donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Syed Fazil Hussain Perwez
Title :
   Karnatak Aqliyat Dosti Me Number One


کرناٹک اقلیت دوستی میں نمبر۔ون


جہاں امام و مؤذنین کو ماہانہ ہدیہ پیش کیا جارہا ہے


سید فاضل پرویز

 

    کرناٹک ہندوستان کی پہلی ریاست ہے جس نے مساجد کے اماموں اور مؤذنوں کو ماہانہ ہدیہ دینے کی روایت شروع کرکے ہندوستان کی دیگر ریاستوں کو ایک نئی راہ دکھائی ہے۔ 2014-15ء میں 8ہزار 76 اماموں اور مؤذنین کو مجموعی طور پر 27کروڑ 60لاکھ روپئے ہدیہ پیش کیا گیا ہے۔ امام کو ماہانہ 3100 روپئے اور مؤذن کو 250روپئے اعزازی طور پر ہدیہ پیش کیا جارہا ہے۔ یہ بات کرناٹک کے وزیر بلدی نظم و نسق مجالس مقامی، پبلک انٹرپرائزز اقلیتی بہبود وقف اور حج الحاج ڈاکٹر قمر الاسلام نے ایک خصوصی انٹر ویو میں بتائی۔ انہوں نے بتایا کہ 1990ء میں آل انڈیا امام کونسل نے ائمہ اور مؤذنین کی تنخواہوں سے متعلق سپریم کورٹ میں اپیل کی تھی جس پر 1991ء میں سپریم کورٹ نے احکام جاری کئے تھے کہ ریاستی اوقاف بورڈس کی جانب سے تنخواہیں ادا کی جائیں۔ تاہم مسلم پرسنل لا بورڈ نے اس کے خلاف عرضی داخل کی تھی کہ ائمہ اور مؤذنین کو تنخواہ دے کر ملازم نہیں بنایا جاسکتا۔ جس کے بعد سپریم کورٹ نے تمام ریاستی حکومتوں کو تنخواہوں کی ادائیگی کے احکام جاری کئے تھے۔ تاہم کسی بھی ریاستی حکومت نے اس پر عمل آوری نہیں کی۔ 2013-14ء میں کرناٹک میں کانگریس کی حکومت تشکیل دی گئی اور وہ (قمرالاسلام) وزیر بنے تب صرف 6ماہ باقی تھے۔ انہوں نے چیف منسٹر مسٹر سدارامیا کو ائمہ کرام اور مؤذنین کی معاشی حالت سے واقف کروایا۔ لا ڈپارٹمنٹ کو بھی رضامند کیا جو اس بات سے مطمئن ہوکہ امام کسی بھی حکومت کے ملازم نہیں ہوسکتے۔ جس طرح مقتدی امام کو ہدیہ دیتے ہیں چونکہ کرناٹک حکومت ویلفیر گورنمنٹ ہے اس لئے وہ بھی ہدیہ دے سکتی ہے۔ اس سلسلہ میں لاء ڈپارٹمنٹ نے منظوری دے دی اور ایک بہترین روایت کا کرناٹک سے آغاز ہوا۔ 2015-16میں انشاء اللہ ائمہ اور مؤذنین میں 20کروڑ روپئے بطور ہدیہ تقسیم کئے جائیںگے۔ الحاج قمرالاسلام جنہیں شیر کرناٹک کہا جاتا ہے‘ ہندوستان کے اُن گنے چنے مسلم قائدین میں سے ایک ہیں جنہیں ایوان اسمبلی یا پارلیمان میں داخلے کے لئے کسی مخصوص جماعت کی ضرورت نہیں رہی۔ وہ مسلم لیگ، جنتادل، کانگریس سے منتخب ہوئے۔ وہ چھ مرتبہ ایم ایل اے، ایک مرتبہ رکن پارلیمان اور دو مرتبہ کرناٹک کے کابینی وزیر رہے۔ پہلی بار ایس ایم کرشنا کی کابینہ میں ہائوزنگ، لیبر، اسمال اسکیل انڈسٹریز اور حج کی وزارت قلمدان انہیں تفویض کئے گئے تھے جبکہ مسٹر سدارامیا کی موجودہ حکومت میں انہیں میونسپل اڈمنسٹریشن، پبلک انٹرپرائزز، مائناریٹی ویلفیر کے قلمدان دیئے گئے ہیں۔ کرناٹک مائناریٹی ڈیولپمنٹ کارپوریشن، مائناریٹی ڈائرکٹوریٹ، اردو اکیڈیمی اور مائناریٹی کمیشن انہی کے تحت ہے۔ جناب قمرالاسلام نے بتایا کہ 1998ء میں چیرمین کرناٹک مائناریٹی کمیشن کی حیثیت سے انہوں نے کرناٹک اسٹیٹ ایکشن پلان حکومت کرناٹک کو پیش کیا تھا جس میں اقلیتیوں کی تعلیمی، معاشی، ثقافتی، ترقی، معیاری زندگی کو بلند کرنے کے لئے ایک ایکشن پلان شامل تھا جس میں مسلمانوں سے متعلق تمام محکموں پر مشتمل مائناریٹی ویلفیر منسٹری کی تجویز پیش کی تھی۔ اس ایکشن پلان کو 1999ء میں اس وقت کے وزیر فینانس (موجودہ چیف منسٹر) مسٹر سدارامیا نے قبول کیا تھا۔ اُس وقت ان کے تصور میں بھی نہیں تھا کہ مسٹر سدارامیا چیف منسٹر بنیںگے اور جس مائناریٹی ویلفیر منسٹری کی تجویز پیش کی گئی تھی وہ انہیں ہی (قمرالاسلام) کودی جائے گی۔ جناب قمرالاسلام نے بتایا کہ 2013ء میں مسٹر سدارامیا کی قیادت میں 165وعدوں کے ساتھ کانگریس نے انتخابی منشور پیش کیا جس میں مسلمانوں کی فلاح و بہبود سے متعلق 10وعدے شامل تھے۔ عوام نے بھاری اکثریت سے کانگریس کو مسند اقتدار عطا کیا۔ مسٹر سدا رامیا ’’سی ایم‘‘ بنے اور انہیں مختلف وزارتوں کے قلمدانوں کے ساتھ کابینہ میں شامل کیا۔ دو برس میں مسلمانوں سے کئے گئے نہ صرف 10وعدے پورے کئے گئے بلکہ مسلمانوں کی ہمہ جہت ترقی کیلئے مزید نئی اسکیمات کو روشناس کیا گیا جن میں غریب لڑکیوں کی شادی کے لئے وداعی (بدائی) اسکیم قابل ذکر ہے۔ جس کے ذریعہ ہرمستحق لڑکی کے اکائونٹ میں 50ہزار روپئے منتخب کردیئے جاتے ہیں۔ 2013-14ء میں اقلیتی لڑکیوں کی شادی کے لئے 10کروڑ روپئے خرچ کئے گئے۔ دو ہزار لڑکیوں کی شادیاں ہوئیں۔ 2014-15ء میں 30کروڑ روپئے وداعی اسکیم کے لئے مختص کئے گئے۔ 6ہزار لڑکیوں کی شادی ہوئی۔ اس طرح دو سال میں 40کروڑوپے صرف کرکے 8ہزار لڑکیوں کی شادی کی گئی۔ 2015-16ء کے بجٹ میں 40کروڑ روپئے مختص کئے گئے ہیں‘ اس سال 8ہزار لڑکیوں کی شادیاں ہوںگی۔ آن لائن کے ذریعہ آر ٹی جی ایس سے لڑکیوں کے اکائونٹ میں رقم منتقل ہوجاتی ہے۔ اس بات کا یقین ہے کہ وزارت کے تیسرے سال تک 16ہزار لڑکیوں کی شادیاں ہوجائیںگی اور اللہ نے چاہا تو آنے والے دو برسوں میں ہر سال -10 10 ہزار لڑکیوں کی شادیاں کی جائیںگی۔ مستحق غریب لڑکیوں کی شادی ملت کا سنجیدہ مسئلہ ہے جس پر ملت کے ہر ذمہ دار کو سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا تھا‘ میں نے اس مسئلہ پر چیف منسٹر کو توجہ دلائی اور الحمدللہ! نیت کے مطابق اس کا پھل مل گیا۔ کرناٹک میں آزادی کے بعد پہلی بار وقف بورڈ کا کیڈر اینڈ رکروٹمنٹ بورڈ قائم کیا گیا۔ پہلے آئوٹ سورسنگ کے ذریعہ وقف بورڈ کا کام کاج ہوا کرتا تھا۔ تاہم ہم نے 250 نئی جائیدادیں حکومت سے منظور کروائیں جن میں سے ایجوکیشن اتھاریٹی کے ذریعہ 177 جائیدادوں پر تقررات ہوئے۔ اور ریاست میں 4%مسلم ریزرویشن پالیسی کی بدولت تمام کے تمام 177 جائیدادوں پر مسلم امیدواروں کے تقررات ہوئے۔ یہ ملک بھر میں اپنی نوعیت کا منفرد اقدام ہے۔ انشاء اللہ تقرر کردہ عہدیداروں کو ٹریننگ دی جائے گی۔ جس سے یہ وقف بورڈ کا اثاثہ بن جائیںگے اور جاریہ سال ہی میں وقف بورڈ مستحکم ترین ہوجائے گا۔ ایک دور وہ بھی تھا جب کرناٹک میں اردو کے ساتھ تعصب برتا جاتا تھا آج بنگلور میں اردو ہال کی تعمیر کے لئے ایک کروڑ 20لاکھ روپئے مختص کئے گئے ہیں۔ اردو اکیڈیمی کو پہلی بار دو کروڑ روپئے منظور کئے گئے ہیں۔ اس بات کی کوشش کی جارہی ہے کہ اردو زبان، تہذیب کو فروغ دیا جائے اردو کو روزگار سے مربوط کیا جائے اور ہندوستان کی آزادی میں اہم رول ادا کرنے والی زبان جو قومی اتحاد و یکجہتی کے ضامن بھی ہے۔ تیزی سے اپنے ماضی کی عظمتوں کو دوبارہ حاصل کرسکے۔

    جناب قمرالاسلام نے کہا کہ کسی بھی قوم کی ترقی اور بقاء کے لئے تعلیم ضروری ہے۔ چنانچہ حکومت کرناٹک نے اقلیتوں کی تعلیم میں خصوصی دلچسپی لیتے ہوئے اعلیٰ تعلیم کے حصول کو آسان بنادیا۔ اقلیتی طلبہ کے لئے آن لائن اسکالرشپ کا اہتمام کیا گیا ہے۔ آر ٹی جی ایس کے ذریعہ طلبہ کے اکائونٹ میں اسکالرشپ کی رقم منتقل کردی جاتی ہے۔ جناب قمر صاحب نے بتایا کہ ان کے جائزہ لینے سے پہلے 4.37لاکھ بچوں کو پری میٹرک اسکالرشپ دی جاتی تھی‘ جو دو سال میں 9.98لاکھ تک پہنچ گئی۔ 31دسمبر سے پہلے انہیں ایک ہزار تا 5ہزار تک اسکالرشپ آن لائن جاری کردی گئی۔ اسی طرح پوسٹ میٹرک اسکالرشپ بھی دی جارہی ہے۔

    کرناٹک کے مقبول ترین مسلم سیاسی رہنما بتایا کہ ARU اسکیم پہلے ہی سے تھی جس کے تحت KCET میں کوالیفائی ہونے کے بعد داخلہ حاصل کرنے والے طلبہ کو تین فیصد سود پر ایجوکیشن لون دیا جاتا تھا۔ انہوں (قمرالاسلام) نے اس اسکیم میں ترمیم کرتے ہوئے اسے بلاسودی قرض میں بدل دیا۔ جیسے ہی امیدوار کو کالج میں نشست مل جاتی ہے اس کے ساتھ ہی اسے فیس کی رقم مل جاتی ہے۔ اس سلسلہ میں 15کروڑ روپئے مختص کئے گئے ہیں۔ سال رواں دس کروڑ روپئے اڈوانس دیئے جاچکے ہیں۔ ایسے امیدوار جو پرائیویٹ کالجس میں داخلہ لیتے ہیں انہیں بھی بلاسودی 50ہزار روپئے لون دیا جارہاہے۔ پوسٹ گریجویشن اور پروفیشنل کورسس کے طلبہ کے لئے یہ اسکیم یا سہولت نعمت سے کم نہیں۔ اور یہ ہندوستان میں اپنی نوعیت کی منفرد ہے۔

    سیول سرویسز (آئی اے ایس، آئی پی ایس، آئی ایف ایس) کے لئے 100بچوں کو بنگلور اور حیدرآباد میں کوچنگ دی جارہی ہے۔ کوچنگ کی فیس حکومت  ادا کررہی ہے اور ہر مہینہ کی پانچ تاریخ سے پہلے ان امیدواروں کے اکائونٹ میں فی کس 10ہزار روپئے ٹرانسفر کئے جاتے ہیں۔ ہر مہینہ ان کی رپورٹ کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ اوورسیز اسٹیڈیز کے لئے کرناٹک کے طلبہ کو 10لاکھ روپئے اسکالرشپ دی جارہی ہے جسے 20لاکھ روپئے دیا جائے گا۔ ایسے طلبہ بیرون ملک اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں جن کے والدین کی سالانہ آمدنی 6لاکھ روپئے سے کم ہے وہ اس اسکیم سے فیضیاب ہورہے ہیں۔ جناب قمرالاسلام نے مسٹر سدارامیا کو اقلیت دوست چیف منسٹر قرار دیا جو سماجی انصاف، مساوات اور سیکولر اقدار اور اصولوں پر یقین رکھتے ہیں۔ جنہوں نے اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کے معیار زندگی کو بلند کرنے اور انہیں ہر شعبہ حیات میں دیگر ابنائے وطن کے ساتھ شانہ بہ شانہ ترقی کرنے کے مساوی مواقع فراہم کئے ہیں۔ ان کی شخصی دلچسپی اور قمرالاسلام کی نمائندگی پر ریاست کے 1400اقلیتی نوجوانوں کو ایک نئی زندگی ملی۔ ان نوجوانوں کو بی جے پی کے دور حکومت میں جھوٹے مقدمات کے تحت پریشان کیا گیا تھا۔ میسور کی مسجد میں خنزیر کا گوشت ڈال کر فساد کیا گیا تھا۔ شیموگہ، حسن اور دیگر علاقوں کے نوجوانوں کو فرضی مقدمات میں پھنساکر ان کی زندگی کو برباد کرنے کی سازش کی گئی تھی۔ جناب قمرالاسلام کی نمائندگی پر مسٹر سدارامیا کی ہدایت پر لاء ڈپارٹمنٹ نے اس کی تحقیقات کیں جس سے یہ نوجوان بے قصور ثابت ہوئے ان کے خلاف مقدمات واپس لے لئے گئے۔ سماجی انصاف کی اس سے بہتر مثال اور کیا دی جاسکتی ہے۔ مسٹر سدارامیا جنہوں نے 2015-16ء میں اپنے سیاسی کیریر کا دسواں بجٹ پیش کیا‘ دفعہ 371(J) میں ترمیم کرکے حیدرآباد کرناٹک ریجنل بورڈ کا پہلا چیرمین مسٹر قمرالاسلام ہی کو بنایا۔ اور ایک ہزار کروڑ روپئے سالانہ بجٹ منظور کیا گیا۔ جس سے حیدرآباد کرناٹک کی ہمہ جہت ترقی کے لئے اقدامات کا آغاز ہوا۔ 33ہزار نئی جائیدادوں کی شناخت کی گئی۔ جن پر تقرر کیا جارہا ہے۔ بہرحال ایک نئے دور کا آغاز ہورہا ہے۔ جناب قمرالاسلام نے مسلمانوں سے درمندانہ اپیل کی کہ وہ حکومت کی جانب سے مہیا کی جانے والی سہولتوں سے بھرپور استفادہ کریں۔ وقت ضائع نہ کریں۔ حصول تعلیم اب آسان ہے۔ اگر اب بھی فائدہ نہ اٹھایا گیا تو پھر دنیا کی کوئی طاقت ہماری حالت کو بہتر نہیں کرسکتی۔ والدین اور قوم کے بزرگوں کو اپنا رول ادا کرنا ہوگا۔ بچوں کی تعلیم کے ساتھ ان کی تربیت ضروری ہے۔ انہیں ملت و قوم کا اثاثہ بنانا ہوگا۔

(یو این این)

***********************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 578