donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Suhail Anjum
Title :
   Musalmano Ko Apna Ehtesab Karne Ki Zarurat


مسلمانوں کو اپنا احتساب کرنے کی ضرورت


سہیل انجم


علامہ اقبال کی ایک نظم کا ایک مصرعہ ہے ”آفتاب تازہ پیدا بطن گیتی سے ہوا“۔ اس مصرعہ میں جو پیغام پوشیدہ ہے وہ موجودہ حالات پر پوری طرح منطبق ہوتا ہے۔ آج الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے شکم سے جو نیا سیاسی منظرنامہ پیدا ہوا ہے وہ اس بات کا متقاضی ہے کہ اس کا کھلے دل اور نہایت دیانت داری کے ساتھ گہرا تجزیہ کیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی اس بات کا بھی تجزیہ کیا جائے کہ آنے والا وقت اپنی زنبیل میں کیا کچھ لے کر آئے گا۔ مزید برآں ہمیں اپنے رویے کا بھی جائزہ لینا ہوگا اور خالی الذہن ہو کر یہ سوچنا ہوگا کہ آج کی جو صورت حال ہے اس کے پیدا ہونے میں دانستہ یا نادانستہ ہمارا کتنا رول رہا ہے۔ اس سیاسی تبدیلی کے اسباب کا تجزیہ کافی دنوں تک کیا جاتا رہے گا، ہمیں اپنے نقطہ نظر سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی اب ہندوستان کے وزیر اعظم ہونے جا رہے ہیں۔ یہ اتنی ہی بڑی سچائی ہے جتنی یہ کہ سورج مشرق سے نکلتا ہے اور مغرب میں غروب ہوتا ہے۔ جس طرح سورج کے طلوع اور غروب کے نظام میں ہم کوئی تبدیلی نہیں کر سکتے اسی طرح اب اس کا ہلکا سا بھی امکان نہیں ہے کہ نریندر مودی کے بجائے کوئی اور وزیر اعظم کی کرسی پر جلوہ افروز ہوگا۔ یہ بھی ایک سچائی ہے کہ انھی مودی کے دور میں ۲۰۰۲ میں گجرات میں مسلم کش فسادات ہوئے تھے مگر مودی نے نہ تو کبھی ان کی ذمہ داری قبول کی اور نہ ہی اظہار افسوس کیا۔ اگر کیا بھی تو اس انداز سے کہ متاثرین کے زخموں کے منہ اور کھل گئے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بی جے پی نے تن تنہا جو۲۸۲ سیٹیں جیتی ہیں ان میں ایک بھی مسلم چہرہ نہیں ہے۔ یہاں تک کہ سید شاہنواز حسین بھی اس میں شامل نہیں ہیں جو واجپئی کی حکومت میں وزیر تھے اور سب سے کم عمر کے وزیر تھے۔ نئی مرکزی کابینہ میں کوئی مسلمان ہوگا یا نہیں اس کا پتا بعد میں چلے گا۔ لیکن بی جے پی کے کامیاب امیدواروں کی فہرست میں ایک بھی مسلمان کے نہ ہونے سے مسلمانوں کے بارے میں نریندر مودی کے تعلق سے جو خدشات رہے ہیں وہ اور قوی ہو جاتے ہیں۔ اسی کے ساتھ اسے آر ایس ایس کے ”ہندی ہندو ہندوستان“ کے نعرے کے تناظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ یعنی ہندوستان میں ہندووں کے علاوہ کسی اور کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اسے مودی کی ”کاریہ شیلی“ یا ان کا طریقہ کار بھی کہا جا سکتا ہے جہاں مسلمانوں کے لیے بظاہر کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مودی آر ایس ایس کی تربیت گاہ کے اسٹوڈنٹ ہیں اور وہ اپنی مادر درسگاہ کے اصول و نظریات سے انحراف نہیں کریں گے۔


ان حقائق کے ساتھ ساتھ کچھ اور حقائق بھی ہیں جن پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ مودی اور بی جے پی کی جانب سے بار بار یہ دعوی کیا جاتا رہا ہے کہ ۲۰۰۲ کے بعد گجرات میں کوئی فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوا۔ یہ ایک سچائی ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ہم مانیں یا نہ مانیں اور اس کی خواہ کوئی بھی وجہ کیوں نہ رہی ہو لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان فسادات کے تعلق سے کسی بھی عدالت میں مودی کو واضح طور پر مجرم ٹھہرایا نہیں جا سکا ہے۔ اسے بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ سیکولر سیاسی پارٹیوں کی حکومتوں میں بھی فسادات ہوتے رہے ہیں۔ تازہ فسادات سماجوادی پارٹی کی حکومت میں ہوئے ہیں جو سیاسی طور پر مسلمانوں کی سب سے بڑی خیر خواہ ہونے کا دعوی کرتی ہے۔ گجرات سے بھی بھیانک فسادات کانگریس حکومتوں میں ہو چکے ہیں۔ لیکن ہم نے جس طرح مودی کو سیاسی اچھوت سمجھا ہے کسی دوسرے وزیر اعلی کو نہیں سمجھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مودی آر ایس ایس کے پرچارک رہے ہیں۔ لوگوں کا یہ بھی عام خیال ہے کہ وہ اپنے دل کے نہاں خانے میں مسلمانوں کے لیے بغض اور کینہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے اپنی کسی تقریر میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف اپنی زبان کبھی نہیں کھولی اور یہ نہیں کہا کہ مسلمان بھی ان کے اتنے ہی اپنے ہیں جتنے کہ دوسرے۔ اس سے ہم انکار نہیں کر سکتے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے نظریات اور ان کی پالیسیاں مسلمانوں کے نزدیک ان کے خلاف رہی ہیں اور ہیں۔ لیکن اس سے بھی انکار ممکن نہیں کہ مسلمانوں نے بھی بی جے پی کو اپنانے کی کسی خواہش کا اظہار کبھی نہیں کیا۔ بی جے پی لیڈروں کی اس دلیل میں کافی دم ہے کہ غیر بی جے پی پارٹیاں مسلمانوں کو آر ایس ایس اور بی جے پی کا ہوا دکھاتی رہی ہیں اور ان میں اس خوف کے جذبات کو پروان چڑھاتی رہی ہیں کہ بی جے پی آجائے گی تو مسلمانوں کا جینا دوبھر کر دے گی۔ لیکن واجپئی کے زمانے میں تو مسلمانوں پر کوئی قیامت نہیں ٹوٹی تھی۔ جن قیامتوں کا حوالہ دے کر مسلمانوں کو بی جے پی سے دور کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے وہ قیامتیں غیر بی جے پی پارٹیوں کی حکومتوں میں توڑی جاتی رہی ہیں۔ 


ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اب وقت بدل چکا ہے۔ اس بدلے ہوئے وقت کو ہم کیسے اپنے حق میں کر سکتے ہیں اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم نے بی جے پی کے بارے میں اپنے دلوں میں جو تصویر بنا رکھی ہے اس کا جائزہ لینے کا وقت آگیا ہے اور یہ جاننے کا وقت آگیا ہے کہ کہیں ہم نے منفی سوچ کے تحت کوئی رائے تو قائم نہیں کی ہے۔ اگر ایسا ہے تو منفی رائے کو مثبت رائے سے بدلنے کی ضرورت ہے۔ اس ملک میں مسلمان اس پیاسے کی مانند ہیں جسے کنویں کی تلاش ہے۔ لیکن مسلمان چاہتے ہیں کہ کنواں خود چل کر ان کے پاس آئے انھیں کنویں کے پاس جانے کی زحمت نہ اٹھانی پڑی۔ جبکہ ایک پیاسے کو کنویں تک پہنچنے کے لیے راہ کی دشواریوں اور صعوبتوں کو خود عبور کرنا پڑتا ہے۔ اسے صرف یہ مقصد اپنے سامنے رکھنا ہوتا ہے کہ وہ کس طرح کنویں تک رسائی حاصل کرے۔ در اصل ہم نے پہلے سے یہ رائے بنا لی ہے کہ جس کنویں کی بات کی جا رہی ہے اس کا پانی زہریلا ہے۔ اگر ہم اس کے قریب گئے تو اس کا زہر ہمیں مار دے گا۔ لیکن اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے زاویہ نظر میں تبدیلی لائیں اور پہلے سے بنائی ہوئی رائے کا دیانت داری کے ساتھ تجزیہ کریں اور یہ جاننے کی کوشش کریں کہ کیا ہم سے کوئی غلطی ہوئی ہے، کوئی کوتاہی ہوئی ہے۔ کچھ لوگوں کو یہ باتیں اچھی نہیں لگیں گی اور وہ کہیں گے کہ ماضی کے تجربات ہمیں ایسا کرنے سے روکتے ہیں۔ ہم نے ماضی میں بہت دھوکے کھائے ہیں اور اب مزید دھوکہ نہیں کھا سکتے۔ لیکن یہ دھوکے تو ہم نے ان سے بھی کھائے ہیں جو ہمارے خیر اندیش ہونے کا دعوی کرتے ہیں۔ جب ہم نے ان کو گلے سے لگایا او راب تک لگائے ہوئے ہیں تو کیا ایک بار یہ تجربہ نہیں کیا جا سکتا کہ اس دشمن کے قریب ہونے کی کوشش کریں جسے ہم کھلا ہوا دشمن کہتے اور سمجھتے ہیں۔ کچھ لوگوں نے انفرادی طور پر اس کی کوششیں کی ہیں او رانھوں نے ان کے بہتر اور خاطر خواہ نتائج دیکھے ہیں۔ اس کی متعدد مثالیں ہیں کہ جب کسی مسلمان نے جن سنگھ، آر ایس ایس یا بی جے پی کے کسی بااثر لیڈر کے سامنے اپنا مسئلہ رکھا ہے تو اس نے اس کی بات سنی ہے اور اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ لہٰذا وقت کے تقاضے کو پہچاننا چاہیے۔ کچھ لوگ اس رائے کی مخالفت کریں گے اور اسے حالات کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے سے تشبیہ دیں گے۔ لیکن اسے گھٹنہ ٹیکنا نہیں بلکہ وقت اور حالات کے مطابق حکمت عملی ترتیب دینا کہتے ہیں۔ اب پانچ سال تک مرکز میں مودی کی حکومت رہنے والی ہے۔ پانچ سال کسی بھی قوم کی ترقی و تنزلی میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ اگر ہم یہ سوچ کر بیٹھ گئے کہ اس پانچ سالہ مدت کو کسی طرح گزار دینا ہے اور اس کے بعد ہماری ہمدرد حکومت قائم ہوگی، تو بڑی نادانی ہوگی۔ اس کی کیا گارنٹی کہ دوبارہ مودی کی حکومت قائم نہیں ہوگی اور اگر مودی کے بجائے کسی او رکی حکومت قائم ہوئی تو اس کی بھی کیا ضمانت کہ وہ ہماری ہمدرد ہی ہوگی۔ ہاں پارلیمانی جمہوریت میں الٹ پھیر ہوتے رہتے ہیں۔ ہار اور جیت آتی جاتی رہتی ہے۔ لیکن سمجھدار شخص وہ ہوتا ہے جو اپنے وقار اور عزت نفس کا تحفظ کرتے ہوئے حالات سے خود کو ہم آہنگ کر لے۔ 


کسی اندیشے میں گرفتار رہنے سے بہتر ہے کہ ہم ایسے حالات پیدا کرنے کی کوشش کریں کہ اندیشے دم توڑ جائیں اور بد گمانیاں کافور ہو جائیں۔ وقت ہمیشہ یکساں نہیں رہتا۔ وہ ہمارے دامن میں کبھی پھولوں کی بارش کرتا ہے تو کبھی کانٹوں کی۔ کبھی مسکراہٹوں کا تحفہ دیتا ہے تو کبھی غموں کی سوغات۔ ہمیں وقت کی قدر کرنی چاہیے اور شبِ تاریک کو دن کے اجالے میں بدلنے کی جرا ¿ت اپنے اندر پیدا کرنی چاہیے۔ کیونکہ وقت نہ کبھی کسی کا مستقل دوست ہوتا ہے نہ مستقل دشمن۔ ہاں وقت سے جو لوگ سبق سیکھنے کے لیے تیار رہتے ہیں وقت ان کے لیے ہمیشہ ایک نعمت بنا رہتا ہے۔ لیکن جو لوگ وقت کی قدر نہیں کرتے وقت بھی ان کی قدر نہیں کرتا اور انھیں بے سمتی کی بھول بھلیوں میں بھٹکنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خوف و دہشت میں مبتلا نہ ہوں۔ ہم تصادم اور ٹکراو ¿ کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے مصالحت و مفاہمت کا راستہ اختیار کریں۔ ہمیں موجودہ حالات سے ہراساں ہونے کی ضرورت نہیں۔ ضرورت ہے تو صرف اس بدلے ہوئے وقت کو اپنے حق میں سازگار کرنے کی۔ یہ کیسے سازگار ہوگا اس پر مل بیٹھ کر اور اپنے گریبانوں میں جھانک کر سوچنے اور غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اسے ابن الوقتی اور موقع پرستی نہیں موقع شناسی کہیں گے اور موقع کو اپنے حق میں استعمال کرنا کہیں گے۔ اگر ہمارے مذہبی عقائد، ہمارے نظریات اور ہماری عزت نفس پر کوئی آنچ نہیں آتی ہے تو ہمیں موجودہ حالات کا وسیع القلبی اور فراخ دلی کے ساتھ استقبال کرنا چاہیے۔ علامہ کہہ گئے ہیں کہ: آفتابِ تازہ پیدا بطنِ گیتی سے ہوا، آسماں ٹوٹے ہوئے تاروں کا ماتم کب تلک۔

sanjumdelhi@gmail.com 


*******************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 839