donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Tauba Manzar, Jale
Title :
   Bajrangi Bhai Jaan

بجرنگی بھائی جان:ہندوپاک تعلقات کے تناظرمیں


طوبیٰ منظر ،جالے

ڈی اے وی پبلک اسکول، پوپری

 

     ہندوپاک کے تعلقات ہمیشہ سے ہی اُتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں،موقع بموقع رونما ہونے والے واقعات و حادثات سے دوطرفہ تعلقات پر بہت اثر پڑتارہا ہے، بھارت وپاکستان بالترتیب چودہ اور پندرہ اگست کو آزاد ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر نمودار ہوئے، دونوں ممالک کے درمیان خطِ تقسیم ہندو مسلم آبادی کی بنیاد پرکھینچنے کادعویٰ کیا گیا، بھارت جو ہندو اکثریتی علاقہ تھا، ایک سیکولر ریاست قرار پایا، جبکہ تقسیم کے بعد مسلم اکثریتی والے علاقے کو اسلامی جمہوریۂ پاکستان کا نام دیا گیا، آزادی کے بعد دونوں ممالک نے ایک دوسرے سے اچھے تعلقات استوار رکھنے کا عزم ظاہرکیاتھا، مگر ہندو مسلم فسادات ، علاقائی تنازعات اور جن حالات اور پس منظرمیںمتحدہ ہندوستان کی تقسیم عمل میں آئی تھی ،ان سب کے پیش نظراولِ دن سے ہی دونوں ممالک میں کبھی اچھے تعلقات دیکھنے کو نہیں ملے،آزادی کے بعد سے اب تک دونوں ممالک چار بڑی جنگوں، جبکہ بہت سی سرحدی جھڑپوں میں ملوث رہ چکے ہیں،دونوںطرف سے آئے دن سیزفائرکی خلاف ورزی کی خبریں ملتی رہتی ہیں، پاک بھارت جنگ 1971ء اور جنگ آزادی بنگلہ دیش کے علاوہ تمام جنگوں اور سرحدی کشیدگیوں کامحرک مسئلۂ کشمیررہاہے۔

     دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کی بھی بہت سی کوششیں کی گئیں ،جن میں آگرہ ، شملہ اور لاہور کے سربراہ اجلاس شامل ہیں، مگراَسی کی دھائی کے بعددونوں ممالک کے تعلقات میں تلخی تیزسے تیزترہوتی گئی، اس تلخی کا سبب سیاچن کا تنازعہ ، 1989ء میں کشمیر میں بڑھتی کشیدگی ، 1998 میں بھارت اور پاکستانی ایٹمی دھماکے اور 1999ء کی کارگل جنگ کو سمجھا جاتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے2003ء میں جنگ بندی کا معاہدہ اور سرحد پار بس سروس کا آغاز کیا گیا، مگر تعلقات کو بہتر بنانے کی تمام کوششیںپے در پے رونما ہونے والے دہشت گردانہ واقعات کی نذرہوتی گئیں،جن میں 2001ء میںبھارتی پارلیمنٹ کی عمارت پر حملہ ، 2007ء میں سمجھوتہ ایکسپریس ٹرین کا دھماکہ اور 26 نومبر 2008ء کوممبئی کے ہوٹل تاج میں ہونے والا دہشت گردانہ حملہ شامل ہیں۔ ان واقعات کی بناپر ہندوپاک کے درمیان امن کے قیام کے لیے کیاجانے والاہراقدام بے نتیجہ رہ جاتا ہے،حالیہ دنوںمیں بھی گورداسپوربارڈرپرحملہ ہوا،اس کے بعدکشمیرکے اودھم پورمیں کئی فوجی جوان مارے گئے ا وراس کے بعدایک بیس سالہ نوجوان نوید(عثمان،قاسم)کی گرفتاری سے پھردونوںملکوںکے تعلقات میں اُبال ساپیداہوگیاہے۔۔۔۔۔اس سب تناظر میں سلمان خان کی فلم بجرنگی بھائی جان کو دیکھا جائے ،تو یہ فلم پاکستان اور بھارت کے درمیان بہتر تعلقات کی خواہش کا اظہار بھی ہے اور دونوں ملکوںکے عوام کے مابین پائے جانے والے دوستانہ جذبات کی ترجمان بھی،اس فلم کی ہدایت کاری کبیر خان نے کی ہے، اس کا مرکزی کردارایک ایسے معصوم ، سادہ دل ہندو اور مخلص شخص بجرنگی (سلمان خان) کی کہانی ہے، جو ایک ایسی گونگی بچی کی مدد کر رہا ہے ،جو ایک بزرگ کے مزارکی زیارت کے لیے اپنی ماں کے ساتھ پاکستان سے ہندوستان آئی تھی،مگروہ راستے میں ہی  اپنی ماں سے بچھڑ جاتی ہے،بھٹکتی ہوئی وہ بجرنگی سے جاملتی ہے اورپھراسے اس سے قلبی انسیت ہوجاتی ہے؛چنانچہ جب بجرنگی اپنی منگیتر کے گھروالوںکے اصرارپراسے پاکستان بھیجنے کے لیے ایک ٹریول ایجنٹ کے حوالے کرنا چاہتاہے،توبچی جانے سے صاف انکار کرتی اوربلک بلک کر رونے لگتی ہے،پھروہ بچی کسی وجہ سے پاکستان کی بجاے دوبارہ بجرنگی کے پاس آجاتی ہے اور وہ ٹھانتاہے کہ اس بچی کو خود لے کر پاکستان جائے گااور اس کے ماں باپ تک پہنچائے گا۔آگے اس فلم میں یہ دکھایا گیا ہے کہ کیسے پاکستان کے عام لوگ اپنی حیثیت کے مطابق بجرنگی(سلمان خان) کی مدد کرتے ہیں اور اسے سہولت فراہم کرتے ہیں ،جبکہ دوسری طرف پولیس اور سرکاری اہلکاراس پر جاسوس ہونے کا الزام لگا کر پکڑنااورپسِ دیوارزنداں ڈالنا چاہتے ہیں۔فلم کا دلچسپ پہلو ایک پاکستانی ٹی وی رپورٹر چاند نواب کا کردار ہے جوبالی ووڈکے اُبھرتے ہوئے اداکار نواز الدین صدیقی نے نبھایا ہے، یہ ٹی وی رپورٹر چند برس قبل انٹرنیٹ پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو کی وجہ سے مشہور ہوگئے تھے،اس فلم میں چاند نواب کا وہی کلپ نئے سرے سے فلمایا گیا ہے، ان کا وہ منظرانتہائی دلچسپ اور جاندار ہے۔فلم کی موسیقی بھی اچھی ہے اورپاکستانی گلوکار عدنان سمیع کی آوازمیںگائی گئی قوالی ’بھر دو جھولی مری یا محمد‘ نے بھی سماں باندھا ہے۔اس کے علاوہ فلم کے دیگر گانے بھی خوب ہیں اور ان میں سلمان خان اپنے منفرداسٹائل میں جلوہ گرہیں۔کرینہ کپور اس فلم میں اگرچہ مختصر وقت کے لیے جلوہ گر ہوئی ہیں ،مگر انھوں نے اپنے کردار کا بھرپور اثر چھوڑا ہے۔اس فلم میں مختلف مواقع پر صورتِ حال کے مطابق مزاحیہ مکالمے اور مناظربھی ہیں اور کہیں کہیں طنز یہ جملے بازی بھی، جیسے ایک موقعے پر جب سلمان کو پاکستان جانے سے روکا گیا تو وہ کہتے ہیں ’بجرنگ بلی میری مدد کریں گے‘ جس پر ان سے پوچھا گیا کہ ’کیا پاکستان میں بھی کریں گے؟‘۔یہ فلم پاکستان اور بھارت کے درمیان بہتر تعلقات کی خواہش کا اظہار بھی ہے،یہی وجہ ہے کہ گوجرانوالہ چپٹرکے صدر سعید اعوان نے کہا ہے کہ اس فلم کے ذریعے دونوں ممالک کے درمیان نفرت پر مبنی دشمنی کی نفی کی گئی ہے، جبکہ انسانی پہلوؤں اور رشتوں کو اُجاگر کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ’’بجرنگی بھائی جان‘‘ کی دونوں ممالک میں مقبولیت سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دونوں طرف کے عوام مذہبی، سیاسی وسماجی تفریق سے بالاتر ہو کر انسانی رشتوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اس کے لیے سلمان خان اور ان کی ٹیم مبارکباد کے مستحق ہیں، اگر بجرنگی بھائی جان کو ایک وطن پرست ہندوستانی کی نگاہ سے بھی دیکھا جائے ،اس فلم کے کئی مثبت پہلوہیں،مثلاً ایک انڈین فلم میں سب سے بڑا مثبت پہلو یہ ہے کہ پہلی مرتبہ اس میں کشمیرکے ایک حصے کو پاکستان میں دکھایا گیا ہے، جبکہ آج تک ہمارا میڈیا بھی اس کے برعکس چلتارہا ہے اور بسا اوقات کشمیر کو دونوں ملکوں کا میڈیا انڈیا کا حصہ قرار دے چکا ہے ،اسی طرح نہایت خوبصورتی سے کشمیر کے دلکش مناظر دکھائے گئے اور پھر معصوم بچی والے سین میں ہماری تنگ نظری کو بڑے واضح طور پر دکھایا گیا ہے کہ وہ ایک معصوم بچی کوبھی گھر میں جگہ نہیں دے پائے، جبکہ بچوں کو تو سرحدوں،مذاہب کی حدودبندیوں اور ملکوں کے معاملات میں دلچسپی نہیں ہوتی ،اس کے بعد مزید دقت نظری سے دیکھا جائے تو بارڈر پر موجود پاکستانی نوجوانوں کو فطری انسانی جذبے سے سرشار دکھایا گیا، کیا یہ کم ہے کہ ہمارے ہی ملک کی فلم انڈسٹری پاک فوج کے متعلق مثبت چیزیں عکس بند کر رہی ہے۔اس فلم میں سیکنڈ ہیرو کا کردار پاکستانی گمنام رپورٹر چاند نواب سے لیا گیا کیا ہے،جو پاکستانی فلم رائٹرز کے لیے لمحۂ فکریہ ہے ،جو یہ سو چتے ہیں کہ ان کے یہاں کہانیوں کا فقدان ہے اورپاک فلم انڈسٹری کچھ خاص نہیں کرپاتی، سلمان خان بہت بڑے اداکار ہیں؛ لیکن چاند نواب اور پاکستانی کشمیر کی بچی نے یہ واضح کر دیا کہ ان کا صرف نام تھا کام ان دو کرداروں نے ہی ادا کیا ہے۔پاکستانی ایجنسی کے آفیسر کا کردار جس مثبت اندازمیںدکھایا گیا ،وہ بھی پاکستان کے لیے اہمیت کا حامل ہے ،پاکستانی پرچم دکھا یا گیا، باقاعدہ پرچم کو چومتے ہو ئے سین عکس بند ہوا ،پاکستان کے لیے اس سے بڑے اعزاز کی بات کیا ہو گی کہ پاکستانی کرکٹر شاہد آفریدی کو بیسٹ پرفارمنس کے ساتھ دکھایا گیا اور بھارتی عوام کو آفریدی کی صلاحیتوں کاا عتراف کرتے ہو ئے دکھایا گیا۔مجھے یہ فلم ایسی محسوس ہوئی کہ گویااس میں مکمل طور پر پاکستان اور انڈیا کی علیحدگی کی وجوہات کو واضح کیا گیاہے اور دکھایا گیاہے کہ ہندوؤں میں کونسی تنگ نظریاں پائی جاتی تھیں ،جو مسلمانوں اور ہندؤں کے ایک چھت تلے رہنے میں رکاوٹ بنیں۔


    اسی طرح ہم دیکھتے رہے ہیں کہ ہندوستانی فلموں میں خواتین کے کرداروں کی جنسیت کو بڑے پیمانے پر نمایاں کر کے پیش کیا جاتا ہے اور خواتین کے مرکزی کرداروں والی فلمیں کم ہوتی ہیںاوراگرہوتی بھی ہیں،تووہ کم کامیاب ہوتی ہیں۔دنیا بھر کی فلم انڈسٹریزمیں خواتین کو محض سامانِ جنس کے طورپر دکھایا جاتاہے ، عام طورپران فلموں میں مردوں کے مقابلے خواتین کو جنسی طور پر دو گنا زیادہ نمایاں، عریاں، کم کپڑوں میں، پوری طرح یا نیم برہنہ دکھایا جاتا ہے، جب کہ فلموں میں انھیں حقیقت سے پانچ گنا زیادہ دفعہ دلکش کہا جاتا ہے۔خواتین کو ہیجان انگیز لباس میں پیش کرنے میں جرمن اور آسٹریلیا کے بعد بھارت تیسرے نمبر پر ہے، جب کہ 25.2 فی صد کے ساتھ پرکشش خواتین کو فلموں میں دکھانے کے معاملے میںبھارت سرِفہرست ہے؛لیکن ان تمام حقیقتوں سے الگ’’بجرنگی بھائی جان ‘‘ کی کہانی انسان دوستی، انسانی جذبوں کی تابناکی، انسانیت سے محبت، مذہبی رواداری اور مذاہبِ عالم کے احترام کے خوبصورت مناظر سے آراستہ ہے اورہیروئن وڈان جیسے فلموںکی ہیروئن کرینہ کپوراس فلم میں نہایت ہی مہذب لباس و پوشاک میں نظرآتی ہیں۔

    اس فلم سے قبل عامرخان کی ایک فلم ‘‘ پی کے ‘‘ نے مذہبی پاکھنڈیوں اور ٹھگوں کی جہالت پر مبنی چالبازیوں اور ڈھکوسلوں کو بڑے خوبصورت اندازمیں بے نقاب کیا تھا، یہ فلم بھی اردو اور ہندی سمجھنے والے عوام میں بہت مقبول ہوئی تھی، عامر خان کی اس فلم کی کہانی بھی مذہبی رواداری، انسان دوستی اور اعلی انسانی قدروں کے گرد گھو متی ہے،سلمان خان اور عامر خان کی ان فلموں سے قبل پاکستان میں بننے والی فلمیں ‘‘ خدا کے لیے ‘‘ اور ‘‘ بول ‘‘ بھی اپنے منفرد اور سنجیدہ موضوعا ت کے حوالے سے علیحدہ پہچان رکھتی ہیں، ان فلموں میں مسلم معاشرے میں سخت گیر مذہبی نقطۂ نظر رکھنے والے افراد کی سوچ اور عمل کے رد عمل سے پیدا ہونے والے سماجی وقومی و بین الاقوامی مسائل کی نشان دہی کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی تھی۔

     روایتی رومانوی کہانی ، آئٹم ڈانس،بکواس قسم کے ایکشن اور بے معنیٰ گانوں کے بغیر سنجیدہ سماجی مسائل کا احاطہ کرنے والی یہ فلمیں پاکستان کے علاوہ اوورسیز پاکستانیوں میں بھی بہت مقبول ہوئیں ،شائقین کی بھیڑبھی انھیں ملی اورباکس آفس پربھی کامیاب رہیں۔ اس طرح کی فلمیں ہندوپاک میں عوامی سطح پر بد لتے ہوئے سیاسی، سماجی، فکری اور ثقافتی رویوں کی طرف اشارہ کرتی ہیں،روایات سے ہٹ کر خطے کو درپیش فکری، ثقافتی اور سیاسی چیلنجز کو سکرین پرلا نا نہ صرف تاریخی کردار سرانجام دیناہے؛ بلکہ خطہ بھر کے عوام کے درمیان دوستی، مذہبی رواداری اور باہمی احترام کو بھی ترویج دینے میں احسن کردار ادا کر نا ہے۔ فلمی دنیا کے باشعور اربابِ قلم اوردانشوران و تجزیہ کار اس بات کا اچھی طرح ادراک رکھتے ہیں کہ پاکستان اور انڈیا میں مذہبی عدم برداشت اور شدت پسندانہ رویے دونوں ملکوں کے مسائل میں اضافہ کا موجب بن رہے ہیں،بلا امتیازِ مذہب اور رنگ و نسل انسانی برابری اور اعلی انسانی اقدار کی بنیاد پر معاشرے کی تشکیلِ نوکا پیغام عوام تک پہنچانے کا عمل اپنے نتائج آہستہ آہستہ حاصل کرتا ہے اورہمیںپراُمیدرہنا چاہیے۔

(یو این این)

 

***************************

 

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 742