donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Yousuf Rampuri
Title :
   Musalmano Ke Liye Mahfooz Jaye Panah Ka Sawal

 مسلمانوںکے لئے محفوظ جائے پناہ کا سوال


یوسف رامپوری

 

ہندوستان میں مسلمانوں کے حالات روز بروز ابتر ہوتے جارہے ہیں۔ان کے لئے ہر آنے والا سال پہلے کی بہ نسبت زیادہ تاریک معلوم ہوتا ہے۔ حالاں کہ ہر برس مسلمان نئی امیدوں کے ساتھ زندگی کا سفر شروع کرتے ہیں لیکن ان کی یہ امیدیں اسی وقت دم توڑدیتی ہیں جب کوئی فرقہ وارانہ فساد ملک کے کسی حصے میں رونما ہوتا ہے۔دراصل آزادی کے بعد سے مسلمان برابر فرقہ وارانہ منافرت کے شکار ہورہے ہیں۔کوئی سال تو کیا، کوئی مہینہ یا ہفتہ ایسا نہیں گزرتا جہاں انہیں کہیں نہ کہیں فرقہ وارانہ فساد کا سامنانہ کرنا پڑتا ہو۔

فرقہ وارانہ فسادات نے انہیں عدم تحفظ کے احساس سے دوچار کیا ہوا ہے ۔یہ احساس انہیں وقت کے ساتھ پیچھے کی طرف ڈھکیل رہا ہے۔ظاہر ہے کہ کوئی بھی طبقہ یا فرد اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتا جب تک کہ وہ مامون اور محفوظ نہ ہو۔دہشت وخطرات کی حالت میں رہتے ہوئے ترقی کے کوئی معنی نہیں ہوتے۔اس سچائی سے کیسے انکار کیا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کے تحفظ کا مسئلہ ہنوز تشنہ لب ہے ۔اور جب تک یہ باقی رہے گا وہ ترقی بھی نہیں کرسکیں گے۔ہمارے ملک کے موجودہ وزیر اعظم سب کے وِکاس کی بات کرتے ہیں لیکن ان کے وِکاس کا یہ نعرہ دوسروںکے لئے سود مند ثابت ہوسکتا ہے مگر مسلمانوں کو اس سے کوئی فائدہ ملتا نظر نہیں آتا ۔کیوں کہ ان کی حکومت نہ تو ابھی تک فرقہ پرستی کے مسئلہ کو حل کرسکی ہے اور نہ ہی اس سمت میں ایک قدم بڑھاسکی ہے بلکہ واقعات وقرائن یہ بتارہے ہیں کہ ان کی حکومت میں مسلمان اپنے آپ کو پہلے سے زیادہ غیر محفوظ سمجھ رہے ہیں۔ ان کی یہ سوچ بلاوجہ نہیں ہے ، اس کی ٹھوس بنیادیں ہیں۔

جب سے مودی حکومت کی تشکیل عمل میں آئی ہے ، اس وقت سے فرقہ پرست برابر سر اٹھارہے ہیں۔ کئی جگہ ان کے ذریعے فرقہ وارانہ فسادات بھی ہوچکے ہیں اور کئی جگہ وہ فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلانے کی کوشش بھی کرچکے ہیں۔گذشتہ دنوںگھر واپسی کے نام پرمسلمانوںکو ہندوبنانے کی جو مہم چھیڑی گئی ، اس نے بھی مسلمانوں کو خوفزدہ کردیااور انھوںنے سمجھا کہ یہ مسلمانوں کے مذہب پرسیدھاحملہ ہے۔ ہرچند کہ وقت اور آئین کا تقاضہ تھا کہ اس ماحول کو پنپنے نہ دیا جاتا لیکن سرکار اس معاملے میں خاموش تماشائی بنی رہی بلکہ حکمراں پارٹی کے بعض لیڈران تو گھرواپسی کے حامی نظرآئے۔جس سے فرقہ پرستوں کے حوصلے بڑھے۔ مودی حکومت میں ہی ’لوجہاد‘ کا پروپیگنڈہ کرکے مسلمانوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کی گئی۔جب کہ حقیقت سے اس کا کوئی لینا دینا نہ تھا ۔فرقہ پرست مسلمانوں کے خلاف اس طرح کا ماحول بناکر اکثریتی طبقہ کے افراد کی نگاہ میں ان کے تئیں نفرت نہیں پیدا کرنا چاہتے تو اور کیا چاہتے ہیں ؟تکثیری سماج میں مسلمانوں کوالگ تھلگ کردینا، اکثریتی طبقہ کی آبادی کی نظر میں انہیں ذلیل وحقیر بنانافرقہ پرست جماعتوںکا مقصدِاولین ہے تاکہ ہر جگہ مسلمانوں کو دھتکارا جائے ، ان کے ساتھ ناروا سلوک کیا جائے ، انہیں ملازمتوںکے لئے منتخب نہ کیا جائے،ان کے بچوںکومعیاری نجی وسرکاری اسکولوں وکالجوں میں داخلہ نہ ملے، وغیرہ۔حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک طرف مودی سرکار سب کے وکاس کی بات کرتی ہے اور دوسری طرف مسلمانوںکے خلاف اٹھنے والی بے جا آوازوں کو دبانے کی کوشش نہیں کرتی۔

ملک کے آئین کے مطابق مسلمان برابر کے شہری ہیں اور وہ اس بات کا مطالبہ کرنے کا حق رکھتے ہیں کہ دوسرے طبقات کے ساتھ ان کا بھی وکاس ہو ، انہیں بھی ترقی کی راہ میں رواں دواں کیا جائے ، ان کے لئے ایسی راہیں کھولی جائیں کہ دوسرے طبقات کی طرح وہ بھی ترقی کے مزے لیں لیکن مسلمانوں کی جانب سے ترقی کے مطالبات کی آوازیں وقت کے ساتھ مدھم پڑتی جارہی ہیں ، اب مسلمانوںکی تنظیمیں، جماعتیں اور قائدین مسلمانوں کی ترقی کی باتیں کرتے نظرنہیں آتے ،کیوں کہ وہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ اس وقت مسلمانوں کے سامنے اپنی بقا کا مسئلہ درپیش ہے۔انہیں فی الوقت تحفظ کی ضرورت پہلے ہے اور ترقی کی ضرورت بعد میں۔عدم تحفظ نے مسلمانوں کے تمام مسائل کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

عیدالا ضحیٰ کے موقع پر دادری کے ایک گائوں میں گائے کے نام پرجس بے دردی کے ساتھ محمد اخلاق کا وحشیانہ قتل کیا گیا اور ان کے اہل خانہ کو زدو کوب کیاگیا ، اس نے بھی مسلمانوں کو ہراساں وپریشاں کردیا ہے اور پورے ملک میں مسلمانوںکے درمیان بے چینی پائی جارہی ہے۔فرقہ پرستوںکے جارحانہ اقدامات اور عزائم سے صاف طورپر یہ اشارہ مل رہا ہے کہ اب مسلمانوںکو بڑے کا گوشت کھانے نہیں دیا جائے گا۔اتنا ہی نہیں بلکہ ملک کے مسلمان یہ خیال کرنے لگے ہیں کہ کسی بھی بہانے کسی کو بھی قتل کیا جاسکتا ہے ۔عدم تحفظ کا احساس ان علاقوںمیں زیادہ ہے جہاں مسلمان خاصی اقلیت میں ہیں۔ ایسے علاقوںکے لوگ اب اپنے لئے محفوظ پناہ گاہوں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ یہ صورت حال ملک کے لئے نہایت تشویشناک ہے کہ اس کے وہ شہر ، قصبات اور گائوں ایک مخصوص طبقے کے لئے تنگ ہوجائیں جہاں ہندوئوں کی اکثریت ہے۔تازہ خبر کے مطابق محمد اخلاق کے اہل خانہ بساہڑا گائوں کو اپنے حق میں غیر محفوظ سمجھ کر چھوڑچکے ہیں اور وہ کسی محفوظ پناہ گاہ کو تلاش کررہے ہیں۔قارئین کو یاد ہوگا کہ گجرات میں جب بڑے پیمانہ پر فساد پھوٹ پڑا تھا تو گجرا ت کے وہ مسلمان جو ہندئووں کی اکثریتی آبادی والے علاقوں میں مقیم تھے ،اپنی جانوں کو خطرے میں سمجھ رہے تھے اور موقع ملتے ہی وہ اپنے آبائی گائو وں کو چھوڑ کر اِدھر اُدھر کا رُخ کررہے تھے۔یہی صورت حال مظفر نگر کے ان گائووں میں بھی نظر آئی جہاں مسلمان کم تھے۔ کیوں کہ ایسے کئی گائووںمیں مسلمانو ںکا جانی ومالی نقصان زیادہ ہوا تھا۔آئے دن سامنے آنے والی اس طرح کی مثالیں مسلمانوں کے ذہن میں یہ سوال شدت سے اٹھارہی ہیں کہ اب ہندوستان ان کے لئے غیر محفوظ ہوتا جارہا ہے۔

اگر دیکھا جائے تو یہ مسئلہ صرف انہی علاقوںکے مسلمانوںکا نہیںجہاں مسلمان اقلیت میں ہیں بلکہ ان قصبوں ، گائووں اور شہروںکے مسلمانوںکا بھی ہے جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں ۔کیوں کہ یہ حقیقت ہے کہ ملک میں نسبتاًایسے بہت کم شہر وقصبات ہیں جہاں مسلمانوں کی آبادی برادران وطن کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ چند قصبات میں اگر مسلمان زیادہ ہیں تو اس سے کیا ہوا ، اس کے ارد گرد تو ہندوہی زیاد ہ ہیں ، پھرپورے ملک میں ہندوئوں کی آبادی مسلمانوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے، سرکار اور سرکارکے تمام محکمات میں بھی وہی بھاری اکثریت میں ہیں، اس لئے چند گائووں وقصبوںمیں مسلمانوںکے اکثریت میں ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ مسلمانوںکی اکثریتی آبادی والے اضلاع اور علاقے بھی موجودہ حالات میں پوری طرح محفوظ نہیں ہیں۔ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمان کہاں جائیں؟ کیا ملک کے کسی خطے میں انہیں محفوظ جائے پناہ مل سکتی ہے؟

ایسے حالات میں مرکزی اور ریاستی سرکاروںپر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نہ صرف کسی خاص علاقے ،ضلع یا صوبے کو مسلمانوںکے لئے محفوظ بنائیں بلکہ ہر گائوں ، قصبے اور شہر کو محفو ظ ومامون بنانے کی ایماندارانہ سعی کریں ۔اگر سرکاریں واقعی اس کام میں مخلص ہوں اور اپنی سی حتی الوسع جدوجہد کریں تو ملک میں امن وامان کا ماحول بنانا کچھ دشوار نہ ہوگا ۔رہا مسئلہ فرقہ پرست گروہوں اور عناصر کا تو سرکاریں ان کی تخریب کاری اور فرقہ پرستی کا منہ توڑ جواب دے سکتی ہیں ۔مگر افسوس سرکاریں اس بابت مخلص نظر نہیں آتیں ، جس کے سبب چھ دہائیوں سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی فرقہ پرستی کا مسئلہ زندہ ہے بلکہ شباب پر ہے ۔محمد اخلاق کے قتل کے ذمہ دارکون ہیں ؟سرکاروںکی طرف سے قصورواروںکوکیفر کردار تک پہنچانے کی کوششیں ہونی چاہئے تھیں مگر حال یہ ہے کہ ریاستی سرکار اس واقعہ کی ذمہ داری مرکزی سرکارپر ڈال رہی ہے اور مرکزی سرکار ریاستی سرکار پر۔اس طرح کے واقعات کی روک تھام میں کس کا کیا کردار ہونا چاہئے ، اس کی پرواہ کسی کو نہیں ہے۔کیا ہی بہتر ہوتا کہ دونوں حکومتیں اپنی اپنی ذمہ داریاں اس تازہ واقعے کے تعلق سے بھی نبھاتیں اور ایسے تمام واقعات میں بھی ان کی مخلصانہ وایماندارانہ کوششیں سامنے آتیں۔اترپردیش کی سرکار کو چاہئے کہ وہ فرقہ پرستی کے مسئلے پر ترجیحی طورسے غوروفکر کرے ، کیوں کہ یوپی کی موجودہ سرکارکے دور میں بار بار فرقہ وارانہ فسادات پیش آرہے ہیں ۔ ایسے ہی مرکزی سرکار کو بھی خصوصیت کی طرف اس جانب متوجہ ہونا چاہئے ، اس لیے کہ فرقہ پرست عناصر بی جے پی کی سرکار کو اپنی سرکار سمجھ کر ہر طرح کی زیادتی اور جارحیت کو اپنے لیے روا خیال کر رہے ہیں۔مودی سرکارکو چاہئے کہ وہ عملاً فرقہ پرستوں کے خلاف کھڑے ہونے کا ثبوت دے ۔ تاکہ ان کے حوصلے پست ہوں اور فرقہ وارانہ منافرت پر قدغن لگے ۔

(یو این این)


**********************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 509