ دستور کی متعلقہ دفعہ کے تحت ایسا جرم کرنے والے کی گرفتاری ہو سکتی ہے۔ مذکورہ شخص کو گرفتار کیا جا چکا ہے اور اس پر قومی سلامتی ایکٹ (این ایس اے) بھی لگایا جا چکا ہے۔ جس میں جلد ضمانت منظور نہیں ہوتی۔ مولانا عتیق الرحمن سنبھلی تنہا ایسے شخص نہیں ہیں جس نے مسلمانوں کو صبر و ضبط سے کام لینے کا مشورہ دیا ہو۔ کئی دیگر سرکردہ علما اور سپریم کورٹ کے معروف وکیل اور مسلم یونیورسٹی علیگڑھ طلبہ یونین کے سابق صدر زیڈ کے فیضان بھی یہ مشورہ دے چکے ہیں۔ وہ کئی بار مذکورہ دفعہ کے حوالے سے اپنی بات رکھ چکے ہیں اور یہ بتا چکے ہیں کہ اس معاملے میں ملک کا قانون کیا کہتا ہے۔ انھوں نے ایک بات چیت میں کہا کہ کوئی بھی مسلمان شانِ رسالت میں گستاخی برداشت نہیں کر سکتا۔ لیکن ملکی قانون کو بھی ہاتھ میں نہیں لینا چاہیے۔ اگر یہاں کا قانون ایسے مجرم کو پھانسی کی اجازت دیتا تو ضرور یہ مطالبہ کیا جانا چاہیے تھا۔ لیکن اس میں صرف مذکورہ دفعہ کے تحت ہی کارروائی ہو سکتی ہے اور وہ ہو گئی ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ملک میں مسلم دشمن عناصر کم نہیں ہیں۔ وہ مسلمانوں کو الجھانے اور ان کے خلاف فساد برپا کرنے کی تاک میں رہتے ہیں۔ ابھی تک تو ان عناصر نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ لیکن وہ کب دھرم کے نام پر ہندووں کے ایک بڑے طبقے کو ایک جٹ کردیں کہا نہیں جا سکتا۔ یہ بھی اہم بات ہے کہ ابھی تک کسی اہم غیر مسلم نے گستاخ رسول کی حمایت نہیں کی ہے۔ بلکہ ہندو مہا سبھا کے صدر نے اس کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ کوئی بھی شرپسند مسلمانوں کے جلوس میں گھس کر دوسروں پر پتھر پھینک سکتا ہے۔ یا دوسری طرف سے مسلم جلوس پر پتھراؤ کر سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ مالدہ اور پورنیہ میں یہی ہوا ہو۔ ان اندیشوں کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے۔ کیونکہ اس صورت میں سراسر خسارہ مسلمانوں کا ہی ہے۔ اہانت قرآن اور کارٹون معاملے پر متعدد مقامات پر فساد اور کئی مسلمانوں کی ہلاکت کے واقعات بھی سامنے ہیں۔ منتظمین جلوس سنجیدہ افراد کے اس مشورہ پر ضررو غور کریں کہ وہ صرف اخباروں میں تصاویر کی اشاعت کے لالچ میں کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں جس سے ملت کا نقصان ہو۔ جہاں تک ناموسِ رسالت کی بات ہے تو اس پر پوری ملت قربان ہو جائے تو بھی کم ہے۔

(یو این این)


sanjumdelhi@gmail.com


*******************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 572